• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سید ثقلین علی نقوی

اکتوبر 2005 ء کے زلزلے کو 13 برس گزر گئے، مگر تباہی کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ زلزلے نے کئی انسانی المیوں کو جنم دیا۔ بہت سے افراد عُمر بھر کے لیے اپاہج ہو ئے، تو کئی ایک کی زندگی بھر کی جمع پونجی ضائع ہوگئی۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ناقابلِ فراموش زلزلہ، 8 اکتوبر 2005 ء کو صبح 8 بج کر 50 منٹ پر آیا۔ اُس روز آزاد کشمیر، اسلام آباد، خیبر پختون خوا اور مُلک کے بالائی علاقوں پر گویا قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ زلزلے کی شدّت ریکٹر اسکیل پر7.6 تھی اور مرکز، اسلام آباد سے 95 کلو میٹر دُور اٹک اور ہزارہ ڈویژن کے درمیان تھا۔ تباہی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ زلزلے سے15 تحصیلیں صفحۂ ہستی سے مِٹ گئیں اور ایک محتاظ اندازے کے مطابق، ایک لاکھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نیز، عمارتوں کے نیچے دبی تمام لاشیں نکالنے میں تقریباً چھے ماہ لگے۔ زلزلے کے دَوران پاک فوج نے بڑا ریسکیو آپریشن کیا، جسے پوری دنیا میں سراہا گیا۔ پاک فوج کے جوان خچروں اور کشتیوں کے ذریعے دریائے نیلم پار کر کے دُور دراز پہاڑی علاقوں میں پہنچے اور متاثرین تک خوراک اور دیگر امدادی اشیاء پہنچائیں۔

حکومتی نمائندے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، مگر متاثرین آج بھی امداد کے منتظر ہیں، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کے یہ دعوے محض بیانات کی حد تک محدود ہیں۔ ایک دہائی سے بھی زاید گزرنے کے باوجود علاقے میں کوئی خاطر خوا تبدیلی نہیں آسکی، جس کی زندہ مثال،’’ نیو بالا کوٹ سٹی‘‘ ہے، جو ابھی تک مکمل طور پر تعمیر نہیں ہو سکا۔ نیز، اسکولز کی بحالی کی طرف بھی توجّہ نہیں دی گئی۔ اُس وقت کی حکومت زلزلے میں جاں بہ حق ہونے والوں کے لواحقین کو ایک، ایک لاکھ روپے اور گھر تباہ ہونے والے خاندانوں کو فی کس ایک لاکھ، 75 ہزار روپے تھما کر ایک طرف ہوگئی۔ جس کے بعد لوگوں نے اپنی مدد آپ ہی کے تحت گھر بنائے، کیوں کہ اتنی قلیل رقم میں گھر بنانا مشکل تھا۔ چلیے، گھر تو جیسے تیسے بن ہی گئے، مگر مستقبل کے معماروں کا کیا بنے گا؟ اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا۔ ایک اندازے کے مطابق، مانسہرہ میں مجموعی طور پر 1614اسکول زلزلے سے ملبے کا ڈھیر بنے، جو ابھی تک مکمل طور پر دوبارہ تعمیر نہیں ہوسکے۔ اگر کہیں تعلیمی اداروں کی اَز سِر نو تعمیر ہو بھی رہی ہے، تو کام انتہائی سُست رَوی کا شکار ہے، جس کے باعث بیش تر طلبا و طالبات اب بھی خیموں یا پھر کُھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ خیبر پختون خوا میں پچھلے پانچ سال، تعلیمی ایمرجینسی کی دعوے دار حکومت برسرِ اقتدار تھی اور اب بھی ہے، مگر افسوس درجنوں اسکولز ایسے ہیں، جن کی عمارت تو تعمیر ہونا دُور کی بات، اُن کا سروے تک نہ ہوسکا اور جہاں سروے ہوا اور فنڈز ملے، تو وہ ٹھیکے دار لے اُڑے۔ اصل میں حکومتوں کی بے حسی اور غلط پالیسیز کی وجہ سے اسکولز کی تعمیرِ نو کا منصوبہ تاخیر کا شکار ہے۔

قیامت خیز زلزلے کے بعد، اُس وقت کے صدر، پرویز مشرف نے عالمی ڈونرز کانفرنس طلب کی، جس میں پاکستان کو متاثرینِ زلزلہ کے لیے اربوں ڈالرز کی امداد ملی۔ سوال یہ ہے کہ اتنی امداد ملنے کے باوجود بھی متاثرین کی مدد کیوں نہ کی جاسکی۔ وہ اربوں ڈالرز کہاں گئے؟ پھر یہ کہ بے شمار مُلکی اور غیرمُلکی رضاکار ادارے اور کارکنان بھی دن رات مصروف رہے، اس سب کے باوجود زلزلہ زدہ لوگوں اور متاثرہ علاقوں کی صُورتِ حال کیوں نہ بدلی؟ حکومت نے زلزلے کے فوری بعد بالا کوٹ میں پختہ تعمیر پر پابندی عاید کر دی تھی اور اعلان کیا تھا کہ موجودہ شہر سے 23کلومیٹر دُور’’بکریال‘‘ کے مقام پر’’نیو بالاکوٹ سٹی‘‘ تعمیر کرکے متاثرین کو وہاں بسایا جائے گا۔ اس نئے شہر کے تعمیراتی کام کا اُس وقت کے وزیرِ اعظم، شوکت عزیز نے افتتاح بھی کیا، کام شروع ہوا لیکن 13سال گزرنے پر بھی’’نیو بالاکوٹ سٹی‘‘ تو کیا تعمیر ہوتا، اس کی طرف جانے والی سڑک تک نہ بن سکی اور اب یہ منصوبہ مکمل طور پر بند ہوچکا ہے۔ وہاں پڑی مہنگی مشینیز بھی ناکارہ ہو چکی ہیں۔ 

بتایا جاتا ہے کہ اس منصوبے پر اب تک 4 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ مانسہرہ کے ایک شہری کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان، میاں ثاقب نثار نے رواں سال 25 اپریل کو ضلع مانسہرہ اور تحصیل بالاکوٹ کا ہنگامی دورہ کیا، تو متاثرین نے اُن کے سامنے شکایات کے انبار لگا دیے۔ متاثرین نے بتایا کہ 13سال بعد بھی ان کے نقصان کا ازالہ نہیں کیا گیا، علاقے میں کاموں کے لیے’’ ایرا‘‘ کی خدمات حاصل کی گئیں، جو اچھی پلاننگ نہیں کر سکی، یہی وجہ ہے کہ آج بھی مانسہرہ کے کئی علاقوں میں اسپتال ہے اور نہ ہی کوئی ڈسپنسری۔‘‘ اس موقعے پر چیف جسٹس نے کہا کہ’’ بنیادی حقوق کی پاس داری ہماری ذمّے داری ہے، جس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔‘‘ چیف جسٹس نے’’ ایرا‘‘ حکّام سمیت کنگ عبدالله اسپتال کے ایم ایس کی بھی سرزنش کی۔ اُنہوں نے 13 سالوں سے کرائے کی عمارتوں میں چلنے والے سرکاری اسکولز کا جائزہ لینے کے بعد سرکاری افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’’ کیا اس اسکول میں آپ کے بچّے پڑھ سکتے ہیں؟‘‘نیز، اُنہوں نے بلند مقام سے شیلٹر میں مقیم متاثرین کی بستیوں کا جائزہ بھی لیا اور ایرا حکام کی سرزنش کرتے ہوئے کہا’’ کیا آپ ان شیلٹرز میں ایک دن گزار سکتے ہیں؟‘‘ وہ نیو بالاکوٹ سٹی بھی پہنچے اور متعلقہ افسران سے منصوبے میں تاخیر کی وجوہ معلوم کیں، مگر کسی کے پاس بھی کوئی معقول جواب نہیں تھا۔

اگر مظفر آباد کی بات کی جائے، تو وہ زلزلے میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک تھا۔ اس شہر میں تُرکی نے ایک عالی شان مسجد، سعودی عرب نے یونی ورسٹی اور اسپتال، متحدہ عرب امارات نے اسپتال بنایا، تو ان کے علاوہ اسکولز اور کالجز بھی یہی ممالک بنا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہماری حکومت نے کیا، کیا ہے؟ اور سیاسی جماعتوں کا کیا کردار رہا؟ حکومت کو چاہیے تھا کہ رہائش اور روزگار فراہم کرنے میں عوام کی مدد کرتی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اب بھی سیکڑوں متاثرین عارضی گھروں میں رہائش رکھے ہوئے ہیں۔ زلزلے کے دَوران زمین بوس ہونے والے تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال کی تعمیر تاحال مکمل نہیں ہو سکی، جس کے سبب ہزاروں نفوس پر مشتمل شہر کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔نیز، 20لاکھ نفوس پر مشتمل ضلعے کے لیے ساڑھے تین سو بیڈز کے’’ کنگ عبداللہ اسپتال‘‘ کی تعمیر کے لیے سعودی حکومت نے 60لاکھ ڈالرز عطیہ کیے، مگر وہ اسپتال بھی ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔ زلزلہ متاثرین کا کہنا ہے کہ’’ حکومت اور مختلف این جی اوز کی جانب سے فراہم کیے گئے شیلٹرز مکمل طور پر ناکارہ ہو چکے ہیں اور اُن کے پاس سَر چُھپانے کے لیے کچھ نہیں۔‘‘ زلزلہ متاثرین سے کیے گے وعدے آخر کب پورے ہوں گے؟ کب متاثرین کو ان کا حق ملے گا؟ کوئی ہے، جو ان سوالات کے تسلّی بخش جواب دے سکے…!!

تازہ ترین