• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عجیب صورتحال ہے پانی کا بحران نظر آ رہا ہے اس معاملہ پر کچھ عرصہ سے آواز اٹھائی جا رہی تھی ۔تقسیم ہند کے بعد اس خطہ میں پانی کی تقسیم پر کچھ معاہدے بھی ہوئے۔ پاک وہند دونوں ممالک نے پانی کی اہمیت کے مدنظر ڈیم بنانے شروع کئے۔بھارت نے اپنے دریائوں پر بڑی منصوبہ بندی سے پانی کا ذخیرہ کرنے کے لئے کافی ڈیم بنائے او رپاکستان ان سے لاتعلق ہی رہا۔سندھ طاس معاہدے کے دونوں فریق ایک دوسرے سے مشاورت کے پابند تھے۔پاکستان کی انتظامیہ نے بہت ہی لاپروائی کا ثبوت دیا ہمارے ہاں کالا باغ ڈیم پر بہت کاغذی کارروائی کی گئی۔ جمہوریت اور آمریت کے زیر سایہ جو لوگ بھی حکومت کرتے رہے وہ بلاوجہ کالا باغ ڈیم بنانے سے کتراتے رہے۔صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) اور سندھ کے کچھ سیاسی لوگوں نے مخالفت کی اور کارسرکار کے لوگ ڈر گئے۔ان کو اندازہ نہ تھا کہ کالا باغ ڈیم کتنا اہم اور ضروری ہے۔

اب اتنا عرصہ گزرنے کے بعد دیگر ذرائع کے ذریعہ پانی کے ذخائر کے لئے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ۔اس معاملہ پر سب لوگ تقریباً متفق ہیں کہ پانی کے ذخیرہ کو مناسب طریقہ سے استعمال کے لئے چھوٹے بڑے ڈیموں کی ازحدضرورت ہے۔سابق آمر صدر جنرل مشرف نے 2005ء میں اعلان کیا کہ کالا باغ ڈیم ہماری ضرورت ہے اور وہ ہرحال میں بن کر رہے گا۔صدر مشرف نے جب میاں نواز شریف کی جمہوری سرکار ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو ایک بڑی وجہ ملک میں بے چینی اور تشویش کا اظہار تھا۔شروع میں امریکہ نے جنرل مشرف کی آمرانہ سرکار کو خاطر میں نہیں لایا۔اور تعاون بھی نہیں کیا پھر نائن الیون( جب نیویارک میں دہشت گردی ہوئی ) کے بعد امریکہ نے پاکستان سرکار پر توجہ دینی شروع کی۔جنرل مشرف کی سرکار نے امریکی دوستوں کی مدد کا غیر مشروط فیصلہ کیااور خوب رقم بھی کمائی وہ ایک علیحدہ دل گیرداستان ہے۔

کالا باغ ڈیم کے بارے میں جنرل مشرف کے اعلان پر صوبہ سندھ اور خیبرپختونخوا سے شدید ردعمل بھی سامنے آیا۔سابق ملٹری صدر مشرف کو اپنی حکمرانی کے لئے سیاسی لوگوں کی اشیرباد درکار تھی۔اس نے کالاباغ ڈیم کے معاملہ پر سیاسی سودے بازی کی اور کالا باغ ڈیم کے منصوبہ کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کیا۔جبکہ اس کو اندازہ اور یقین تھا کہ کالا باغ ڈیم پر اعتراض ذاتی مفادات کے تناظر میں تھے اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر وقت کی اہم ضرورت تھی اور اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود کالا باغ ڈیم کی اہمیت اور حیثیت مزید بڑھ گئی ہے اور اس معاملہ میں سندھ کی اشرافیہ اور سیاسی لوگوں سے بات چیت کی جا سکتی ہے ۔اگر سندھ کے قابل گرفت لوگوں کو معافی کی یقین دہانی مل جائے تو ان کا کالاباغ پر اعتراض بھی ختم ہوسکتا ہے ۔

پنجاب کے سابق حکمرانوں نے بھی اپنا کردار بہت منفی رکھا سابق نااہل وزیر اعظم کو کالا باغ کے معاملہ کا سب سے زیادہ معلوم ہے مگر سیاست اور کاروبار کے معاملات نے ان کو بے بس کر رکھا ہےاور وہ کوئی بھی فیصلہ وقت پر نہ کر سکے ۔ پنجاب کے صوبیدار بہادر شہباز شریف جو بہت اچھی حکومت کرنے کے دعویدارہیں ان کو بھی کالا باغ ڈیم کی اہمیت کا اندازہ نہ ہوسکا یا ان کو خوف تھا کہ کالا باغ ڈیم کی وکالت سے وہ کمزور ہو سکتے ہیں۔افسوس کا مقام ہے کہ اب بھی کالا باغ ڈیم کے معاملہ پر سچ بولنے سے کتراتے ہیں۔کالا باغ ڈیم کے لئے آپ کو اس وقت وسائل کی کمی نہیں ہے بس قوت فیصلہ کی کمی ہے۔ دوسرے ڈیموں کے لئے کوشش تو ہو رہی ہے مگر وہ بھی معاملہ سست روی کا شکار ہے۔سپریم کورٹ نے کچھ کوشش کی ہے مگر اس کو بھی پاکستان کے سیاسی گماشتے شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

اب پاکستان میں حکومت اور سرکار تبدیل ہو چکی ہے۔ بنیادی تبدیلی کے لئے وزیر اعظم پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اب صوبہ خیبر پختونخوا میں ان کی جماعت کا راج ہے ۔کالا باغ ڈیم پر جمہوری انداز فکر کے مطابق ان کو رائے عامہ کے حوالہ سے مثبت اشارے دینے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کے منصوبہ سے صوبہ پختونخوا کو کوئی بڑا نقصان نہیں ہو گا بلکہ کالا باغ ڈیم کی وجہ سے ان کی آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ بھی ہو سکتا ہے دوسرا صوبہ بلوچستان ہے جس کو کوئی اختلاف نہیں۔ صوبہ سندھ کے کچھ لوگ اس حوالے سے معترض ہیں مگر بات چیت سے ان تمام اعتراضات کو دور کیا جا سکتا ہے البتہ یہ واضح ہے کہ سندھ کے وڈیروں کی کالا باغ ڈیم مخالفت ذاتی مفادات کے تناظر میں ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کالا باغ ڈیم کے لئے راہ ہموار کرسکتے ہیں ۔

اس وقت سابق نااہل وزیراعظم نواز شریف حالات اور بات چیت کے نتیجہ میں مکمل طور پر غیر موثر ہو چکے ہیں۔مسلم لیگ کی باگ ڈور اس وقت سابق صوبیدار پنجاب کے ہاتھ میں ہے اور وہ بھی کالا باغ کی اہمیت کو جانتے ہیں اگر ان کے بھائی کے لئے سرکار اور دوست محفوظ راستہ دے سکیں تو کالا باغ پر ان کا بیانیہ مکمل طور پر بدل سکتا ہے اور و ہ قومی دھارے کی سیاست میں شریک سفر بھی ہو سکتے ہیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ ان کی سیاست مکمل طور پر غیر جمہوری طرز عمل پر ہے ۔

عمران خان کی حکومت کو کالا باغ ڈیم بنانے کا موقع مل رہا ہے اور اس کے لئے ان کو بیرون ملک دوستوں سے مشاورت کرنی چاہئے ۔ ڈیم بنانے کا ایسا موقع دوبارہ نہیں ملے گا۔کالا باغ ڈیم کے لئے اگر ریفرنڈم کروانا پڑے تو جمہوری طریقہ سے اس پر عمل کیا جائے ڈیم کے لئے کسی قربانی کے لئے قوم کو بتانا اور تیار کرنا ضروری ہے۔ تبدیلی یہ نہیں کہ حکومت مل جائے تبدیلی یہ ہے پاکستان کی حیثیت اور اہمیت بڑھ جائے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین