• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانی کا مسئلہ حل نہ کیا گیا تو خطرناک نتائج نکلیں گے،چیف جسٹس

اسلام آباد ( رپورٹ : رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ نے ’’ڈڈوچھا ڈیم راولپنڈی کی تعمیر‘‘ سے متعلق چیف سیکرٹری حکومت پنجاب کے خلاف دائر کی گئی توہین عدالت کی ایک درخواست کی سماعت کے دوران حکومت پنجاب کو بحریہ ٹائون انتظامیہ کے ساتھ جوائنٹ وینچر کے ذریعے ڈڈوچھا ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے میٹنگ کرکے آئندہ سماعت تک اس کی رپورٹ رجسٹرار آفس میں پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 17اکتوبر تک ملتوی کردی ہے جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ میں قوم میں بے چینی پیدا نہیں کرنا چاہتا ہوں لیکن اگر پانی کا مسئلہ حل نہ کیاگیا تو اس کے نتائج خطرناک نکلیں گے، ڈیم بنانا عدالتوں کا کام نہیں ہے لیکن ملک میں پانی کی قلت کے حوالے سے حالات کی سنگینی کے باعث عدالتی مداخلت کی گئی ہے۔دیا میربھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا حکم جاری کرنے سے پہلے تین ماہ تک مختلف ماہرین سے رائے لیتے رہے تھے ۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے بدھ کے روز اس حوالے سے سپریم کورٹ کے ایک سابق فیصلے کے خلاف بحریہ ٹائون انتظامیہ کی جانب سے نظر ثانی جبکہ عدالت کے اسی سابقہ فیصلہ میں ڈڈوچھا ڈیم راولپنڈی کی تعمیر کے حکم پر عملدرآمد نہ ہونے کے حوالے سے کیس کے مرکزی درخواست گزار کرنل ریٹائرڈطارق کمال کی چیف سیکرٹری پنجاب زاہد سعید کے خلاف دائر کی گئی توہین عدالت کی درخواستوں کی سماعت کی تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل، پنجاب نے موقف اختیار کیاکہ بحریہ ٹائون انتظامیہ نے حکومت پنجاب کو ڈیم کی تعمیر کرکے دینے سے متعلق تجویز پیش کی ہے اورحکومت کو بھی ڈیم کی تعمیر سے متعلق کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن بحریہ ٹائون انتظامیہ تکنیکی معاملات کے حوالے سے ہم سے براہ راست بات کرے۔ انہوں نے کہا کہ بحریہ ٹائون کی دلچسپی صرف ڈیم کی تعمیر میں ہے، جبکہ اس کی لاگت کو تجویز کاحصہ نہیں بنایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پانی کی فروخت سے ڈیم کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات پورے نہیں ہو سکتے ہیں ، بحریہ ٹائون انتظامیہ باضابطہ طور پر حکومت سے بات نہیں کر رہی ہے ، انہوںنے کہا کہ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے بحریہ ٹائون انتظامیہ سے کوئی اصولی اختلاف تو نہیں ہے لیکن ڈیل میں شفافیت برقرار رکھنے کے لیے بحریہ ٹائون کو بولی میں حصہ لینا ہوگا، جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ بحریہ ٹائون انتظامیہ اور پنجاب حکومت مل بیٹھ کر اس معاملے کو طے کریں، اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے، پانی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو کوئی نہیں جانتا کہ اس ملک کا کیا بنے گا۔اعتزاز احسن نے کہا کہ ہمیں جگہ دے دیں کل ہی تعمیر شروع کر دیتے ہیں۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہم بھی صوبے کو صومالیہ نہیں بنانا چاہتے ہیں اس لئے اس حوالے سے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، چیف جسٹس نے بحریہ ٹائون کے وکیل اعتزاز احسن کو کہا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی شرائط حکومت کے ساتھ طے کریں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ڈڈوچھا ڈیم کے لئے اٹھارہ ہزار کنال اراضی کی ضرورت ہے جس میں سے گیارہ ہزار کنال بحریہ ٹائون کی ہے،جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ بقیہ سات ہزار کنال اراضی کے حصول میں بھی کچھ وقت لگے گا۔ عدالت کے استفسار پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ اراضی کے حصول کیلئے بجٹ موجود ہے ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈڈوچھا ڈیم کے حوالے سے بحریہ ٹائون انتظامیہ اور پنجاب حکومت میٹنگ کرکے عدالت کو نتائج سے آگاہ کرے۔ انہوںنے کہا کہ اگر بحریہ ٹائون اورحکومت پنجاب کے مابین ڈیم کی تعمیر کے معاملے پر اتفاق نہ ہوا توعدالت معاملے کا جائزہ لیکر اپنا فیصلہ جاری کرے گی ،انہوںنے مزید کہا کہ عدالت قومی اراضی اور ڈیم دونوں کی حفاظت کرے گی، بعد ازاں فاضل عدالت نے حکومت پنجاب کو بحریہ ٹائون اور ڈی ایچ اے کے ساتھ جوائنٹ وینچر سے متعلق میٹنگ کرکے آئندہ سماعت پر اس کی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 17اکتوبر تک ملتوی کردی،فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ڈیم کی تعمیر سے متعلق فریقین 2 اکتوبر کو پہلا اجلاس لاہور میں صوبائی سیکرٹری اریگیشن کے دفتر میں منعقد کریں اورآئندہ سماعت تک عدالت کو اجلاس سے متعلق رپورٹ پیش کی جائے، حتمی فیصلہ ہوجانے کے بعد عدالت اس معاملے کی سماعت کرے گی ،قبل ازیں مارگلہ کی پہاڑیوں اور ایبٹ آباد کے لورا کے جنگلات سے ’’پتھروں اور درختوں کی کٹائی‘‘ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جنگلات پر قبضے کے حوالے سے رپورٹ پیش کی، اعتزاز احسن نے ایک سوال پر کہا کہ ہم نے کوئی قبضہ نہیں کیا۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بحریہ ٹائون میں یہ سب کیا ہو رہا ہے؟سنا ہے بحریہ ٹائون اسلام آباد کی تو حد بندی بھی کی گئی ہے؟جس پر ملک ریاض نے روسٹرم پر آکر کہا کہ یہ معلومات درست نہیں ہیں ۔چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ نے مجھ سے 20 منٹ کا وقت بھی تومانگا ہے،جس پر انہوںنے کہا کہ میں نے ڈڈوچھا ڈیم کیس میں استدعا کی ہے کہ میرا موقف سننے کیلئے مجھے وقت دیا جائے ،چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ ملک صاحب کیا آپ کے پاس ایک ہزار ارب روپے ہیں؟ تو انہوںنے کہا کہ میرے پاس توایک سو ارب روپے بھی نہیں ہیں،جس پر فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہاگر ملک ریاض کے پاس پیسہ نہیں ہے تو پھرکس کے پاس ہے؟ پورے پاکستان کا پیسہ تو ملک ریاض کے پاس ہے، ملک ریاض نے کہا کہ میرے پاس حلال کا کمایا ہوا پیسہ ہے حرام کا نہیں ہے ، جس پر فاضل چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہم نے آپ کو کب کہا کہ آپ کا پیسہ حرام کا ہے،آپ یہ کیوں فرض کرلیتے ہیں کہ ہم حرام کی بات کر رہے ہیں،آپ آئندہ سماعت پر ایک ہزار ارب روپے کا بندوبست کر کے یہاں تشریف لائیں۔جس پر ملک ریاض نے کہا کہ ایک ہزار ارب روپے تو شاید امریکہ کے پاس بھی نہیں ہوں گے ،چیف جسٹس نے کہا کہ یکم اکتوبر کو آپ کا کیس لگا ہوا ہے اور ہم 20منٹ تک آپ کا موقف سنیں گے، کیس کی مزید سماعت 17اکتوبرکو ہوگی۔
تازہ ترین