• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم پاکستان عمران خان کودورہ کراچی کے دوران اسٹریٹ کرائم پر بریفنگ کے موقع پر بتایا گیا کہ شہر قائد میں ایک بڑی تعدادغیرقانونی تارکین وطن کی ہے جو جرائم میںملوث ہیں، وزیراعظم پاکستان نے انسانیت کے ناتے پاکستان میں انکی قانونی حیثیت واضح کرنے کیلئے خیالات کا اظہار کیا کہ کیا ہمیں اپنے قانونِ شہریت 1951ء کے تحت پاک سرزمین میں جنم لینے والے بچوں کو پاکستانی شہریت دینی چاہئے یا پھر کوئی اور حل تلاش کیا جانا چاہئے۔اس حوالے سے پاکستان کا قانونِ شہریت 1951ء واضح ہے کہ پاکستان میں جنم لینے والا ہر بچہ پاکستانی شہری ہے ماسوائے بچے کا والد غیر ملکی سفارتکار ہو یا پھر ایک غیر ملکی دشمن۔میں ضروری سمجھتا ہوں کہ عرصہ دراز سے حل طلب تارکین وطن کے سنگین مسئلہ کا کوئی دیرپا حل نکالا جائے۔ میں سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے مقامی لیڈران کے تحفظات سے بھی بخوبی واقف ہوں، آج سے کچھ روز قبل مجھے سردار اختر مینگل سے بھی اس موضوع پر طویل تبادلہ خیال کا موقع ملا، میں نے محسوس کیا کہ بلوچ لیڈرشپ بھی پناہ گزینوں کے ایشو پر سنجیدہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے موجودہ حکومت سے تعاون کیلئے جو معاہدہ کیا اس میں اس نکتے کو شامل کیا، اسی طرح اسفندیارولی کی ایک تازہ پریس کانفرنس میری نظر سے گزری جس میں انہوں نے بھی مہاجرین کے مسئلے کے حل کیلئے حکومت کی حمایت کا اعادہ کیا۔ پاکستان میں تارکین وطن کا معاملہ اس لحاظ سے پیچیدہ ہے کہ یہاں کسی ایک قومیت نہیں بلکہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین آباد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے تارکین وطن کے حوالے سے دنیا کے دیگر ممالک کے قانونِ شہریت کا جائزہ لینا ہوگا۔ میری معلومات کے مطابق عالمی سطح پردو طرح کے قانونِ شہریت رائج ہے، اول حصولِ شہریت بذریعہ پیدائش ، دوئم حصولِ شہریت بذریعہ والدین۔پہلی قسم کے قانون کیلئے لاطینی زبان کا لفظ جُس سوُلی (jus soli)استعمال کیا جاتا ہے جسکی تشریح سادہ الفاظ میں یہ ہے کہ ملکی حدود میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ملک کی شہریت کا پیدائشی حقدار ہے،اس قانون کی سب سے بڑی مثال سپرپاور امریکہ ہے جہاں دورِ غلامی کے خاتمے کے بعد 1868ء میں 14ویں آئینی ترمیم میں امریکی شہریت کا حقدار ہر اس بچے کو قرار دیا گیا جو امریکی سرزمین پر پیدا ہوا، امریکی قانون سے مستفید ہونے کیلئے دنیا بھر سے تارکین وطن نے امریکہ کو اپنا مسکن بنایا، بیشتر مہاجرین خود تو امریکی قوانین کی نظر میں غیرملکی ہی رہے لیکن امریکہ میں جنم لینے والے انکے بچے امریکی شہری بننے میں کامیاب ضرور ہوگئے۔کینیڈا کے موجودہ قوانین شہریت کے تحت کینیڈا کی حدود بشمول سمندروں اور آسمانوں میں پیدا ہونے والا ہر بچہ کینیڈین شہری ہے بلکہ کینیڈا میں رجسٹرڈ کردہ ہوائی جہاز اور بحری جہازمیں پیدا ہونے والے بچے کیلئے بھی کینیڈین شہریت کیلئے اپلائی کیا جاسکتا ہے لیکن کینیڈا میں جنم لینے والا وہ بچہ شہریت کا حقدار نہیں جسکے والدین کینیڈین شہری نہ ہو اور انکے پاس مستقل قیام کا اجازت نامہ نہ ہو، یا بچے کے والدین غیرملکی حکومت کے ملازم ہوں یا بچے کے والدین سفارتی استثنیٰ کے حامل عالمی اداروں سے وابستہ ہوں۔ دوسری قسم کے قانونِ شہریت کولاطینی زبان کے لفظ جُس سانگونِس(jus sanguinis)کا نام دیا جاتا ہے جسکے مطابق بچے کو شہریت اسکے والدین کی قومیت کے مطابق دی جاتی ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں پیدا ہو۔یہ قانون آسٹریا، جرمنی، ناروے، جاپان، میکسیکو، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا، پولینڈ وغیرہ میں رائج ہے۔ پاکستان کی طرح پہلے انڈیا میں بھی شہریت کا حقدار ہر اس بچے کو قرار دیا جاتا تھا جو بھارتی سرزمین پر پیدا ہوا ہو لیکن 2004ء کی آئینی ترمیم کے بعد بھارت میں جنم لینے والے بچے کیلئے شہریت حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ والدین میں سے کوئی ایک بھارت کا شہری ہو۔ علاوہ ازیں، بچے کے آباؤاجداد میں کسی ایک کے بھارتی شہری ہونے کے ثبوت فراہم کرنے پر خصوصی کارڈ جاری کیا جاتا ہے جسکا حامل اسے نہ صرف سفری دستاویز کے طور پر استعمال کرسکتا ہے بلکہ قانونی طور پر انڈیا میں قیام ، کاروبار، ملازمت اور حصول تعلیم کیلئے بھی استعمال کرسکتا ہے، تاہم بیشتر شہری سہولتوں کے باوجود اس کارڈ ہولڈرپر انڈیا میں ووٹ ڈالنے اور سرکاری عہدہ پر فائز ہونے کی ممانعت ہے۔ ایران کے قانونِ شہریت کے تحت ہر وہ بچہ چاہے وہ ایران میں پیدا ہو یا ایران سے باہر شہریت کا حقدار ہے جسکا باپ ایرانی شہریت کا حامل ہو۔ اسرائیل کو ایسی نظریاتی مملکت سمجھا جاتا ہے جو مذہب کے نام پر قائم ہوئی ہے، یہودی مذہب کا پیروکار چاہے اسکا تعلق دنیا کے کسی بھی خطے سے ہو، اسرائیل میں قدم رکھتے ہی اسرائیلی شہریت کیلئے اپلائی کرسکتا ہے، اسرائیل کے زیرانتظام یروشلم اور گولان کی پہاڑیوں میں بسنے والے غیریہودی عربوں کو اسرائیل میں مستقل قیام کیلئے پی آر جاری کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں مقیم مہاجرین کی بات کی جائے تو وزیراعظم عمران خان کا موقف سوفیصدی درست نظر آتا ہے کہ ہم عالمی قوانین کے تحت پناہ گزینوں کو زبردستی واپس نہیں بھیج سکتے، اس سلسلے میں حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے مابین 2009ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جسکے تحت افغان مہاجرین کی مرحلہ وار واپسی ممکن بنائی جاسکے گی، ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال میں اب تک پاکستان کے مختلف شہروں سے ایک لاکھ بارہ ہزار افغان مہاجرین رضاکارانہ طور پر اپنے وطن لوٹ چکے ہیں۔ تحریک پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو قائداعظم کے قریبی ساتھیوں میں بیشتر کا تعلق بنگال سے تھا،میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان بنانے والوں میں بنگالی اکابرین آگے آگے تھے، یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آزادی کے فقط چوبیس سال بعد ہی ہمارا مشرقی بازو ہم سے جُدا ہوگیا لیکن افسوس، آج بھی بنگالی اور انکی موجودہ نسلیں شہر قائد میں بسنے کے باوجود اپنی شناخت سے محروم ہیں۔ایک طرف آدم شماری مہم میں تارکین وطن کے وجود سے انکار کیا جاتا ہے تو دوسری طرف انہیں جرائم کی دنیا میں دھکیلا جاتا ہے تو کیوں نہ اس قومی ایشوپر ساری سیاسی پارلیمانی جماعتوں کو ایک میز پر بٹھا کر سب کے موقف اور تحفظات کو سنا جائے اور پارلیمان کے اندر بھی بحث کرائی جائے کہ ابتدائی مرحلے میں پناہ گزینوں کا باقاعدہ ریکارڈ مرتب کرتے ہوئے اقامہ کی طرز پرپاکستان میں قیام کی قانونی اجازت دی جائے تاکہ وہ ملکی فیصلہ سازی پر اثرانداز نہ ہوسکیں لیکن انہیں تعلیم، روزگار اور دیگر بنیادی حقوق سے محروم نہ رکھا جائے، ایسااقدام اٹھانے سے ہمارے پاس ان تمام لوگوں کا ڈیٹا بھی آجائے گا جنہیں ہم اپنا شہری تسلیم نہیں کرتے لیکن وہ ہمارے قومی وسائل کا استعمال کررہے ہیں، اقامہ کا دورانیہ ختم ہونے پر انہیں اقوام متحدہ کے تعاون سے واپس بھی بھیجا جاسکے گا ۔تاہم دنیا کے دیگر ممالک کی طرح جرائم اور دہشت گردی میں ملوث عناصر کیلئے کسی قسم کی رعایت نہیں ہونی چاہئے۔میں سمجھتا ہوں کہ اب نئے پاکستان میں جاری اس نئی بحث کوکسی منطقی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم نہ کیا جائے، وزیراعظم پاکستان کے انسانیت کے ناتے اقدام کو فقط تنقید برائے تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے بلکہ قانون سازی کیلئے تجاویز پیش کی جائیں۔

تازہ ترین