گزشتہ برسوں میں پاکستان کے بڑے شہروں کو دہشتگردوں سے محفوظ بنانے کیلئے بیرونی امداد کیساتھ ’’ سیف سٹی ‘‘ پروجیکٹ شروع کئے گئے ، صوبائی دارالحکومت لاہور کی سڑکوں پر بھی ہزاروں سی سی ٹی کیمرے لگانے کا خیال اسوقت آیا جب پاک افواج دہشتگردی پر تقریباً قابو پاچکی تھی، اب چونکہ سیف سٹی پروجیکٹ کو چلانے کیلئے کروڑوں کا بجٹ درکار ہے ، پھر یہاں بھرتی کئے گئے لوگوں کے جواز کو بھی مضبوط بنانا تھا تو کسی نے آئیڈیا دیا کہ سیف سٹی کیلئے لگائے گئے کیمروں کے ذریعے لاہور شہر میں چلنے والی ٹریفک کو مانٹیر کرنے کیساتھ ساتھ ای چالان کانظام شروع کیا جائے، اس سے ایک تو پروجیکٹ پر کام کرنیوالوں کی نوکریاں پکی ہوجائینگی اور حکومت کو پیسہ اکٹھا کرنیکا ایک نیا ذریعہ مل جائیگا۔ زمینی حقائق کو جانے بغیر گزشتہ اکتوبر ٹیسٹ کیس کے طور پر سٹی ٹریفک پولیس نے ای چالان کی پرچیاں گاڑی مالکان کے گھروں میں بھیجنا شروع کر دیں۔ پولیس کی اپنی رپورٹ کے مطابق 40فیصد مالکان نے کہا کہ وہ یہ گاڑیاں فروخت کر چکے ہیںیا ایڈریس غلط ہیں۔ پہلے تو صرف مال روڈ سے گزرنے والی گاڑیوں کے ای چالان کا اعلان کیاتھا، اب لاہور کی تمام بڑی شاہراہوں پر ای چالان شروع کر دیئے گئے ہیں، شہریوں کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں تصویر ی شواہد کے ہمراہ کوریئرکے ذریعے چالان بھجوائے جارہے ہیں اور شہریوں کو چالان کی ادائیگی کیلئے دس روز کا وقت دیا گیا ہے ، اگر بار بار خلاف ورزی کی گئی اور جرمانہ جمع نہ کرایا گیا تو گاڑی بھی ضبط کر لی جائیگی۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ چالان تو گاڑی چلانیوالے ڈرائیو ر کاہوتاہے مگر کس قانون کے تحت مالک کو جرمانہ کیا جا رہا ہے ؟پھر پولیس کی اپنی رپورٹ ہے کہ گاڑیوں کی رجسٹریشن کا ریکارڈ ہی مکمل نہیں اور فرض کریں کہ لاہور رجسٹریشن آفس کا ریکارڈ مکمل ہے تو وہ گاڑیاں جو دوسرے شہروں سے ہزاروں کی تعداد میں لاہور آتی ہیں، انکا ریکارڈ کیسے چیک ہوگا۔ کیا پھر اُن شہریوں کے پتوں پر چالان بھجوائے جائینگے؟ اور اس پر عملداری کو کیسے چیک کیا جائیگا۔ کیا سیف سٹی اتھارٹی نے یہ ہوم ورک کیا ہے کہ چالان کسی کو ٹی سی ایس کرنے اور ہر چیز مکمل کرنے پر فی چالان کتنا خرچ آئیگا؟ چونکہ یہ کہا گیا ہے کہ موٹر سائیکل والوں کو بھی ای چالان گھروں پر بھجوائیں جائینگے ۔ اب فرض کریں ایک موٹر سائیکل والا اشارے کی خلاف ورزی کرتا ہے یا زبیرا لائن کراس کرتا ہے تو اسکا جرمانہ دو سو روپے ہے لیکن جب آپ ای چالان مکمل کر کے کوریئر کے ذریعے بھجواتے ہیں تو تمام اخراجات ڈال کر کم از کم ایک ہزار روپے خرچ آتا ہے ۔ آپ موٹر وہیکل آرڈیننس ورو لز 1965ء کے مقرر کردہ شرح سے زیادہ کسی کو جرمانہ نہیں کر سکتے ۔ پھر بعض چوراہے ایسے بھی ہیں کہ کیمرے صرف ایک طرف لگے ہوئے ہیں باقی تین طرف رولز کی خلاف ورزی ہورہی ہے مگر اسکی ریکارڈنگ نہیں ، دوسری اہم بات یہ ہے کہ لاہور کے اندر لاکھوں کی تعداد میں ہر روز گاڑیاں سڑکوں پر نکلتی ہیں، کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق 2013ء سے2018ء تک 78لاکھ سے زائد وہیکلز رجسٹرڈ ہوئیں جن میں پانچ لاکھ 22ہزارسے زائد گاڑیاں اور 67لاکھ ستر ہزار موٹرسائیکل ہیں۔ جو دوسرے شہروں سے ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں آتی ہیں وہ الگ ہیں۔ 95فیصد گاڑیاں اور موٹرسائیکل ایسے ہیں جن سے لاہور میں مجموعی طور پر 33 سوکلو میٹر طویل سڑکوں کا سفر طے کرنے کے دوران کوئی نہ کوئی چھوٹی موٹی غلطی یا ٹریفک رولزکی خلاف ورزی ضرور ہوتی ہے۔ سیف سٹی کی اپنی رپورٹ کے مطابق ہر روز ایک لاکھ ٹریفک کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں ، خلاف ورزی کی سب سے بڑی وجوہات میں ٹریفک اشارے ، ٹریفک پولیس اور سڑکوں کا ناقص ہونا ہے ۔ لاہور کی ڈیڑھ کروڑ آبادی کیلئے 32سو ٹریفک وارڈنز اور کل 160 ٹریفک اشارے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہرروز لاکھوں گاڑیوں کی مانیٹرنگ ممکن ہے، اگر تو ہزاروں لوگ کئی کئی ہزار فی کس کے حساب سے گاڑیوں کو مانیٹر کر رہے ہیں اور انکی ریکارڈنگ دیکھ رہے ہیں تو پھر شاید یہ سچ مان لیا جائے لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر یہ نیاڈرامہ اور عوام کو بیوقوف بنانے کا ڈھونگ ہے، دوسرا اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہر روز ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنیوالے ہزاروں لوگوں کو کوریئر کے ذریعے چالان بھیجنا ممکن ہوگا؟ انسان لاعلمی میں آکر کوئی قدم اٹھا لیتا ہے لیکن اس کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے ، اپنے آپکو ماڈرن دُنیا میں شامل کرنے کیلئے پہلے اپنے سسٹم کو پوری طرح جدید ترین تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے نہ کہ جہالت میں اٹھائے گئے قدم سے پورے معاشرے کو تباہ کر کے رکھ دیا جائے۔
لوگوں کی جانوں کا تحفظ کرنے کا کیسا حُسن انتظام ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کو بتایا گیا کہ ٹریفک حادثات میں اضافہ ہوتاجا رہا ہے جسکی اہم وجہ موٹرسائیکل والوں کا ہیلمٹ نہ پہننا ہے ۔ہائیکورٹ نے ایک ماہ پہلے حکم دیا کہ 24ستمبر2018ء سے ہیلمٹ نہ پہننے والے موٹرسائیکل والوں کا چالان کیا جائے اور انہیں ایک ہزار جرمانہ کیا جائے۔ ٹریفک پولیس نے پہلے چار دنوں میںمال روڈ پر8284چالان جبکہ شہر بھر میں 44ہزار 455چالان ٹکٹ جاری کئے ہیں ، یہ سلسلہ تادم تحریر جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر رولز یا فیصلے معاشرے میں انتشار پھیلائیں اور عوام کو کوئی ریلیف دینے کی بجائے اُنکی زندگیاں عذاب میں مبتلا کر دی جائیں تو یہ نہ عوام کی خدمت ہے اور نہ ہی ریاست کیساتھ وفاداری ۔ پورے شہر کے اندر اسوقت خوف کی ایک کیفیت طاری ہے ، ایک طرف موٹروہیکل آرڈیننس و رولز 1965ء کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دو سو روپے کی بجائے ایک ہزار روپے ہیلمٹ نہ پہننے پر چالان کئے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ہیلمٹ کی قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ وہ ہیلمٹ جو دو ڈھائی سوروپے کا تھا اب اسکی قیمت چھ سو روپے تک ہوچکی ہے او رپانچ سو روپے میں ملنے والا ہیلمٹ تین ہزار روپے تک فروخت کیا جارہا ہے، جسکی کوالٹی بھی ناقص ہے ۔ جبکہ پوری قوم کو چالان کی لاکھوںچٹیںتھما کر انہیں عذاب میں مبتلاکر دیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو ٹریفک پولیس نے شہریوں کو سروس فراہم کرنیکی بجائے دکانداری شروع کر دی ہے تاکہ اس ادارے کو منافع بخش ڈکلیئرکیا جاسکے، جو موجودہ حکومت اور ریاست کیخلاف ایک سازش ہے کہ امن وامان کو تباہ کر کے ریاستی اداروں کو لوگوں کے سامنے کھڑا کر دیا جائے، یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ٹریفک پولیس کو وکیلوں ، صحافیوں اور پولیس والے جو بغیر ہیلمٹ موٹرسائیکل چلاتے ہیں ، اُنکا چالان کر نیکی جرات ہی نہیں ۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ قانون سب کیلئے برابر ہو اگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھے بغیر فیصلے کئے جائینگے تو ان کے نتائج غلط برآمدہونگے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ کوئی ادارہ یااتھارٹی اسکو کنٹرول کرنا اپنی ذمہ داری ہی نہیں سمجھتی ۔ اسلئے عدالت عظمیٰ کو اسکا نوٹس لینا چاہئے!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)