• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس کو سیاسی جماعت بنانے کا مشورہ دینا مناسب نہیں،تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ) سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ خورشید شاہ کا چیف جسٹس کو سیاسی جماعت بنانے کا مشورہ دینا مناسب نہیں ہے، خورشید شاہ اس طرح کی بات کر کے ایک طرح سے عدالت کی تضحیک کررہے ہیں، عدالت کو بھی اپنا رویہ ایسا رکھنا چاہئے کہ اس کا وقار مجروح نہ ہو، عدلیہ اپنے کام پر فوکس کرلے تو چیف جسٹس اور عدلیہ کے وقار میں اضافہ ہوگا ،بلاول نے لیاری کیلئے سمندر میٹھا کرنے کا جو وعدہ کیا ہے خورشید شاہ اس پر فوکس کریں،کلثوم نواز کی بیماری سچ ثابت ہونے کا نواز شریف کی سیاسی ساکھ سے کوئی تعلق نہیں البتہ جن لوگوں نے ان کی بیماری کو سیاسی بہانہ قرار دیا ان کی سیاسی ساکھ کو ضرور نقصان پہنچا ہوگا،نیب کو متنازع ہونے سے بچانے کیلئے قوانین اور رویے دونوں تبدیل کرنا ہوں گے۔ان خیالات کا اظہار سلیم صافی، بابر ستار، ارشاد بھٹی، حفیظ اللہ نیازی، حسن نثار اور امتیاز عالم نے جیو کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان عائشہ بخش سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ میزبان کے پہلے سوال چیف جسٹس ثاقب نثار بھی اپنی جماعت بنا کر سیاست میں آجائیں، خورشید شاہ، کسی کو کہنے کی ضرورت نہیں کہ سپریم کورٹ سیاسی جماعت بنائے، چیف جسٹس، کیا خورشید شاہ کو سیاسی جماعت بنانے کا مشورہ دینا چاہئے تھا؟ کا جواب دیتے ہوئے بابر ستار نے کہا کہ خورشید شاہ کا چیف جسٹس کو سیاسی جماعت بنانے کا مشورہ دینا مناسب نہیں ہے ، خورشید شاہ اس طرح کی بات کر کے ایک طرح سے عدالت کی تضحیک کررہے ہیں، عدلیہ کے فیصلوں سے اختلاف اور تنقید کی جاسکتی ہے لیکن ادارے کا نقصان نہ کریں۔سلیم صافی کا کہنا تھا کہ خورشید شاہ کو ایسا مشورہ نہیں دینا چاہئے تھا جس میں عدلیہ کے متنازع ہونے کا خدشہ ہو، عدالت کو بھی اپنا رویہ ایسا رکھنا چاہئے کہ اس کا وقار مجروح نہ ہو، عدالتوں کو سیاسی معاملات میں نہیں گھسیٹنا چاہئے ، ہم خود سیاست کے گندے کپڑے عدالت میں دھونے لے جاتے ہیں، ملک اور قوم تب ہی ترقی کرتے ہیں جب ہر کوئی اپنے کام سے کام رکھے، عدلیہ اپنے کام پر فوکس کرلے تو چیف جسٹس اور عدلیہ کے وقار میں اضافہ ہوگا اور خورشید شاہ جیسے لوگوں کو ایسے طنز بھرے بیانات دینے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔امتیاز عالم نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ دیکھیں تو عدلیہ کا سیاسی کردار نظر آتا ہے، ، خورشید شاہ نے چیف جسٹس کو سیاسی جماعت بنانے کا مشورہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کے تناظر میں دیا ہے، اداروں کو اپنا کام کرنا چاہئے دوسرے اداروں کا کام نہیں کرنا چاہئے، ۔حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ خورشید شاہ نے طنز کا نشتر چلایا جسے چیف جسٹس نے سمجھا بھی ہے،۔ارشاد بھٹی نے کہا کہ خورشید شاہ کی پارٹی کی شاندار پرفارمنس کے بعد انہیں مشورہ دینے کو دل کرتا ہے کہ اپنی پارٹی کا نام لوٹو پھوٹو پھر لوٹو رکھ لیں، اگر سندھ کا حال دیکھیں تو قبرستان پیپلز پارٹی کا نام زیادہ مناسب نظر آتا ہے، خورشید شاہ کے سندھ میں 81فیصد لوگوں کو صاف پانی نہیں مل رہا ہے، بلاول نے لیاری کیلئے سمندر میٹھا کرنے کا جو وعدہ کیا ہے خورشید شاہ اس پر فوکس کریں۔دوسرے سوال کلثوم نواز کی بیماری کو سیاسی بہانہ قرار دینے والوں کے غلط ثابت ہونے کے بعد کیا نواز شریف کی سیاسی ساکھ بہتر ہوئی؟ کا جواب دیتے ہوئے حسن نثار نے کہا کہ نواز شریف کی کوئی ساکھ نہیں جو بہتر ہوگی، یہ چور ہیں اس لئے اندر ہیں باقی مفرور ہیں، ان لوگوں نے تو بھٹو کی پھانسی عدالتی قتل پر مٹھائیاں بانٹی ہوئی ہیں۔سلیم صافی نے کہا کہ نواز شریف کی سیاسی ساکھ ان کے ماضی اور غلط سیاست کی وجہ سے خراب ہوئی ہے، نواز شریف جتنی بہادری اور عزم کے ساتھ قید و بند برداشت کرتے ہیں اتنی ہی ان کی ساکھ بہتر ہوگی،کلثوم نواز کی بیماری کے سچ ثابت ہونے سے سیاست، صحافت اور عدالت کی ساکھ مزید مجروح ہوگئی ہے۔ بابر ستار کا کہنا تھا کہ کلثوم نواز کی بیماری سچ ثابت ہونے کا نواز شریف کی سیاسی ساکھ سے کوئی تعلق نہیں بنتا ہے، کلثوم نواز کی بیماری کو جنہوں نے سیاسی بہانہ قرار دیا اب ان کی سیاسی ساکھ کو ضرور نقصان پہنچا ہوگا،کلثوم نواز کوئی سیاسی شخصیت نہیں تھیں ان کی صحت پر سیاست نہیں ہونی چاہئے تھی۔امتیاز عالم نے کہا کہ کلثوم نواز کی وفات پر افسردگی اور ہمدردی کے جذبات حاوی ہیں، کلثوم نواز اگر الیکشن سے پہلے انتقال کرجاتیں تو شاید تبدیلی کی تبدیلی ہوچکی ہوتی، کلثوم نواز تین بار خاتون اول رہیں لیکن خود کو بہت متانت سے پیش کیا، کلثوم نواز کی بیماری سچ ثابت ہونے سے نواز شریف کیلئے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوں گے۔تیسرے سوال نیب اپنا گھر سدھارے، تفتیش کرے، لوگوں کو تھپڑ مارے نہ تذلیل کرے، چیف جسٹس، نیب کو اپنے اندر کیا تبدیلی لانی چاہئے؟ کا جواب دیتے ہوئے بابر ستار نے کہا کہ نیب کو قوانین اور رویہ دونوں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، یہاں بنیادی مسئلہ نیب کا نہیں بلکہ ہمارے تحقیقات کے انداز سے ہے، ہمارے ملک میں تحقیقات ٹارچر، ہراساں اور لوگوں کی تذلیل کر کے ہوتی ہے، وائٹ کالر کرائم میں بھی روایتی طریقے سے ملزم ، اس کی فیملی کو پکڑ کر اور بے عزت کر کے اسی سے معلومات نکال جاتی ہیں۔سلیم صافی کا کہنا تھا کہ نیب نے آج تک احتساب نہیں صرف لوگوں کی تذلیل کی ہے، نیب کی ساخت اور قانون ظالمانہ اور غیرمنصفانہ ہے کہ پہلے کسی کو مجرم بنادیا جائے پھر وہ اپنی صفائی پیش کرے، نیب گرفتار لوگوں کی تشہیر کر کے سیکڑوں لوگوں کی بے عزتی کرچکا ہے جو بعد میں عدالتوں سے رہا ہوجاتے ہیں، نیب میں اعلیٰ عہدوں پر درجنوں ایسے لوگ ہیں جن کا احتساب کیا جانا چاہئے۔حسن نثار نے کہا کہ نیب کو متنازع ہونے سے بچانے کیلئے قوانین اور رویے دونوں تبدیل کرنا ہوں گے۔حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ نیب کے ذریعہ پہلے ق لیگ بنائی گئی اور پھر تحریک انصاف کو بڑھایا گیا، نیب کی کارکردگی کا تمام ملبہ کچھ عرصہ پہلے آنے والے چیئرمین نیب پر ڈالنا درست نہیں ہے، موجودہ چیئرمین نیب کے دور میں بھی چند چیزیں ایسی ہوئیں جنہوں نے پریشان کردیا، نیب نے الیکشن سے پہلے خبر دی کہ نواز شریف نے انڈیا پانچ ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کی اس سے انہیں الیکشن میں نقصان ہوا۔

تازہ ترین