تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ (پچیسویں قسط) دیوار براق یا دیوار گریہ کا وزٹ مسجد اقصی کی زیارت کے ضمن میں ایک اور جگہ کا ذکرکرنا بہت ضروری ہے ، وہ بیت المقدس کے مغربی جانب تقریباً 2411 سال پرانی ایک 488میٹر لمبی اور19میٹر اونچی دیوارہے یہودیوں کے نزدیک یہ دیوار (ان کے زعم کے مطابق) عظمت رفتہ کی یاد گار سمجھی جاتی ہے اور بیت المقدس میں یہی ایک دیوار ہے جس کے بہانے سے وہ مسجد اقصیٰ پر قبضہ جمانا چاہتے ہیںاس کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی بہانہ نہیں جس کو بنیاد بنا کر وہ مسجد اقصیٰ پر اپنا حق جتا سکیں اورظالموں نے اسی ایک دیوار پر قبضے کا بہانہ بنا کر پورے فلسطین میں ظلم وستم اور قتل و غارت کا بازار گرم کیا ہوا ہے اور تمام انسانی حقوق اور انسانیت کو پامال کیے جارہے ہیں ۔اس دیوار کی ایک جانب کو دیوار گریہ اور دوسری جانب کو دیوار براق کے نام سے یاد کیاجاتاہے یا یوں کہہ لیجئے کہ مسلمان جسے دیوار براق کہتے ہیں اور دوسری جانب اسے یہودی دیوار گریہ کہتے ہیں ۔اس دیوار براق یا اس کی پچھلی جانب دیوار گریہ تک جانے کے لیے قدیم بازار سے گزرتے ہوئے پتھریلی ناہموار زمین کا طویل راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ اس دیوار تک جانے کے لیے ایک تفتیشی گیٹ بنایا گیا ہے جہاں اسرائیلی سیکورٹی گارڈ متعین ہوتے ہیں۔ یہودیوں کو عموماً بلا روک ٹوک اندر جانے کی اجازت ہے۔ باقی زائرین کا داخلہ گارڈز کی صوابدید پر ہوتا ہے۔ ہمارے پاس وقت کافی محدود تھا ابھی ہم نے داؤد محل سمیت کئی جگہوں کا وزٹ کرنا تھا اس لیے ہم نے دیوار گریہ تک جانے کا ارادہ ملتوی کردیاکیونکہ اس دیوار کا اندرونی حصہ دیوار براق ہم اچھی طرح دیکھ بھی چکے تھے بلکہ مسجد براق میں کافی دیر بیٹھنے کی سعادت ہمیں حاصل ہوچکی تھی۔ اس لیے دیوار گریہ کے قریب جانے کا کچھ زیادہ شوق بھی نہ تھا۔ داخلہ گیٹ کے تھوڑا سا آگے ایک بالکونی نظر آئی ، ہم سب وہاں پہنچ گئے اور اس بالکونی سے ہم نے دیوار گریہ کا اچھی طرح نظارہ کرلیا، یہ شاید اچھا ہی ہوا کیونکہ نسبتاً یہیں سے سارے علاقہ کا مشاہدہ بہتر انداز میں کیا جا سکتا ہے۔ اس بالکونی سے اوپر ایک جگہ گنبد کا بڑا نکلس رکھا ہے اس پریہ عبارت لکھی ہوئی ہے کہ ’’اگر ہیکل سلیمانی کی تعمیر دوبارہ کی گئی تو اس کے گنبد پر یہ نیکلس رکھا جائے گا‘‘ لا قدر اللہ لکم… ان شاء اللہ ۔آج ہم اس دیوارکا مکمل تعارف کرواتے ہیں ۔اور یہود کے اس دعوے کا جائزہ بھی لیتے ہیں کہ کیا یہ دیوار واقعی مزعومہ ہیکل سلیمانی کا حصہ ہے جسے آج سے تقریبا3009سال پہلے تعمیرکیاگیاتھا۔یا وہ ہیکل سلیمانی مکمل طور پر تباہ و برباد کیا جاچکا ہے ؟اور یہ دیوار600سو سال بعد ہیڈریان کے دور میں تعمیرکی گئی ہے ۔ اس کیلئے ہمیں تاریخ کا نقلی و عقلی جائزہ لینا ہوگا ۔ دیوار گریہ کامحل وقوع قدیم یروشلم (old city)میں ایک محلے کانام ہے مراکشی محلہ جسے انگریزی میں مراکون کوارٹرز، اردو میں مراکشی یامغربی محلہ اور عربی میں’’حارۃ المغاربہ‘‘ کہاجاتاہے۔باب مغاربہ کے جنوب مشرق اور القدس الشریف کے جنوب مغرب میں واقع یہ دیوار ہے جس کے دروازے سے گزر کر خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تھےاسی لیے اسے دیوار براق کہا جاتاہے اور 70عیسوی میں رومی جنرل طیطوس نے ہیکل مقدس کو تباہ کردیاتھا تو اس کی دست برد سے صرف دیوار کایہی حصہ بچ سکا تھا ۔ یہودی اسے اپنے دور عظمت کی بچی ہوئی نشانی سمجھ کرمقدس جانتے اور یہاں آکر گریہ و زاری کرتے ہیں اسے لیے اسے دیوار گریہ کہتے ہیں ۔ عربی میں اس دیوار کو حائط المبکی اور انگریزی میں اسے Weeping wallکہا جاتاہے ۔اس کے جنوب میں باب مغاربہ اور مغرب میں یہودی محلہ واقع تھا ۔ یہ مسلم محلہ کی توسیع تھی جسے صلاح الدین ایوبی کے بیٹے نے بارہویں صدی میں بنوایاتھا ۔1967کی جنگ کے بعد یہودی قبضے میں آتے ہی اسرائیلی حکومت نے مراکشی محلہ کو منہدم کردیااور یہاں کے باشندوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیا اور جن کو یہاں سے نکلنے کا موقع نہیں ملا انہیں یہیں شہید ہونا پڑا اور یورپ و روس میں پھیلے ہو ئے یہودیوں کوزبردستی یہاںآباد کیا گیا۔یہود کا خیال ہے کہ یہ دیوار حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے تعمیر کردہ ہیکل مقدس کا بقایا ہے ۔لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اسے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان نے نہیں بنایا بلکہ ایرانی بادشاہ سائیرس اعظم (539 قبل مسیح ) کے دور میں یہاںعبادتگاہ کو دوبارہ تعمیر کیا تھا اور اس کا نام ہیکل سلیمانی نہیں بلکہ ’’ بیت ایلیا‘‘ رکھا گیا تھا۔جسے اس کی تعمیر کے تقریباً 600(چھ سو ) سال بعد رومی جرنیل طیطوس نے70ء میں شہریروشلم اور وہاں بننے والی بیت ایلیا‘‘ نامی عبادتگاہ … دونوں برباد کردیے تھے ۔ اس تباہی میں صرف دیوار کا یہ حصہ باقی بچا تھا ۔آئیے اس امر کاجائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعی یہاں کوئی ہیکل سلیمانی تھا جو مسجد اقصی کے نیچے دفن کیا گیا ہے اور جس کی تلاش کے نام سے یہودیوں نے آفت مچائی ہوئی ہے۔ اور مسجد اقصٰی پر غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے اور اسے منہدم کرکے نیچے سے مزعومہ ’’ہیکل سلیمانی‘‘ برآمد کرنا چاہتے ہیں ۔ جس کا کوئی وجود ہے ہی نہیں۔ اور اس دیوار کو اس کاحصہ کہتے ہیں ؟ بنی اسرائیل کی ایک تاریخ تودنیا کی سب سے مستند کتاب قرآن کریم نے بیان کی ہے جس کی بیان کردہ کسی بات کی دنیا بھر کے محققین تردید نہیں کرسکے ۔ لیکن قرآن کریم کے علاوہ خود یہود کی مذہبی و تاریخی کتابوں میں یہ حقیقت بکھری پڑی ہے کہ یہ قوم دنیا کی سب سے سخت دل ، ظالم سرشت ، دشمنیاں پالنے والی ، عفو و درگزر اورحلم و کرم سے محروم ، قتل انبیاء و صالحین جیسے جرائم میں ملوث قوم ہے۔یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہے ۔جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسحق کے بیٹے حضرت یعقوب کی نسل سے ہیں ۔ ان کے پہلے بڑے اور پہلے بیٹے اور ہمارے جد امجد حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنی پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد بحکم الہی اپنے والد مکرم اور والدہ سیدہ ہاجرہ صلوات اللہ وسلامہ علیھا کی ہمراہی میں وادی حجاز میں آگئے تھے۔، یہیں ان کیلئے اللہ تعالیٰ نے زمزم کا پانی فراہم کیا ، اسی علاقے میں انہیں راہ للہ قربانی کیلئے پرخلوص پیشکش کی وجہ سے ذبح عظیم کافدیہ ملااورپھر اپنے والد مکرم کی معیت میں انہوں نے اللہ کی عبادت کیلئے خانہ کعبہ تعمیر کیاجسے روئے زمین پر عبادت خداوندی کیلئے سب سے پہلا گھر ہونے کا اعزاز ملا۔اور ٹھیک اس کے چالیس سال بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چھوٹے بیٹے اسحق علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے کوہ صہیون پر دنیا کی دوسری عبادتگاہ مسجد اقصیٰ کی بنیاد رکھی ۔خانہ کعبہ کی وجہ سے مکہ مکرمہ شہر معرض وجود میں آیا اور مسجد اقصیٰ کی وجہ سے دنیا کا دوسرا دینی شہر یروشلم آباد ہوا… یروشلم کا معنی ٰ ہے سرزمین اسلام …یہاں بھی یہودیوں نے تاریخ میں گڑبڑ کی ایک تو ذبح ہونے کا اعزاز حضرت اسماعیل کی بجائے حضرت اسحق کے نام لگانے کی کوشش کی اور دوسراجو اعزاز بیت اللہ میں نصب شدہ حجر اسود کو حاصل ہوا وہی انہوں نے ’’صخرہ‘‘ کے نام کرنے کی کوشش کی بلکہ اس سے بھی زیادہ فضائل تراش لیے۔چند لمحے یہاں ٹھہریئے اور دونوں شہروں کے باسیوں کی فطرت پر غور کیجئے ۔باشندگان حجاز صالح فطرت تھے ۔ مہمان نواز تھے اور وفا و حیا والے تھے، بات کے سچے اور قول کے پکے تھے ۔ اس کے برعکس کوہ صیہون کے رہنے والے اکثر لوگ فطرتاً شرارتی ، سنگدل ، قاتل فطرت کے مالک ، مہمان نواز تو درکنار مہمانوں کے ساتھ برا سلوک کرنے والے ، خود غرض ، بے وفا اور عدیم الحیاء تھے ۔ اس لیے زیادہ عرصہ غلام رکھے گئے ۔ لیکن جب بھی انہیں آسرا ملا انہوں نے ظلم و فساد کی اخیر کردی ۔ جب تک یہ غلام رہے فرعون کے قابو میں رہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں اس کی غلامی سے نجات دلائی اور انہیں آزادی کی لذت سے ہمکنار کیا تو انہوں نے اللہ کے نبی اور اپنے محسن حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ بھی مذاق و استہزاء کرنے میں کچھ شرم محسوس نہیں کی ۔ ان ناہنجاروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت تنگ کیا ۔ جہاد سے جی چرایا اور احکام خداوندی کا اتنا مذاق اڑایا کہ چالیس سال کیلئے ان کا ارض مقدس میں داخلہ ممنوع کردیا گیا۔ سورہ بقرہ انہی کی بداعمالیوں کے تذکرے سے بھری پڑی ہے اور یہی کیفیات کتاب مقدس توریت اور صحف انبیاء میں بیان ہوئی ہیں ۔ میدان تیہ میں بنی اسرائیل کی صحرانوردی کے دوران ہی حضرت موسی علیہ السلام کا انتقال ہوگیا ۔ بعد میں یوشع بن نون کی قیادت میں جہاد کی برکت سے حسب وعدہ بنی اسرائیل کو ارض مقدس میں داخلہ بھی مل گیا اور دنیوی جاہ و جلال، دینی قیادت وسیادت بھی انہیں میسر آگئی ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں آٹھ نو سو سال اس علاقے میں جمائے رکھا ۔ اس دوران میں کئی انقلاب آئے اور یہ قوم انقلابات زمانہ کا نشانہ بنتی رہی ۔حتی کہ نو سو سال بعد ان میں حضرت داؤ د علیہ السلام جیسا جلیل القدر نبی پیدا ہوا جس نے اس قوم کی قیادت کی اورجالوت جیسے ظالم و جابر بادشاہ کو کیفر کردار تک پہنچایااور اللہ کے نام کو سربلند کیا ۔ زمین کوعدل و انصاف سے بھردیا ۔عہد نامہ قدیم Old testament کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں یہاں یبوسی قوم آباد تھی ، یہ مضبوط دیواروں کے ساتھ قلعہ بند شہر تھا۔معرکہ طالوت و جالوت جس کا تذکرہ قرآن کریم سورہ البقرہ کی آیات 249 تا251میں ہے ۔یہ شہر حضرت داؤد علیہ السلام ہاتھوںفتح ہوا ۔وہی اس کے بادشاہ بنے۔ اسی لیے اسے شہر داؤدCITY OF DAVID)کہا جاتاہے موجودہ شہر، جنوب مشرقی دیوار کی طرف باب مغاربہ سے باہر تھا ۔حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام(961۔ ق ۔ م )بادشاہ بنے، تو انہوں نے اس شہر کو وسعت دی ۔اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی بنائی ہوئی عبادتگاہ مسجد اقصیٰ کی تجدید وتعمیر کرائی اور اس کا بڑا حصہ انہوں نے اپنے ماتحت ’’جنوں ‘‘سے تعمیرکرایا ۔اہل اسلام اسے مسجد اقصی کہتے ہیں اور اہل کتاب اسے ہیکل کا نام دیتے ہیں ۔مسجدکی تعمیر کے دوران میں ہی حضرت سلیمان علیہ السلام کاوقت اجل آپہنچا اور وہ سفر آخرت پر روانہ ہوگئے ۔اس ہیکل یا مسجد کی تعمیر سے لے کر آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تقریباً 1572سال کا وقفہ ہے ۔یہ ڈیڑھ ہزار سالہ دور بنی اسرائیل کے عروج و زوال کی جو داستان سناتا ہے وہ اس قوم کے مزاج کو سمجھنے والے کیلئے کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے کوئی زیادہ مغز ماری کرنے کی ضرورت نہیں ۔ دنیا کی سب سے مستند تاریخ قرآن کریم کی ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ بنی اسرائیل کی شرارتی فطرت ، سنگدلی ، خونخواری ، قتل و غارت کی عادت حتی کہ انبیاء علیھم السلام اور صالح افراد کا سفاکانہ قتل بھی بنی اسرائیل سے سرزد ہوتا رہا ۔ اس کی وجہ سے ان پر زوال آتارہا۔ اور محمد ﷺ کی بعثت تک ڈیڑھ ہزار سالہ بنی اسرائیل کی تاریخ دو بڑے انقلابات کی نذر ہوگی۔ اس کاتذکرہ سورہ بنی اسرائیل کی آیات نمبر4-7میں ہواہے۔