• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

موٹر بائیک سے بی ایم ڈبلیو تک سرفراز کا طویل سفر

کہتے ہیں شہرت جتنی مشکل سے ملتی ہے اسے سنبھالنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے، مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو زندگی میں کسی بھی مقام پر پہنچ جائیں، ان کے رویے میں ذرا برابر بھی تبدیلی نہیں آتی، آپ سمجھ گئے ہوں گے ہمارا اشارہ سرفراز احمد کی طرف ہے۔

میں اس وقت سے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان کو جانتا ہوں جب یہ ایک پرانی سی 70 موٹر سائیکل پر گھوما کرتے تھے، گلبرگ میں موجود راشد لطیف کرکٹ اکیڈمی  ٹی ایم سی گراؤنڈ میں سرفراز روز کھیلنے کے لیے آتے تھے اور ہر کسی سے بڑے اخلاق کے ساتھ ملتے تھے۔

سال 2006 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم انضمام الحق کی قیادت میں دورہ انگلینڈ پر گئی اور جب اوول کے میدان میں ٹیسٹ میچ جیتنے کے قریب پہنچی تو آسٹریلوی ایمپائر نے قومی ٹیم پر بال ٹیمپرنگ کے بے جاالزامات لگاتے ہوئے غلط فیصلے دینا شروع کر دیے۔ جس پر انضمام الحق اپنی ٹیم کو گراؤنڈ سے باہر لے گئے اور ڈیرل ہیئر کی ایمپائرنگ میں میچ کھیلنے سے انکار کردیا جس کے جواب میں ایمپائر نے فیصلہ انگلینڈ کے حق میں دیتے ہوئے اسے میچ کا فاتح قرار دیا۔

اس واقعے کے بعد پاکستان میں موجود کرکٹ کے شائقین اور کھلاڑیوں سمیت پورے حلقے میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور اس فیصلے کے خلاف پورے ملک میں احتجاج شروع ہو گیا۔

کراچی میں کلب کرکٹ کھیلنے والے تمام کرکٹرز کراچی پریس کلب پہنچے اور وہاں ڈیرل ہیئر کے خلاف بھرپور احتجاجی مظاہرہ کیا اور اسے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔

اس احتجاج میں جہاں ہم اصغر علی شاہ کرکٹ اسٹیڈیم اور اے او کرکٹ اکیڈمی کی طرف سے پہنچے تھے وہیں دوسری طرف راشد لطیف اکیڈمی سے سرفراز اور کسٹمز اکیڈمی کی طرف سے فواد عالم اور دیگر کرکٹر بھی عام کرکٹ لوورز کے طور پر پہنچے تھے۔

2006 میں انڈر 19 ورلڈکپ میں کامیابی کے بعد سرفراز احمد کا ایک خوب صورت انداز۔

کسے خبر تھی کہ کرکٹ کے لیے احتجاج کرنے والے انہی کھلا ڑیوں میں سے کچھ لوگ آگے جاکر انٹر نیشنل پلیئر بھی بنیں گے اور ملک کا نام روشن کریں گے، وہاں ہم نے دیکھا کہ مستقبل کا قومی ٹیم کا کپتان اپنی پرانی سی ہنڈا 70 پر اپنے دوستوں کو لے کر گھوم رہا تھا، مگر چہرے پر بشاشت اور آنکھوں میں چمک موجود تھی جبکہ دل میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ بھی تھا۔

خیر وقت گزرتا رہا اور سرفراز احمد اپنی محنت کے بل بوتے پر قومی ٹیم کا حصہ بن گئے۔ کوئی بڑی پرچی اور سفارش کے بغیر یہ مڈل کلاس طبقے کا لڑکا اس قوم کی امید بن گیا۔

پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جب ٹیم میں بڑے بڑے پلیئر ہمت ہارگئے تو ایسے میں اسی نوجوان کرکٹر نے ٹیم کو سہارا دیا اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کو نمبر ون بنانے میں کامیاب ہوگیا۔

لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ’ سرفراز دھوکہ نہیں دے گا‘۔ ایسا ہی ہوا بھی، جب بھی آسٹریلیا کے خلاف سیریز ہو یا نیوزی لینڈ ، انگلینڈ جیسی بڑی ٹیموں سے سامنا یاپھر بھارت جیسی حریف ٹیم سے مقابلہ۔ یہ سرفراز احمد ہی ہے جو ہر محاذ پر ڈٹا رہا اور ٹیم کو مسلسل فتوحات دلواتا رہا۔

پچھلے سال 2017 جون کے مہینے میں پاکستان کی ٹیم جب چیمپئنز ٹرافی کی فاتح بن کر سامنے آئی تو قوم نے اسے اپنے سروں پر بٹھالیا جہاں اپنی محبتوں کے پھول ان پرنچھاور کیے وہیں، پوری ٹیم پر نوٹوں کی بارش بھی کی گئی ۔

جب سرفراز احمد کو ہر طرف سے پیسہ اور گاڑیاں ملنا شرو ع ہوگئیں تو ان کے رویے میں تبدیلی تب بھی نہیں آئی، موٹر سائیکل سے بی ایم ڈبلیو کار تک کا سفر کرنے کے بعد بھی ہمیشہ ہم نے انہیں اسی طرح ہر کسی سے ملتے جلتے اور گھلتے ملتے دیکھا جس طرح وہ پہلے ایک عام کھلاڑی کی حیثیت سے لوگوں سے ملتے تھے۔

کسی بھی ایونٹ میں آپ سرفراز احمد سے مل لیں ہمیشہ ہنستے مسکراتے ہی نظر آئیں گے، سرفراز احمد پاکستان کی تاریخ کے وہ پہلے کامیاب کپتان ہیں،  جن کا آج تک کوئی اسکینڈل تو دور کی بات کوئی تنازعہ بھی سامنے نہیں آیا۔ یہ حقیقت ہے کہ سرفراز کو نہ کبھی میڈیا کے نمائندوں سے بد تمیزی کرتے اور نہ ہی کبھی اپنے مداح کو جھڑکتے دیکھا گیا۔

ورنہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ کسی کو ذرا سی شہرت کیا ملی سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ تو پھر کیوں نہ فخر کریں ہم اپنے کپتان پر، جو کبھی دھوکا نہیں دیتا۔

تازہ ترین
تازہ ترین