عمران خان نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو امید تھی کہ وہ عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کریں گے۔ عمران خان سے وابستہ امیدیں اور توقعات ابھی تک قائم ہیں۔ لیکن انکی اب تک کی حکومتی کارگزاری مایوس کن ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کسی بھی حکومت کو اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کیلئے مناسب وقت دیا جاناچاہیے۔ لہٰذا یہ سوال قابل تائید ہے کہ جس حکومت کو قائم ہوئے ابھی دو ماہ بھی نہیں گزرے، اسکی کارکردگی پر سوالات کیوں اٹھنے لگے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کی ذمہ دار بھی خود حکومت ہے۔ عمران خان گزشتہ پانچ سال انتہائی بلند آہنگ دعوے کرتے رہے ۔ انہوں نے عوام کوبڑے بڑے خواب دکھائے اور انکی توقعات کو بڑھاکر ساتویں آسمان پر پہنچا دیا۔وہ ہمیشہ کہتے رہے کہ جیسے ہی حکومت کی باگ ڈور انکے ہاتھ آئے گی، وہ ملک کی تقدیر بدل ڈالیں گے۔ عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لے آئیں گے۔ لہٰذا اب عوام الناس عمران خان سے عام حکومتوں سے کہیں زیادہ توقعات وابستہ کر چکے ہیں۔یاد رہے کہ موجودہ حکومت سے کسی ایسے کام کا مطالبہ نہیں کیا جا رہا ، جس کیلئے برسوں درکار ہوں۔ مثلا کسی نے مطالبہ نہیں کیا کہ راتوں رات ڈیم تعمیر کر دیئے جائیں۔ کوئی نہیں کہہ رہا کہ روپے کی قیمت ڈالر کے برابر لائی جائے۔ کسی نے نہیں کہا کہ سبز پاسپورٹ کو برطانوی پاسپورٹ جتنی تعظیم دلوائی جائے۔ تحریک انصاف اور عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایسی اپوزیشن ملی ہے جو حکومت کی ہر چھوٹی بڑی غلطی اور حماقت کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے۔ ہاں مگر حکومتی اراکین اور وزراء بار بار عوام اور میڈیا کو مجبور کر تے ہیں کہ انکی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے ۔جب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر ببانگ دہل یہ اعلان فرمائیں کہ انکی حکومت کی ایک ماہ کی کارکردگی ،گزشتہ حکومت کی ایک سال کی کارکردگی سے بہتر ہے، تب لامحالہ میڈیا اور عوام کو حکومتی اقدامات کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔
پاکستان کو سنجیدہ بحران درپیش ہیں۔ مگرحکومت نے اپنی ساری توجہ ایسے کاموں پر مرکوز کر رکھی ہے ، جسکا عملی طور پر عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ محض عوامی توجہ حاصل کرنے (یا اہم ایشوز سے ہٹانے کیلئے) غیر اہم اقدامات کی تشہیر پر قیمتی وقت اور روپیہ ضائع کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر اس بات کا بہت چرچا کیا جاتا ہے کہ حکومت نے عوام کیلئے گورنر ہائوس کے دروازے کھول دئیے ہیں ۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ ہفتے میں چند گھنٹے عوام کو گورنر ہاوسز میں داخلے کی اجازت دینے سے انکی زندگی میں ذرہ برابر بہتری نہیں آسکتی۔ اصل تبدیلی تو یہ ہے کہ گورنر ہائوس پنجاب کے پہلو میں واقع ایچیسن کالج کے دروازے غریب بچوں کیلئے کھول دئیے جائیں۔ پشاور کے ایڈورڈ کالج کے دروازے غریب بچوں کیلئے کھولے جائیں۔ اسی طرح مری گورنر ہائوس چند گھنٹوں کیلئے کھولنے کے بجائے، مری کا لارنس کالج گھوڑا گلی غریب عوام کیلئے کھولا جائے۔یہ ہیں وہ اقدامات جو عوام کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ابھی تو یہ حال ہے کہ چند ہی دن میں عوام کے رش کی وجہ سے گورنر ہائوس کی عمارتوں کا حلیہ بگڑ نے لگا ہے۔ صفائی ستھرائی، سیکورٹی اور دیگر اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ نت نئی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔اب سنتے ہیں کہ حکومت اپنے اس فیصلے پر پچھتارہی ہے۔ اسی طرح سادگی مہم کی تشہیر پر بھی حکومتی توانائی ضائع ہو رہی ہے۔ ایک طرف معیشت کا بحران منہ کھولے کھڑا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، تعلیم، صحت اور امن عامہ جیسے مسائل حکومتی توجہ اور ٹھوس اقدامات کے متقاضی ہیں۔ مگر وفاقی حکومت ترجیح اول کے طور پر، وزیر اعظم ہائوس میںبھینسوں اور کاروں کی نیلامی کا میلہ سجاتی ہے۔ حکومتی عہدیدار اور وزراء باقاعدہ ان بھینسوں اور گاڑیوں کیساتھ تصویریں اور ویڈیوز بنانے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ سرکاری سطح پر بیانات جاری ہوتے ہیں۔ اور میڈیا کو انٹرویوز دئیے جاتے ہیں۔ اس ساری مہم کا حاصل یہ کہ بتیس لاکھ کی بھینسیں فروخت ہوتی ہیں اور بیس کروڑ روپے کی کاریں۔ جبکہ اس نیلامی کے اخباری اشتہارات پر قومی خزانے کے اٹھارہ کروڑ روپے اٹھ جاتے ہیں۔
پروٹوکول کے خاتمے اور بچت کے دعوے بھی ایسے ہی معاملات ہیں، جن پر حکومتی توانائی صرف کی جا رہی ہے۔ یہ الگ بات کہ پروٹوکول بھی اسی طرح جاری ہے اور حکومتی اخراجات میں کمی کے بھی کوئی آثارنظر نہیں آتے۔ دو دن پہلے کی خبر ہے کہ پنجاب حکومت نے پروٹوکول کیساتھ چلنے والی گاڑیوں کیلئے تو کروڑوں روپے کے فنڈز جاری کر دئیے ہیں۔ البتہ اشتہاری ملزموں کو پکڑنے کیلئے پولیس کی گاڑیاں خریدنے کیلئے رقم دستیاب نہیں ہے۔
سچ یہ ہے کہ عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عمران خان وزیر اعظم ہائوس میں رہیں یا وزیر اعظم ہائوس کیساتھ واقع ملٹری سیکرٹری ہائوس میں۔ عمران خان کے ہیلی کاپٹر اور چارٹرڈ طیاروں پر سفر کرنے پر بھی عوام کو کوئی اعتراض نہیں۔ عوام کو صدر اور گورنرز کا پروٹوکول لینا بھی گراں نہیں گزرتا۔عوام کو فقط اس بات سے غرض ہے کہ انکی زندگی میں کتنی بہتری آتی ہے۔صورتحال یہ ہے کہ جب عام آدمی کو ریلیف دینے کا مرحلہ آیا تو حکومت نے گیس کی قیمتیں بڑھا دیں۔ بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ بھی ہو چکا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اشیائے خور و نوش مہنگی ہوگئی ہیں۔بر سر اقتدار آنے سے قبل عمران خان ٹیکس چوروں کو پکڑنے کے دعویدار تھے۔ مگر اب عام آدمی پر تو ٹیکسوں کا اضافی بوجھ لادا جا رہا ہے۔ جبکہ ٹیکس چوروں کا بے باکی سے دفاع کیا جا رہا ہے۔ وزیر مملکت ریونیو حماد اظہر کا کہنا ہے کہ "ٹیکس چوروں پر گاڑیاں اور پلاٹ خریدنے کی پابندی لگانا ، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے"۔
تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی فیصلہ سازی کا بھی خوب مذاق بنوایا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کو معطل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، مگر جب اس فیصلے پر میڈیا اور اپوزیشن نے سواات اٹھائے تو بیان واپس لے لیا گیا۔ ریڈیو پاکستان کی عمارت کو لیز پر دینے کا اعلان کیا گیا۔ مگر ملازمین کے احتجاج اور سوشل میڈیا پر اعتراجات پر وہ فیصلہ بھی واپس لے لیا گیا۔ پیمرا اور پریس کونسل کو ختم کرکے ایک نئی اتھارٹی قائم کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ مگر پتہ چلتا ہے کہ اسکے لئے تو باقاعدہ آئینی ترمیم درکار ہے، تب خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔
اس کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو اپنی خود احتسابی کرنی چاہیے۔ اب عمران خان وزیر اعظم بن چکے ہیں ، لہٰذا ان کی ترجیح اول عوام کی فلاح و بہبود ہونی چاہیے۔ تحریک انصاف کیلئے اس امر کی تفہیم ضروری ہے کہ خالی خولی نعروں اور ذاتی تشہیر کا زمانہ لد چکا۔ اب اس کی توجہ عوام کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ جس کیلئے ضروری ہے کہ سنجیدہ رویہ اختیار کیا جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)