بیگم کلثوم نواز شریف رخصت ہوئیں۔ انکی وفات کیساتھ ہی پاکستانی سیاست کا ایک درخشاں باب بند ہوا۔ ہمارے لئے مگر وہ فکر و تدبرکے بہت سے دریچے کھول گئی ہیں۔ بہت سے سوالات چھوڑ گئی ہیں، جنکا جواب لازم ہے۔ ایک بار پھر ہم نے یہ مقولہ درست ثابت کیا کہ سیاست کے سینے میں دل ہوتا ہے نہ آنکھوں میں حیا۔ اس بات کا بھی شدت سے احساس ہوا کہ ہمارے ہاں سیاسی عصبیت (political polarization) انتہائی گہری ہو چکی ہے۔ یہ بھی آشکار ہوا کہ ہماری سماجی اور اخلاقی اقدار گراوٹ کی اتھاہ گہرائیوں کو چھو رہی ہیں۔ اس بات پر بھی مہر تصدیق ثبت ہوئی کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق سیکھا ہے اور نہ ماضی کی غلطیوں سے۔
بیگم کلثوم نواز کو اللہ اپنے جوار رحمت میں جگہ عنایت کرے۔ وہ کامرانیوں سے بھرپور زندگی گزار کر ملک عدم سدھاری ہیں۔ تین بار ملک کی خاتون اول رہنے والی کلثوم نواز ایک گھریلو خاتون تھیں۔ بد ترین سیاسی حریف بھی انکی سلیقہ شعاری اور عجز و انکساری کی گواہی دیتے ہیں۔ 1999 میںجب منتخب جمہوری حکومت پر شب خون مارا گیا اور وزیر اعظم نواز شریف کو اٹک قلعہ کی کال کوٹھری میں ڈالاگیا تو وہ گھریلو خاتون آمر وقت کے سامنے ڈٹ گئی۔ اس زمانے میں نہ تو چوبیس گھنٹے خبریں اگلتے ٹیلی وژن چینلز کی بھرمار تھی۔نہ درجنوں اخبارات تھے۔ نہ کیمروں کی چکا چوند ۔ نہ مائیک تھامے متحرک رپورٹرز۔ لیکن کلثوم نواز نے جرات مندی سے پرویز مشرف کو للکارا۔ اور اپنے خاوند کو بے انصافوں کے چنگل سے نکلوا کر دم لیا۔ انہیں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کی جدوجہد کا استعارہ سمجھاجاتا ہے۔
کلثوم نواز کی موت ایک المیہ ہے۔مگر اس سے جڑا ایک دوسرا المیہ بھی ہے۔ انکی بیماری پر بہت سوں نے اپنی سیاسی اور صحافتی دکانیںچمکائیں۔ کہا گیا کہ یہ بیماری ایک ڈھونگ اور ڈرامہ ہے۔ تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان نے یہ تک کہہ ڈالا کہ انکے پاس مکمل شواہد موجود ہیں کہ بیماری محض بہانہ ہے۔ مقام افسوس کہ اعتزاز احسن جیسا علم و دانش کا مرقع، اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی خود پر قابو نہ رکھ سکا۔ نہایت وثوق سے اعلان کیا کہ لندن کا ہارلے اسٹریٹ کلینک در اصل شریف خاندان کی ملکیت ہے۔ دلیل دی کہ وہاں کینسر کے مریضوں کا علاج نہیں کیا جاتا۔ گواہی دی کہ یہ بیماری طے شدہ سیاسی ناٹک کا حصہ ہے۔ دعویٰ کیا کہ بس انتظار کریں۔ اس جھوٹ کا پول جلد کھل جائے گا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب ہارلے اسٹریٹ کلینک کے کمرے میں جاسوسی کی غرض سے ایک آدمی کو بھیجا گیا۔ تاکہ کچھ تصویری ثبوت سامنے لا کر کلثوم نواز کی بیماری کا بھانڈا پھوڑا جاسکے۔ حسین نواز کو کہنا پڑا کہ خدا کے واسطے ،ہمیں پریشان نہ کریں۔ ہم پہلے ہی بہت پریشان ہیں۔ وہ قصہ بھی یاد کریں جب انصاف پسندوں کی غیرت نے جوش مارا ا ور وہ لندن میں واقع حسین نواز کے گھر پہنچ گئے۔ دروازے پر ٹھڈے مارے۔ ڈنڈے برسائے اور سیاسی نعرے بازی کی۔کئی دن تک یہ مکروہ کھیل جاری رہا۔ ( لندن اور دبئی کے نائٹ کلبوں میں مصروف اور مخمور آئین شکن کو دیکھ کر ہماری قومی غیرت البتہ گہری نیند سوئی رہتی ہے)۔
میاں نواز شریف اور مریم نواز نے احتساب عدالت میں سو کے قریب پیشیاں بھگتیں۔ آخری دنوں میں وہ کلثوم نواز کی عیادت کیلئے لندن جانا چاہتے تھے۔ مگر انہیں عدالت حاضری سے استثنیٰ نہ مل سکا۔عید کی چھٹیوں میں باپ بیٹی لندن گئے۔ جب عدالتی فیصلہ سنانے کی تاریخ کا اعلان ہوا تو نواز شریف نے درخواست کی کہ کچھ ہفتوں کیلئے اس فیصلے کو محفوظ رہنے دیا جائے ۔ تاکہ وہ بستر مرگ پر پڑی مریضہ کے ساتھ مزید چند روز یا چند ہفتے گزار سکیں۔لیکن ہماری انصاف پسندی نے یہ تاخیر گوارا نہ کی۔
پاکستان میںدھڑلے سے کہا جاتا رہاکہ نواز شریف اور مریم مقدمات اور سزا سے بچنے کا بہانہ تراش رہے ہیں۔ حلفاً اور قسماً کہا گیاکہ بیگم کلثوم نواز کی موت واقع ہو چکی ہے۔ مگر سیاسی مفاد کی خاطر "بے حس خاندان" نے انہیں وینٹی لیٹر لگا رکھا ہے۔ عدالت نے باپ بیٹی کو عمر قید کی سزا سنائی تو انہوں نے وطن واپسی کا رخت سفر باندھا۔تب غیبی خبروں تک رسائی رکھنے والے صحافی، شریف خاندان کے منصوبے کی خبر کھوج لائے۔قوم کو بتایا کہ جیسے ہی میاں صاحب اور مریم دبئی ائیرپورٹ اتریں گے، وینٹی لیٹر ہٹا دیا جائے گا۔ بیگم کلثوم نواز کی موت کا اعلان ہو گا، اور باپ بیٹی پاکستان واپس آنے کے بجائے لندن پلٹ جائیں گے۔ لیکن میاں نواز شریف اور مریم پاکستان آئے۔ گرفتاری دی اور اڈیالہ جیل جا پہنچے۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے کبھی سنجیدگی سے آواز کیوں نہیں اٹھائی کہ قومی میڈیا پر صحافیوں، اینکروں اور تجزیہ کاروں کا روپ دھار کر بیٹھی ، لمبی زبانوں والی، اس مخلوق کو لگام ڈالنے کا اہتمام ہونا چاہیے۔
افسوس کہ یہ سب کچھ اس سماج میں ہوا جہاں اخلاقیات، روایات اور اقدار کو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جہاں میرٹ، احتساب اور انصاف جیسے معاملات پر بلند آہنگ بھاشن دئیے جاتے ہیں۔ یہ سب اس مذہب کے پیروکاروں نے کیا جو سلامتی، امن، بھائی چارہ، ہمدردی، اور غم گساری کاد رس دیتا ہے۔ یہ وہ اخلاقی معیار ہیں جنکی اہمیت عبادات سے کسی طور کم نہیں۔ ہم تو اس مذہب کے ماننے والے ہیں جو ہدایت کرتا ہے کہ اے ایمان والو! بد گمانیوں سے بچو، کیونکہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں۔اور حکم دیتا ہے کہ جب تم تک کوئی خبر پہنچے تو تصدیق کر لیا کرو۔
بیگم کلثوم نواز کا معاملہ اب اللہ کی عدالت میں ہے۔ رہا شریف خاندان تو اسکے معاملات پاکستان کی عدالتوں میں ہیں۔ ان پر بات کرنا کار محال ہے۔ مگر ایک عدالت تاریخ بھی سجاتی ہے۔قائد کے پاکستان میںقائد کی لاڈلی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو انڈین اور امریکی ایجنٹ کہا گیا۔ انہیںغدار کا لقب دیا گیا تھا۔ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو قاتل قرار دے کر تختہ دار پر لٹکا دیاگیا تھا ۔ جمہوریت کی علم بردار محترمہ بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک کہا جاتا رہا۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قومی راز فروخت کرنے والا مجرم کہا گیا۔ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کا دفاع نا قابل تسخیر بنانے والے نواز شریف کو ہائی جیکر قرار دیا گیا تھا۔تاریخ کی عدالت نے مگر ان سب کو سرخرو کیا۔ شریف خاندان کے معاملات بھی مورخ کے سپرد کیجئے تاہم اپنے الفاظ اور رویوں سے جو کچھ ہم نے بیگم کلثوم نواز اور شریف خاندان کیساتھ کیا اس پر ضرور غور ہونا چاہیے ۔
کسی کے موذی مرض کا تمسخر اڑانا اور اس انتہائی حساس معاملے کو بھی جنس سیاست بنا دینا انتہائی افسوسناک ہے۔معذرت کے رسمی جملے، اس تکلیف کی تلافی ہرگز نہیں کر سکتے جو بیگم کلثوم کے وابستگان کو پہنچائی گئی۔ حقیقت یہ ہے ایسے لوگوں نے کسی فرد واحد(بیگم کلثوم نواز)سے زیادتی نہیں کی، بلکہ سماج کی خوبصورتی کیساتھ ظلم کیا ہے۔ اخلاقی اور سماجی روایات کو زک پہنچایا ہے۔ بیگم کلثوم نواز تو اللہ کے سپرد ہوئیں۔ جن لوگوں نے مرحومہ کے عزیزوں اور پیاروں کی ہی نہیں ، لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کی دل آزاری کی ہے انہیں بھی ایک دن اسی اللہ کے پاس جانا ہے۔ لمبی زبانوں والے اس دن کو ضرور یاد رکھیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)