کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں بچی امل کی ہلاکت کےازخود نوٹس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار اسپتال انتظامیہ کے جھوٹ بولنے پر برہم ہوگئے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں بچی امل کی ہلاکت کے از خود نوٹس کی سماعت کی۔
نجی اسپتال انتظامیہ نے امل کے والدین کے مؤقف کو مسترد کر دیا، اسپتال انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ ہم علاج کررہے تھے جبکہ والدین خود بچی کو دوسرے اسپتال لے جانا چاہتے تھے۔
بچی کے والدین نے اسپتال انتظامیہ کی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے دیا، امل کے والد نے بیان دیا کہ اسپتال انتظامیہ ہمیں بچی کو دوسرے اسپتال لے جانے کا کہہ رہی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے اسپتال انتظامیہ کو کہا کہ اپنا عملہ اور مصنوعی تنفس کا سامان بھی ساتھ دیں، جس پر اسپتال انتظامیہ نے کہا کہ نہ عملہ دے سکتے ہیں اور نہ مصنوعی تنفس کا سامان۔
چیف جسٹس نے اسپتال انتظامیہ کی جانب سے جھوٹ بولنے پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ تم ڈاکٹر ہو جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے؟
سپریم کورٹ نے جسٹس خلجی عارف کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی اور 2 ہفتوں میں رپورٹ طلب کر لی۔
کمیٹی میں پولیس افسر اے ڈی خواجہ اور ڈسٹرکٹ بار کے ایک نمائندے کو بھی شامل کیا گیا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے اس کمیٹی میں ڈاکٹر اور مزید ایک پولیس افسر کو شامل کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔
بچی امل کی ہلاکت کے کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی۔