• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کلینک کا دروازہ کھلا، ادھیڑ عمر کا ایک خوش پوش شخص اندر آیا۔ اپنی کرسی سے اٹھ کر ڈاکٹر نقاش نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا ”آئیے جناب مشکور صاحب، آئیے۔ تشریف رکھئے“۔کرسی پر بیٹھنے سے پہلے مشکور نے ڈاکٹر سے کہا ”کیسا لگ رہا ہوں میں آپ کو؟“ ادھیڑ عمر کے مشکور نے ایک اعلیٰ اسٹیل گرے کا سوٹ پہن رکھا تھا۔ لائٹ بلو شرٹ پر اس نے میچنگ ٹائی باندھ رکھی تھی۔ ڈاکٹر نقاش نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ”بہت اسمارٹ لگ رہے ہیں آپ“۔مشکور نے اپنے جوتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”اسپین سے منگوائے ہیں، میں نے۔“ ”دیدہ زیب ہیں“ ڈاکٹر نے کہا ”آپ تشریف رکھیں“۔
”آپ نے فلاں کمپنی کا نام سنا ہے؟“ کرسی پر بیٹھنے کے بجائے مسٹر مشکور نے ڈاکٹر کے قریب جاتے ہوئے کہا ”آپ نے یقیناً نہیں سنا ہو گا۔ جرمن فرم ہے۔ میرا یہ سوٹ اسی کمپنی کا بنایا ہوا ہے۔ پاکستان میں گنتی کے لوگ اس کے سوٹ پہن سکتے ہیں۔ ان میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی شامل ہیں“۔ڈاکٹر نقاش نے مسکراتے ہوئے کہا ”آپ تشریف تو رکھیں مسٹر مشکور“۔
مشکور نے لپک کر ڈاکٹر کو بازو سے تھام لیا اور اسے تقریباً کھینچتے ہوئے کھڑکی کے قریب لے گیا۔ کھڑکی کا پردہ ہٹاتے ہوئے اس نے روڈ کے قریب پارکنگ لاٹ میں کھڑی ہوئی گاڑیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”گیٹ سے تیسرے نمبر پر کھڑی ڈیزلنگ بلیک کلر کی گاڑی فراری ہے“۔ پھر پلٹ کر سینہ تان کر بولا ”یہ میری کار ہے، فراری۔ پاکستان میں دو چار لوگوں کے پاس ہے۔ اپنی میز کی طرف جاتے ہوئے ڈاکٹر نے ہنس کر پوچھا ”فراری میں سوار ہو کر آپ فرار ہو جاتے ہیں؟“
مسٹر مشکور حس لطیف سے محروم تھا۔ ڈاکٹر کی بات اس کے سر سے گزر گئی۔ اس سے پہلے کہ ڈاکٹر اپنی کرسی پر بیٹھتا، مشکور نے دوبارہ ان کو بازو سے تھامتے ہوئے کہا ”آئیے! میں آپ کو فراری کی سیر کراتا ہوں“۔ ڈاکٹر نقاش نے اپنا بازو چھڑاتے ہوئے کہا ”میں ضرور آپ کے ساتھ فراری کی سیر کرنے چلوں گا، فی الحال آپ مجھے اپنے بارے میں بتائیں“۔ ”اپنے بارے میں؟“ مسٹر مشکور نے تعجب سے پوچھا ”کیا بتاؤں؟“۔ ”مسٹر مشکور آپ نے میرے سیکرٹری سے آج کی اپائنمنٹ لی ہے؟“ ڈاکٹر نقاش نے کمال ضبط سے کہا ”آپ کا کوئی پرابلم ہے جو آپ مجھ سے ڈسکس کرنا چاہتے ہیں؟“ ”اوہ مائی گاڈ!“ مسٹر مشکور نے سر پکڑ لیا اور کھلکھلا کر ہنسنے لگا ”میں تو بھول ہی گیا تھا“۔ ڈاکٹر نقاش سائیکاٹرسٹ ہے، ماہر نفسیات، نفسیاتی امراض کا ڈاکٹر ہے۔
”آپ کیا ڈسکس کرنا چاہتے ہیں؟“ ڈاکٹر نقاش نے پوچھا۔ لمحہ بھر سوچنے کے بعد مشکور نے کہا ”زیادہ پرانی بات نہیں ہے یہی کوئی آٹھ دس ماہ کی بات ہے، میں نے سنگاپور کے سیون اسٹار ہوٹل میں اپنی بیٹی کی شادی اور ولیمہ کا اہتمام کیا تھا“۔ ڈاکٹر نے پوچھا ”کوئی گڑبڑ ہو گئی تھی وہاں پر؟“ ”گڑبڑ کیسی!“ مسٹر مشکور نے کہا۔ ”دعوت میں سنگاپور کے علاوہ ملائیشیا اور انڈونیشیا کے بڑے بڑے لوگ آئے تھے۔ پاکستان سے بھی بھاری تعداد میں سیاستدان اور افسران آئے تھے، خیرو خوبی سے تمام رسومات پوری ہو گئی تھیں“۔
ڈاکٹر نے پوچھا ”تو پھر آپ کا پرابلم کیا ہے، مسٹر مشکور؟“ ”میرا پرابلم؟“ مشکور ادھر ادھر دیکھنے لگا، سوچتا رہا، ٹائی سے کھیلتا رہا۔ اچانک اس نے سر اٹھا کر ڈاکٹر نقاش کی طرف دیکھا اور کہا ”مجھے بڑی بڑی مکڑیوں سے ڈر لگتا ہے“۔
ڈاکٹر نے پوچھا ”آپ کے گھر میں مکڑیاں ہیں؟“
”ہیں بے شمار ہیں“ مسٹر مشکور نے ڈاکٹر کو اپنا ہاتھ دکھاتے ہوئے کہا ”اتنی بڑی بڑی مکڑیاں ہیں میرے گھر میں“۔
”کسی خاص جگہ ہوتی ہیں مثلاً کچن، باتھ رومز، اسٹور روم وغیرہ“ ڈاکٹر نے پوچھا ”یا ہر جگہ ہوتی ہیں؟“
”ہر جگہ ہوتی ہیں“ مشکور کی آنکھوں سے وحشت ظاہر ہونے لگی۔ ”کپڑوں کی الماریوں میں، پلنگوں اور صوفوں کے نیچے چھپی رہتی ہیں، تولیوں سے چپکی رہتی ہیں، موزوں اور جوتوں میں ہوتی ہیں“۔ ڈاکٹر نے پوچھا ”آپ نے گھر میں فیومی گیشن کرائی ہے؟“ ”فیومی گیشن والے آئے تھے“ مشکور نے کہا ”لیکن ان کو گھر میں کہیں بھی ایک مکڑی دکھائی نہیں دی“۔
ڈاکٹر نے پوچھا ”آپ کے علاوہ بھی گھر میں کسی اور کو مکڑیاں نظر آتی ہیں؟“ ”یہی پرابلم میں آپ سے ڈسکس کرنے آیا ہوں“ مشکور نے کہا ”میرے علاوہ کسی اور کو مکڑیاں دکھائی نہیں دیتیں“۔ ڈاکٹر نے پوچھا ”آپ کا گھر پرانا تو نہیں ہے؟“ ”نیا ہے“ مشکور نے کہا۔ ”حال ہی میں بینک سے قرضہ لے کر بنوایا ہے“۔
”آپ کو مکڑیاں زیادہ تر کب نظر آتی ہیں؟“ ڈاکٹر نے پوچھا۔ ”رات کے وقت، جب میں سونے کے لئے لیٹتا ہوں“ مشکور نے کہا ”تب کمرے کی چھت اور دیواروں پر ہاتھ جتنی بڑی مکڑیاں رینگنے لگتی ہیں اور میرے گرد جال بنتی رہتی ہیں“۔ ڈاکٹر نے پوچھا ”بینک کے قرضے سے اور کیا لیا ہے، آپ نے؟“ ”فراری میں نے بینک کار فنانس سے لی ہے۔ میرے گھر کا تمام فرنیچر اور کچن آئٹم، ہوم ڈیکوریشن بینک لون سے لیا ہے“ مشکور نے سوچتے ہوئے کہا۔ ”میری بیوی اور بیٹی کے تمام زیورات بینک لون سے لئے ہیں۔ میرے دو بیٹے ایجوکیشن فیسلیٹیشن فنڈ کے قرضے پر ملک سے باہر تعلیم حاصل کر رہے ہیں“۔ ”آپ کا علاج میرے پاس نہیں ہے“ ڈاکٹر نقاش نے کہا ”آپ کا علاج آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے“۔
تازہ ترین