• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری کائنات کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 7.13بلین سال پرانی ہے۔ہمارے مشاہدے میں آنے والی کائنات کا منظر تقریباً 93بلین نوری سال کے برابر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روشنی کو ہماری کائنات کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچنے کے لیے93بلین سال کاسفر کرنا ہو گا۔ اس بات کے شواہد بھی مل رہے ہیں کہ کائنات مسلسل وسعت پذیر ہے اور اس کی وسعت میں اضافہ ایک پراسرار طاقت Dark energy کی وجہ سے ہے۔ کائنات کو تشکیل دینے والے مادّے کی کثیر تعداد ایسی شے سے نہیں بنتی ہے، جس کا ہم مشاہدہ کرسکیں۔ ان قابل مشاہدہ چیزوں میں کہکشائیں، نظام ِہائے شمسی اور سیارے شامل ہیں ،مگر ان سب کے علاوہ ایک پراسرار مواد بھی ہے ،جس کو Dark Matter کہا جاتا ہے۔ اس کا مشاہدہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔

ہماری کائنات میں100بلین کہکشائیں موجود ہیںلیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے دماغ میں نیورون کی تعداد بھی 100بلین ہی ہے،مگر ہماری کائنات کے حوالے سے اس سے زیادہ پیچیدہ شے کائنات کے اندر کائنات ہے۔ ہر کہکشاں تقریباً اوسط 30,000نوری سال کے قطر کی حامل ہے۔ ہماری کہکشاں یعنی Milky way کہکشاں کے اوسط سائز سے تھوڑی سی بڑی ہے اور اس کا قطر100,000نوری سال ہے۔ مختلف کہکشاؤں کے درمیان عمومی فاصلہ 3بلین نوری سال کے برابر ہی ہے۔ ہماری کہکشاں سے قریب ترین کہکشاں کو Andromeda galaxy کا نام دیا گیا ہے اور یہ ہماری کہکشاں سے 2.5 ملین نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔کائنات کے متعلق قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ بہت لطیف انداز سے ہم آہنگ ہے۔ اگر اس میں کچھ Physical Constant مختلف نہ ہوتے تو زندگی یہاں اس طرح نہیں ہوتی جیسی ابھی ہم دیکھ رہے ہیں۔

voyager خلائی جہاز

خلائی جہاز Voyager1 and 2 گزشتہ 33 سالوں سے خلا میں سفر کر رہے ہیں او ر جب بھی یہ سیاروں سے گزرتے ہیں تو تصویریں اور دوسری معلومات زمین پر بھیجتے ہیں۔ اس وقت یہ ہمارے سیارے سے ناقابل یقین 11بلین اور 8ملین میل کے فاصلے پر ہیں، یہ انسانی ہاتھ کی بنائی ہوئی ایسی شے ہے، جس نے خلا میں طویل ترین فاصلہ طے کیا ہے۔Voyager 2 کو اگست 1977 ءمیں خلا میں بھیجا گیا تھا۔ اس کے چند ہفتوں کے بعد Voyager 1 کو خلا میں بھیجا گیا۔ اس کو خلا میں بھیجنے سے قبل تاریخوں کا تعین بہت احتیاط سے کیا گیا تھا ،تا کہ عظیم گیسوں کے کرے، مشتری،زحل، یورنیس اور نیپچون کی انتہائی کمیاب ترتیب سے خلائی جہاز فائدہ اٹھا سکے۔ جڑواں جہاز مشتری تک 1979ءمیں اور زحل تک 1980 ءمیں پہنچے اور انہوں نے ان سیاروں اور ان کے چاند کی دم نخود کردینے والی تصاویر ارسال کرنی شروع کر دیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے زحل کے پراسرار حلقوںکی تصاویر بھی بھیجیں۔ زحل کے ان حلقوںکے بارے میں معلوم ہوا کہ یہ برف کے ذرات پر مشتمل ہیں اور اس میں سے بعض کی جسامت اتنی بڑی ہے جیسے کوئی گھر علاوہ ازیں مشتری کے چاند پر آٹھ فعال آتش فشاں کا انکشاف بھی ہوا۔

اس سے قبل یہ خیال کیا جاتا تھا کہ صرف زمین پر فعال آتش فشاں ہیں۔ زحل اور مشتری کی ثقلی قوت نے Voyager 2 کو مزید دور دھکیل دیا جو 1986ء میں یورنیس اور 1989ء میں نیپچون کے قریب سے گزراتھا۔ نیپچون کے بارے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ نظام ِشمسی میں سب سے زیادہ تیز رفتار ہوائیں یہاں پرپائی جاتی ہیں جن کی رفتار 1200میل فی گھنٹہ ہے۔ نیپچون کا ایک چاند جس کا درجہ ٔحرارت منفی390فارن ہائیٹ ہے۔ اس کی سطح سے نائٹروجن گیس کے چشمے پھوٹتے ہیں جو کہ یہاں کے برفیلے ماحول میں داخل ہو جاتے ہیں۔ مشتری کی طرح سیارہ نیپچون میں بھی عظیم سیاہ دھبا (Great Dark Spot) موجود ہے جو کہ بڑے طوفان کی وجہ سے وجود میں آیا اس کی جسامت ہماری زمین کے برابر ہے۔voyager 1 ہمارے سورج سے 117 گنا دور ہے ۔چناں چہ اس طویل فاصلے سے سورج بہت دھندلا نظر آتا ہے۔ یہ voyager 2 جیسا نظر آتا ہے اس کے مقابلے میںvoyager 1 سے 10 ہزار گنا کم روشن نظر آتا ہے ۔1 اور 2 سے بھیجے جانے والے سگنلز ہمیں 16 اور 13 گھنٹے میں موصول ہوتے ہیں ۔

ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ ہمارے نظام شمسی کی تشکیل سے کروڑ سال پہلے مریخ کے برابر کی ایک شے ہماری زمین سے ٹکرائی اور اس کے ایک حصہ کو توڑ پھوڑ کر ملبے میں تبدیل کر دیا جو بعد میں ایک دوسرے سے جڑ کر چاند کی شکل میں تبدیل ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا چاند نظام ِشمسی کے دوسرے سیّاروں کے چاند کے مقابلے میں زیادہ بڑا ہے ہمارے چاند کے بڑے سائز کی وجہ سے ہمیں اس سے کئی پوشیدہ فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔ ہمارے سیارے پر اس کا ثقلی کھنچاؤ زمین کواپنے محور کے گرد گردش کے دوران اس کے لڑکھڑانے کے فطری رجحان کو درست کرکے اس کی حرکت کو سیدھا کرتا ہے اگر اس لڑکھڑاہٹ کو قابو میں نہ کیا جاتا تو زمین پر یہاں کے موسموں میں ایسی ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوتیں کہ یہاں پر زندگی کی بقاء اور ارتقاء انتہائی مشکل ہو جاتی اور زندگی کا اس شکل میں رہنا بہت مشکل ہوتا۔

چاند پر پانی کے آثار

حال ہی میں چاند پر پانی کے آثار ملے ہیں، اس شاندار کام کا اعزاز ناسا اورResearch Oraganization Indian Space کی مشتر کہ کوشوں کو حاصل ہوا ہے۔ناسا کے خلائی مشن اور انڈین خلائی مشن (Chandaryaan 1)(چاند کے خلائی محور میں سفر کرنے والا انڈیا کا پہلا مشن)سے حاصل کردہ معلومات چاند پر پانی کی موجودگی کی تصدیق کرتی ہیں۔ یہ پانی جھیلوں، چشموں، دریاؤں اور سمندر کی شکل میں نہیں ہے بلکہ یہ ہلالی قطبین پر موجود مٹی میں پایا جاتا ہے، جس کو ان سے کشید کیا جا سکتا ہے۔چاند پر بھیجی گئی چاند گاڑی )Lunar Crator Observing and Sensing )Satellite (LCROSSکا اوپری استعمال شدہ حصہ چندہی منٹوں کے اندرعلیحدہ ہوکر چاند میں گڑھے پر جا گرتا ہے جوکہ کروڑوں سال سے سورج کی روشنی کی وجہ سے چھپا ہوا تھا، اس عمل کے نتیجے میں دھویں کا ایک بادل نمودار ہوتا ہے۔اس مظہر کا مشاہدہ LCROSSکے ذریعے طیفی پیمائی طریقے سے کیا گیا ہے۔

چاند پر چاندی اور پانی

حال ہی میں ناسا نے چاند پر ایک راکٹ تباہ کیا اور اس کے نتیجے میں باہر خارج ہونے والے مواد کا طبعی مطالعہ کیا گیا۔ حیرت انگیز بات یہ سامنے آئی کہ اڑنے والے مواد میں پانی کی بڑی مقدار موجود تھی۔ باہر آنے والے ملبے میں 2.5فی صد پانی تھا، جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس کے Point Of Impact سے 10کلومیٹر کے فاصلے پر پانی موجود ہے۔ اس پانی کا بڑا حصہ سطح کے اندر برف کی شکل میں موجود ہے جو کہ Permafost کی شکل میں ہے۔ ایک اور دلچسپ انکشاف یہ ہوا کہ خارج ہونے والے مواد میں چاندی کی قابل ذکرمقدار موجود ہے۔

چاند کے آتش فشاں کب بنے

ہمارا چاند 54ملین سال بوڑھا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ زمین اور دوسرے فلکی اجسام کے عظیم ٹکراؤ کے بعد وجود میں آیا، جس کی وجہ سے زمین کی سطح پر چٹانی ملبہ آکر گرا ان میں سے بعض ملبہ زمین کے محور میں جا کر جمع ہو گیا اور ان سب نے مل کر چاند تشکیل دیا۔ اس مفروضے کودرست ثابت کرنے کے لیے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ چاند کی سطح پر لوہا موجود نہیں ہے۔ ہماری زمین میں موجود لوہے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ جس وقت دوسرے سیارے کے اجسام وجود میں آئے تھے اس وقت لوہا پگھل کر زمین کے مرکز میں جا گرا تھا اور اس نے زمین کا قلب تشکیل دیا تھا, اس طرح زمین سے ملبہ دور جا گرا اس نے چاند کو تشکیل دیا جس میں لوہے کی بہت کم مقدار شامل ہے۔ چاند پر موجود چٹانوں کے حوالے سے کیے جانے والے مطالعہ جات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ابتدا میں چاند کی سطح پگھلی ہوئی تھی اور اس کا Magma Ocean یا عظیم سمندر900ملین سال کے اندر ٹھوس شکل میں آیا۔ اپنی تشکیل کے ان برسوں میں یہ شدید آتش فشانی سرگرمیوں سے گذرا۔ Lunar Reconnaissance Orbit ایک روبوٹک خلائی جہاز ہے جو کہ چاند کی سطح کی 3D شبیہات زمین پر بھیج رہا ہے ۔چناں چہ یہ بحث جاری ہے کہ یہ آتش فشاں Craters کیوں اور کب تشکیل پائے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ 93 بلین سال قبل بڑی چٹانوں سے چاند پر بمباری میں اچانک اضافہ ہو گیا، جس نے چاند پر آتش فشاں تخلیق کر دیے اور وقت کے ساتھ اس بمباری میں کمی واقع ہوتی گئی۔ چاند پر بھیجا گیا ایک خصوصی مشن جس کو Moon Rise کا نام دیا گیا ہے ۔چاند پر موجود سب سے بڑے آتش فشاں سے نمونے جمع کرنے کا منصوبہ بنارہا ہے یہ آتش فشاں 2500کلومیٹر چوڑا ہے، جس سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ چاند کے اوپر بمباری کس طرح شروع ہوئی۔

چاند پر خود کار نظام کے تحت چلنے والے روبوٹ

جاپان نے اپنی خلائی ایجنسی JAXA کے توسط سے 2.2 بلین ڈالر کا ایک منصوبہ شروع کیا ہے ،جس کے تحت 2015 ء میں چاند پر ایک روبوٹ بھی لگا یا تھا ۔ جاپان نے 2020 ء تک آدمی کے بغیر کام کرنے والی قمری بیس Lunar Base کو مکمل طور فعال کرنے کا منصوبہ بھی تیار کر لیا ہے۔ روبوٹ (behemoth) جن کا وزن 660پاؤنڈ ہے ان کو ٹینک جیسے دھاگوں سے لیس کیا گیا ہے، تا کہ وہ چاند کی سطح پر آسانی سے حرکت کر سکیں۔ انسانوں جیسے بازوؤں کی (Humanoid arms) کی مدد سے وہ چٹانوں کے نمونے جمع کریں گے جو کہ بعد میں راکٹ میں رکھ کر زمین پر بھیجے جائیں گے۔ ان میں نصب کیے گئے دوسرے آلات میں High Definition کیمرے بھی شامل ہیں جو معلومات جمع کریں گے۔ یہ روبوٹ اعلیٰ درجے کی ذہانت کے حامل ہیں، جس میں کسی نقصان کی صورت میں خود مرمت Self Repair کا عمل بھی شامل ہے۔ یہ خود اپنی بقاء کا انتظام کرنے والے روبوٹ ایسے مستقبل کی نشاندہی کر رہے ہیں ،جس میں خلائی مشن اور دریافت کے عمل میں انسانوں کی جگہ روبوٹس کو استعمال کیا جائے گا۔اسی طرح کے ایک اور منصوبے پر جاپان میں کام ہو رہا ہے، جس کے تحت جاپان شمسی پینل کی حامل سیٹلائٹ خلا میں بھیجے گا ،جو کہ تار کے بغیر گیگا واٹ کی بیم زمین پر منتقل کرے گا اس سے 300گھروں کو بجلی فراہم کی جا سکے گی۔ اس سٹیلائٹ کا رقبہ 4کلومیٹر ہو گا ۔اس سے زمین پر قائم بیس اسٹیشن کو مائیکرو ویوز کے ذریعے بجلی منتقل کی جائے گی۔ شمسی پینل کو زمین کے بجائے خلا میں رکھنے کے کئی فوائد ہیں جن میں رکاوٹ پیدا کرنے والے بادلوں کی غیر موجودگی اور مناسب سرد درجۂ حرارت شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس منصوبے پر21بلین ڈالر کی لاگت آئے گی۔

تازہ ترین
تازہ ترین