• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی آئی اے انٹرنیشنل پروازوں پر ڈیوٹیاں لگوانے کیلئے رشوت مانگنے کی شکایات

کراچی (اسد ابن حسن) قومی اداروں کی تباہی میں جتنی ذمہ دار اس کی نااہل انتظامیہ رہی ہے اتنا ہی حصہ بدرجہ اتم ان اداروں کی سی بی اے (سوداکار یونینز) نے بھی ڈالا ہے۔ قومی ایئرلائن پی آئی اے بھی اس کی ایک مثال ہے جہاں سی بی اے عہدیدار بیرون ملک پروازوں پر نام ڈلوانے میں ہزاروں روپے ’’بھتہ‘‘ طلب کرتے ہیں۔ ادارے میں سیکڑوں ملازمین کو ڈیوٹی دینے سے استثناء دلوا رکھا ہے جس کی وجہ سے فضائی میزبانوں کی کمی واقع ہوگئی ہے اور ہر اندرون ملک اور بیرون ملک پروازوں پر مقررہ تعداد سے کم ہی عملہ تعینات ہوتا ہے۔ ناجائز پیسے طلب کرنے کی ایک درخواست ادارے کی سینئر پرسر نے انتظامیہ اور سی بی اے کو جمع کروائی ہے۔ اس حوالے سے سی بی اے کے صدر کا کہنا تھا کہ پیسے طلب کرنے والی ایئرہوسٹس کو تنظیمی عہدے سے ہٹا کر معطل کردیا گیا ہے اور استثناء نہیں بلکہ ویلفیئر ڈیوٹی کی مراعات دی گئی ہیں جبکہ ترجمان پی آئی اے کا کہنا تھا کہ کسی بھی شکایت موصول ہونے پر انکوائری ہوتی ہے۔ ’’جنگ‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق سینئر پرسر عالیہ کاظم نے ادارے کی اعلیٰ انتظامیہ اور سی بی اے سیکرٹریٹ میں درخواستیں بھجوائیں کہ سی بی اے فلائٹ سروسز کراچی کی کوآرڈی نیٹر شیڈولنگ خاتون نے فون کرکے آگاہ کیا کہ وہ اگر سی بی اے کی پسندیدہ سینئر پرسر بننا چاہتی ہیں اور بیرون ملک پروازوں میں نام شامل کروانا چاہتی ہیں اور فوراً لندن کی مانچسٹر فلائٹ پر جانا چاہیں تو فی الفور بیس ہزار روپے ادا کردیں، جس پر عالیہ کاظم نے انکار کیا کہ ملازمین کی تنخواہوں سے پہلے ہی سی بی اے کیلئے کٹوتی ہوتی ہے اور اس رقم کا تقاضا قطعی ناجائز ہے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ کون کون سی بی اے کے چہیتے ہیں اور کن کن کی جلد جلد بیرون ملک پروازوں یر ڈیوٹیاں تواتر سے لگائی جاتی ہیں۔ واضح رہے کہ فضائی میزبانوں کو بیرون ملک پروازوں پر 4سو سے 6سو ڈالر الاؤنسز کی مد میں ملتے ہیں اور پھر ان کو فلائٹ پر جانےسے روک دیا گیا۔ سی بی اے کے حوالے سے ایک اور انکشاف ہوا کہ گزشتہ دور میں اس وقت کی سی بی اے نے اپنی پارٹی کے ہمدردوں کو فلائٹ سروس کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی باہمی رضامندی سے ڈیوٹی سے استثناء کروا دیا۔ فلائٹ سروس کے ایسے ملازمین کی تعداد 70تھی جس میں زیادہ تر خواتین ایئرہوسٹس تھیں۔ کچھ عرصہ پہلے سابقہ سی ای او مشرف سیال نے ایک حکمنامے کے ذریعے اس استثناء کو ختم کرنے کا کہا اور مروجہ قانون کے مطابق صرف 8عہدیدار جس میں کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور سینئر سے دو، دو عہدیدار ہوں، ان کو ہی استثناء حاصل ہوگا مگر ان کے جانے کے بعد موجودہ سی بی اے نے 70نہیں بلکہ 100ہمدردوں کو استثناء قرار دلوا دیا، اس میں بڑا کردار سی بی اے کے صدر اور فلائٹ سروسز کے اعلیٰ عہدیدار جو پی آئی اے کی تاریخ میں اس عہدے پر کام کرنے والے پہلے افسر ہیں۔ پہلے وہ ورکس ڈپارٹمنٹ میں تعینات تھے اور تجربہ نہ ہونے کے باوجود گزشتہ یونین نے ان کو یہ عہدہ دلوا دیا اور وہ آدھا وقت یونین آفس میں اور آدھا اپنے دفتر میں گزارتے تھے اور اب اُنہوں نے موجودہ یونین سے بھی اچھے تعلقات استوار کرلیے ہیں اور پھر صرف فلائٹ سروسز سے 100ملازمین کو استثناء دیا بلکہ دیگر محکموں سے بھی درجنوں افراد کو استثناء دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ استثناء ملنے والے فضائی میزبان اندرون ملک پروازوں پر جانے سے بچ جاتے ہیں مگر اپنی مرضی سے بین الاقوامی پروازوں پر ڈیوٹیاں لگوا لیتے ہیں تاکہ ڈالرز کی صورت میں بھاری معاوضے ملتے رہیں۔ سی بی اے کے صدر پر ایک اور الزام بھی سامنے آیا ہے کہ ان کی ہدایات پر تعینات کی گئی پی آئی اے ہوسٹل کی میڈن نے ہوسٹل جس میں درجنوں ایئر ہوسٹسز رہائش پذیر ہیں، وہاں کا کیبل کنکشن کٹوا دیا اور جب کیبل آپریٹرز نے ان سے رابطہ کیا تو اس کو سی بی اے کے صدر سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا گیا اور جب اُن سے رابطہ کیا گیا تو مبینہ طور پر پانچ لاکھ روپے طلب کیے گئے۔ اس حوالے سے سی بی اے کے صدر ہدایت اللہ نے ’’جنگ‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ جس عہدیدار خاتون نے پیسے مانگے تھے اُنہیں تنظیمی اصولوں کے خلاف کام کرنے پر معطل کردیا گیا ہے۔ البتہ شکایت کرنے والی سینئر پرسر کو بلوایا تھا مگر اُنہوں نے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ سی بی اے کے صدر کا مزید کہنا تھا کہ 100ملازمین کو استثناء نہیں دلوایا گیا ہے بلکہ ان کو ’’ویلفیئر ڈیوٹی‘‘ پر تعینات کیا جاتا ہے۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ ’’اس ویلفیئر ڈیوٹی پر کتنے ملازمین تعینات ہیں؟‘‘ تو اُنہوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔ کیبل آپریٹر سے پانچ لاکھ روپے طلب کرنے کے الزام کو اُنہوں نے بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ اُنہوں نے کیبل آپریٹر سے یہ کہا تھا کہ وہ جو بوسٹر وہاں نصب کرتا ہے اس کے بجلی استعمال کرنے کا خرچہ دے۔ دوسری طرف شکایت کرنے والی سینئر پرسر عالیہ کاظم نے کہا کہ اُنہوں نے درخواست دی تھی مگر سی بی اے کے صدر نے کبھی ان سے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی لیٹر بھجوایا ہے۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ سی بی اے کے صدر کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ رقم طلب کرنے والی ایئرہوسٹس کو تنظیمی امور انجام دینے سے روک دیا گیا ہے اور وہ معطل ہیں، وہ خاتون عہدیدار باقاعدگی سے میٹنگرز میں شرکت کرتی ہیں۔ نمائندہ ’’جنگ‘‘ نے پی آئی اے کے ترجمان مشہود تاجور سے رابطہ کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی شکایت ملتی ہے اس پر انکوائری کی جاتی ہے۔ ان شکایات پر بھی تحقیقات جاری ہیں۔ 

تازہ ترین