تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ (چھبیسویں قسط) بنی اسرائیل کی ریاستوں میں تقسیم اور ہیکل سلیمانی کی پہلی تباہی حضرت سلیمان علیہ السلام کا انتقال 926(ق۔م ) میں ہوا ان کی وفات کے بعد اسرائیلی باہمی چپقلش کے باعث دو حصوں میں بٹ گئے۔ شمالی فلسطین اور شرق اردن میں دولت اسرائیل کا پایہ تخت ’’سامریہ‘‘ بنا۔ اورجنوبی فلسطین اور ادوم کے علاقے میں سلطنت یہودیہ کاپایہ تخت’’ یروشلم‘‘ بن گیا۔شمالی فلسطین کی ریاست اسرائیل میں شرک اور اخلاقی بیماریاں عروج پرپہنچ گئیں ۔ ان کی اصلاح کے لئے مختلف انبیاء تشریف لاتے رہے۔ مثلاً حضرت الیاس ، حضرت الیسع، حضرت ہوسیع ، حضرت عاموس علیھم السلام ودیگر۔ لیکن ان کی پے درپے تنبیہات نے اسرائیلیوں پر کوئی اثرنہیں ڈالا۔ جس کے نتیجے میں 721ق ۔ م ) میں اشوریہ کے سخت گیر بادشاہ سارگون نے سامریہ کوفتح کرکے دولت اسرائیل کامکمل خاتمہ کردیا۔ ہزارہا اسرائیلی تہہ تیغ کردیے گئے اور27ہزار سے زیادہ اشوری سلطنت کے مختلف علاقوں میں تتر بتر کردئیے اور دوسرے علاقوں سے لاکر غیر قوموں کو اسرائیل کے علاقے میں بسایاگیا جبکہ بنی اسرائیل کی دوسری ریاست جو یہودیہ کے نام سے جنوبی فلسطین میں قائم ہوئی تھی جس کاپایہ تخت یروشلم بناتھا۔اس میں بھی وہی بد اخلاقیاں راسخ ہوچکی تھیں ان میں حضرت یسعیاہ اور حضرت یرمیاہ ، حضرت حنانی ، حضرت میکایاہ ، حضرت یرمیاہ ، حضرت عاموس جیسے جلیل القدر انبیاء اصلاح کیلئے تشریف لاتے رہے لیکن ان کی کوششوں کے باوجود اسرائیلی شرک اور دیگر برائیوں سے باز نہ آئے ۔ تو اللہ نے ان پر ایک سفاک بادشاہ شاہ بابل بخت نصر کو مسلط کردیا ۔یہ (598ق۔م ) کا زمانہ تھا۔بخت نصر نے یروشلم سمیت پوری دولت یہودیہ کو اپنے تابع فرمان بنا لیالیکن بغاوت کے فطری عنصر نے اسرائیلیوں کو چین نہ لینے دیا آخرکار587ق م میں بخت نصرنے ایک سخت حملہ کرکے یہودیہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو اس طرح پیوند خاک کردیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ پر کھڑی نہ رہ سکی،اور ان کے مذہبی سرمائے کو آگ لگادی ۔ اور دس لاکھ بنی اسرائیلیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیاتھا ۔یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کے تین سو چالیس سال بعد بیت المقدس یاہیکل سلیمانی مکمل طور پرمسمارکردیاگیا تھا۔یہ تھا بنی اسرائیل کاپہلا فساد اور پہلی سزا جس کاتذکرہ سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر۴ میںکیاگیا{ فاذا جاء وعد اولھما بعثنا علیکم عبادا لنا اولی بأس شدید فجاسوا خلال الدیار وکان وعدا مفعولا}(ترجمہ) اور ہم نے بنی اسرائیل کے لیے کتاب میں لکھدیا تھا کہ تم زمین میں دو بار فساد عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے(۴) پس جب پہلا موقع آیا ہم نے اپنے بندے بھیج دیئے جو بڑے جنگجو تھے پس وہ تمہارے اندرگھس کر چاروں طرف پھیل گئے ۔ یہ ایک وعدہ تھا، جسے پورا ہو نا تھا(۵) بنی اسرائیل کی دوسری بار آباد کاری اس میں کوئی شک نہیںکہ اسرائیلیوں میں جہاں بہت سے بدکار تھے وہاں ان کے اندر ایک گروہ خیر سے محبت کرنے والا بھی رہا ہے اسی لیے حق تعالیٰ نے فرمایا{لیسو سواء من اھل الکتاب امۃ قائمۃ آیٰت اللہ اٰناء الیل وھم یسجدون،یومنون باللہ والیوم الاٰخر ویامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر ویسارعون فی الخیرات والئک من الصالحین ،وما یفعلوا من خیر فلن یکفروہ واللہ علیم بالمتقین }کہ سارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں ۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں ۔ راتوں کی اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں ۔ اللہ پرہیزگاروں کو خوب جانتاہے(آل عمران(3)آیات 113۔114) انیٹوکس چہارم( 175ق ۔م)کے دور میں اسرائیلیوںکے اندرسے ایک اصلاحی تحریک اٹھی جسے تحریک مکابی کہاجاتاہے۔۔اس مکابی تحریک کے باعث رحمت الٰہیہ نے ان کی ایک بار پھر یاوری کی اورپچاس سال کے اندر اندر حالات نے پھرپلٹا کھایا اوربابل کی سلطنت کو زوال ہوا ۔ صالحین کی مسلسل کوششوں اور توبہ وانابت الی اللہ کی دعوت سرگرمی کے ساتھ شروع ہوگئی ۔ جس سے بنی اسرائیل میں ایک بار پھر نیکی کا غلبہ بڑھ گیا۔جس کی برکت سے اللہ عز وجل نے انہیں دنیوی طور پر بھی خوشحال کردیا۔ اور دینی طور پر بھی۔اس تحریک کی کامیابی کی وجہ سے یونانی مغلوب ہوگئے اور مکابیوں نے سلطنت سنبھال لی ۔سورہ الاسراء میں فرمایا{ثم رددنا لکم الکرۃ علیھم وامددناکم باموال و بنین وجعلناکم اکثرا نفیرا۔ ان احسنتم احسنتم لانفسکم وان اساتم فلھا}پھر ہم نے ان پر تمہیں غلبہ دے کر تمہارے دن پھیرے اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہاری تعداد بڑھا دی (۶) اگر تم نے اچھے کام کیے تو خود اپنے ہی فائدہ کے لیے‘ اور اگر تم نے برے کام کیے توبھی اپنے لیے (سورہ بنی اسرائیل) ۔بنی اسرائیل کے پھلنے پھولنے کا یہ دور جاری رہا تاآنکہ شاہ فارس … سائرس اعظم نے بخت نصر کوشکست دے کر بابل کوفتح کر لیا اور بنی اسرائیل کو فلسطین واپس جانے کی اجازت دے دی۔ اب اسرائیلیوں نے بیت المقدس کودوبارہ تعمیر کرنے کا پروگرام بنایالیکن ہمسایہ قومیں جو اس علاقے میں آکر آباد ہوگئی تھیں مزاحمت کرتی رہیں ۔اور بیت المقدس یا مسجداقصی دوبارہ تعمیر نہ کی جاسکی ۔خسرو کے بعد نئے ایرانی بادشاہ ’’دارا‘‘نے یہودیہ کے آخری بادشاہ کے پوتے’’ زرو بابل‘‘ کویہودیہ کاگورنر مقرر کیا۔445ق م میں نحمیاہ کی زیر قیادت ایک اور جلاوطن گروہ یہودیہ واپس آیا۔اور شاہ ایران نے نحمیاہ کو یروشلم کاحاکم مقرر کردیا تھا۔اور اس نے اپنے زمانے کے مرد صالح جناب زکریا( یہ زکریا نبی کے علاوہ ہیں) کی معاونت سے بیت المقدس کو نیاتعمیر کیا۔اور بیت المقدس اورشہرکے گرد فصیل بنانے کاحکم دیا۔ اس طرح یروشلم شہرڈیڑھ سو سال بعد دوبارہ آباد ہوا(غالباً یہ وہ دور ہے جس کا ذکر حضرت عزیز علیہ السلام کے ایک سو سال تک سوئے رہنے کے بعد بیدار ہونے تک کاہے) ۔ لیکن کچھ ہی عرصے کے بعدایرانی سلطنت کا زوال شروع ہوگیا۔ یونانی سکندراعظم کی حکمت عملی اور فوجی طاقت نے ہرطرف فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیے اور یونانیوں کوایرانیوں کی جگہ اقتدارحاصل ہوگیا۔ لیکن سکندراعظم کی33برس کی عمر میںہندوستان سے واپسی پر اچانک وفات ہوگئی ، جس سے اس کی سلطنت تین حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ ایک حصہ سلجوقی سلطنت کہلایا جس کے حصے میں شام کاعلاقہ آگیا اوراس کادارالحکومت انطاکیہ بنااس کے فرمانروا انٹیوکس ثالث نے 198ق م ۔میں فلسطین کا کنٹرول حاصل کرلیا۔ یہودیوں کے مذہب سے اس بادشاہ کو سخت نفرت تھی اس نے جبراًیہودیت میں شرک داخل کردیا۔قوم یہود کافی عرصہ اس کے دباؤ کے تحت زندگی گزارتی رہی ۔یہ غالبا458ق، م کی بات ہے ۔اب ملک فارس کا مسند نشین ’’اردشیر‘‘ تھا ۔ اس نے حضرت عزیر نبی کی بڑی عزت افزائی کی اور ان کو خداکی شریعت کو نافذ کرنے کے اختیارات دیے ۔چنانچہ حضرت عزیز نے بڑا تعمیری کام کیا۔ انہوں نے بنی اسرائیل کا مذہبی سرمایہ مرتب کیا۔ تورات کے بکھرے ہوئے اجزا کو ایک کتاب میں جمع کیا۔ اس وجہ سے ان کی بنی اسرائیل میں بڑی عزت بن گئی ،حتی کہ یہودانہیں خدا کا بیٹاتک کہنے لگ گئے( سورہ التوبہ 9 آیت30) بنی اسرائیل اورہیکل سلیمانی کی دوسری تباہی سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کردیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اوراس مسجد القدس میں اسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلی والے داخل ہوئے تھے اور جس چیز پر قابو پائیں اسے توڑ پھوڑ کر تباہ کر دیں (۷)مکابی تحریک کی نام نہاد مذہبی حلقوں نے بھی سخت مخالفت کی اور جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے نیک اور اصلاح کا کام کرنے والوں کے راستے میں بے شمار روکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں اسی طرح اب بھی ہوا اور بنی اسرائیل بداعمالیوں اور اخلاقی گراوٹ میں حد سے بڑھ گئے تب بنی اسرائیلیوں کی بداعمالیوں کی نحوست پھر ظاہر ہونا شروع ہوگئی ۔جس کانتیجہ یروشلم اور بیت المقدس کی تباہی کی شکل میں ظاہر ہوا ۔کچھ عرصہ بعد انہی کے درمیان پھوٹ پڑگئی اورانہوں نے خود رومی فاتح پومپئی کوفلسطین پر حملہ کرنے کی دعوت دے ڈالی۔ چنانچہ پومپئی نے63ق م میں بیت المقدس پرقبضہ کرلیا۔ یاد رہے کہ رومی فاتحین کی پالیسی تھی کہ وہ مفتوح علاقوں پرمقامی حکمرانوں کے ذریعے نظم ونسق چلایاکرتے تھے ۔ انہوں نے 40ق م میں ایک ہوشیار یہودی ہیروڈیس کوحکمران مقرر کردیاجو36سال تک حکمران رہا۔اسی کے زمانے میںبیت المقدس کی تعمیرنوکی گئی ۔شہرکو منظم کیاگیا۔ لیکن عیسی علیہ السلام کی ولادت سے چار سال پہلے اس کی موت ہوگئی ۔( اس کے نام سے یروشلم کا ایک دروازہ بھی منسوب ہے )ہیروڈیس کے بعد اس کی ریاست تین حصوں میں تقسیم ہوگئی اس کا ایک بیٹا ارخلاؤس 6عیسوی تک حکمران رہا۔کیونکہ قیصر آرگسٹس نے اس کو معزول کرکے اس کی پوری ریاست اپنے گورنر کے ماتحت کرلی تھی اور41عیسوی تک یہی انتظام رہا یہی زمانہ تھا جب حضرت عیسی علیہ السلام بنی اسرائیل کی اصلاح کیلئے اٹھے اور حسب روایت یہودیوں کے تمام مذہبی پیشواؤں نے مل کر ان کی مخالفت کی اور رومی گورنر پونتس پیلاطس سے ان کوسزائے موت دلوانے کے احکامات حاصل کرلیے۔ ہیرود کا دوسرا بیٹا ’’ ہیرود اینٹی پاس‘‘ شمالی فلسطین کے علاقہ گلیل اورشرق اردن کا مالک ہوااوریہی وہ شخص ہے جس نے ایک رقاصہ کی فرمائش پرحضرت یحیٰ علیہ السلام کا سرقلم کرکے اس کی نذر کیا۔ اس کاتیسرابیٹافلپ ’’کوہ حرمون‘‘ سے دریائے یرموک تک کے علاقے کا مالک ہوا وہ رومی تہذیب میں ازسرتاپا ڈوبا ہواتھا۔41عیسوی میں ہیرودڈ اعظم کے پوتے ’’ہیروداگرپا‘‘ کو رومیوں نے پورے علاقے کا حاکم مقررکردیاجن پر اس کے داداکی حکمرانی تھی 66عیسوی میں ’’ہیروداگرپا ‘‘کے خلاف بغاوت ہوگئی اور70ء میں ٹیٹوس نے بزور شمشیریروشلم کو فتح کرلیا۔اور اہل فلسطین کا قتل عام کیا۔جس میں ایک لاکھ 33ہزارافراد قتل ہوگئے اور67ہزارغلام بناکرتھیٹروں میں بھوکے شیروں کے پنجوں سے بھنبھوڑے جانے کیلئے مختلف علاقوں میں بھیج دیے گئےاوریروشلم کے شہر اور ہیکل کو مسمار کرکے پیوند خاک کر دیا گیا (اس تباہی میں صرف دیوار کا یہ حصہ باقی بچا جسے اب یہودی ہیکل سلیمانی کی دیوار بتاتے ہیں)اور فلسطین سے یہودی اثرو اقتدار ایسا مٹاکہ دو ہزار برس تک اس کو پھر سراٹھانے کا موقع نہ ملا ۔اوریروشلم کا مقدس ہیکل پھر کبھی تعمیر نہ ہوسکا۔بعد میں رومیوں کے بادشاہ قیصر ہیڈریان نے اس شہر کو دوبارہ آباد کیامگراب اس کانام بیت المقدس نہیں بیت ایلیا تھا۔جو کہ فلسطین میں صدیوں سے آباد قوموں کے سب سے بڑے معبود تھا’’ایل ‘‘کے نام پر تھا۔