تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ (ستائیسویں قسط) یہ دیوتاؤں کا باپ تھااس کی بیوی کانام عشیرۃ تھا ۔اور اسی سے خداؤں اور خدانیوں کی ایک پوری نسل چلی تھی جن کی تعداد70تک پہنچتی تھی عراق کا مشہور معبود ’بعل‘ بھی اسی کی اولاد تھا۔ لیکن بعض مورخین کے مطابق بیت ایلیا سے مراد بیت اللہ کیونکہ ایل بمعنی اللہ بھی عبرانی زبان میں سمجھا جاتا ہے جیسے اسماعیل اللہ کا بندہ وغیرہ بہرحال اسی بیت ایلیامیں مدتہائے درازتک یہودیوں کوداخلے کی اجازت نہ تھی …یہ تھی وہ سزا جو بنی اسرائیل کو دوسرے فساد عظیم کی پاداش میں ملی ۔بنی اسرائیل کی اس تاریخ سے ثابت ہوا کہ جس ہیکل سلیمانی یا مسجد اقصی کو حضرت داؤد اور حضرت سلیمان نے تعمیر کیا تھا وہ توبخت نصر کے ہاتھوں مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا اورہیروڈیس کے زمانے میں دوبارہ تعمیر کیاگیا۔حضرت عیسیٰ کے رفع الی السماء کے بعد 70سال تک اس کی تعمیر کردہ مسجد اقصیٰ یاہیکل کی بلڈنگ قائم رہی تاآنکہ رومیوں نے فلسطین پر چڑھائی کردی اور تقریباً 600سال بعد طیطوس نے ساراہیکل تباہ کردیا۔ صرف ایک دیوار بچی رہی تھی یہودی اس ہیروڈیس کی بنائی ہوئی دیوار کے سامنے جا کر روتے اور یہودی دور کی یادیں تازہ کرتے ہیں اس تباہی کے 540سال بعد جب رحمت للعالمین معراج کیلئے تشریف لائے تو اسی دیوار کے دروازے سے داخل ہوئے اور اسی کے ساتھ اپنی سواری کے جانور ’’براق‘‘ کو باندھا تھا۔تب سے اسے دیوار براق کہاجاتاہے۔ کسی نبی نے مندر یا سینی گاگ یا ہیکل نہیں بنایا ایک اور بات بھی قابل لحاظ ہے کہ انبیاء کرام زمین پر اللہ کے نمائندہ ہوتے تھے ۔ وہ جو عبادتگاہ بھی بناتے تھے وہ مسجد ہوا کرتی تھی جہاں خالق حقیقی کے سامنے سر بسجود ہوا جاتاتھا ۔اور اس کا نام مسجد ہی ہوتاتھا ہیکل یا مند یا سینگاگ ہر گز نہیں ہوتاتھا ۔حضرت داؤد وسلیمان سے پہلے یعقوب نبی نے یہاں مسجد تعمیر کی (جیسا کہ صحیح بخاری میں آنحضور صلی اللہ علیہ وازکی التسلیم سے پوچھا گیا کہ سب سے پہلی مسجد روئے زمین پر کونسی باقاعدہ تعمیر کی گئی تو فرمایا کعبۃ اللہ ، پوچھا گیا اس کے بعد؟ تو آقا علیہ التحیۃ و التسلیم نے جواب دیا مسجد اقصی ۔ پوچھا گیا ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ تھا فرمایا چالیس سال۔ ظاہر ہے حضرت داؤد و سلیمان نے مسجد کی جگہ کس طرح ہیکل بنا لیا یہ ناممکن ہے ۔تو اصل بھی مسجد ہی تھی ، بعدمیں بھی مسجد ہی بنائی گئی اور اسی کا نام مسجد اقصٰی ہے ، یہی مسجد دو دفعہ یہود کی بدعہدی کی وجہ سے منہدم کی گئی ، ہیکل ، مندر، گردوارہ یا سینیگاگ وغیرہ کا کوئی تصورتھا نہ رہا ہے ۔ بہرحال یہود اس دیوار کوحضرت سلیمان علیہ السلام کی تعمیر سمجھتے ہیں اسی لیے وہاں آکر اس دور ہمایوں کے چھن جانے پر روتے ہیں ۔بلکہ اسی دیوار کو اتنا مقدس جانتے ہیں جس طرح اہل ایمان حج کرنے بیت اللہ جاتے ہیں اسی طرح تقدس و تبرک کیلئے یہودی یہاں آتے ہیں ۔ اس کے قریب ہی یہودیوں کا مقدس ترین سینا گاگ ہے جس کو بنیادی پتھر کہاجاتاہے زیادہ تر یہودی ربیوں کے مطابق اس پتھر کے اوپر کوئی یہودی پیر نہیں رکھ سکتا اگر کوئی ایساکرے تو اس پر عذاب نازل ہوجاتا ہے ۔ بہت سے یہودیوں کے مطابق وہ تاریخی چٹان جس پر قبۃ الصخراء واقع ہے مقدس بنیادی پتھر وہی ہے جبکہ کچھ یہودیوں کے عقیدے کے مطابق یہ مقدس بنیادی پتھر دیوار گریہ کے بالکل مخالف سمت میں واقع ’’الکاس آبشار ‘‘کے نزدیک ہے ۔ یہودی لوگ یہاں اپنی معافی کی درخواستیں ٹانکتے ہیں ۔اور سمجھتے ہیں کہ اللہ میاں ان کی یہاں رکھی ہوئی درخواستیں خودملاحظہ کرتاہے اور انہیں قبول فرماتا ہےگزشتہ سال امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیاکہ اب امریکی سفارتخانہ تل ابیب کی بجائے یروشلم میں منتقل کیا جائے گا کیونکہ اس کی بیٹی ایک یہودی کے ساتھ بیاہی ہوئی ہے اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ٹرمپ نے اتنا بڑا قدم اٹھایا جس کے نتیجے میں کئی جانیں ضائع ہوئیں پوری دنیا میں احتجاج ہوا لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔یہ خود بھی جب دیوار گریہ کے وزٹ کیلئے گیا تو اس نے بھی وہاں اپنی معروضات قبولیت کیلئے ایک پیپر پر لکھ کر اس دیوار پر اٹکا دیا تھا اس دیوار پر جگہ جگہ عرضیاں لٹکی ہوئی پائی جاتی ہیں ۔نیز یہود یہاں آکرروتے بھی ہیں اور ہل ہل کر کچھ دعائیں پڑھتے ہیں آئیے آپ کو دیوار براق کی سیر کراتے ہیں تاریخ کے اس سنگین تذکرے کے بعد اب آئیے کچھ یادیں پیارے آقا علیہ التحیۃ والتسلیم کے قدوم میمنت نواز کے حوالے سے بھی ہوجائیں ۔اور اس مہک سے مشام جان معطر کرلیں ، بادصبا کے جھونکوں سے اپنی روح کو بھی سرشار کرلیں یروشلم…سرزمین اسلام…کے مقدس علاقہ میں جہاں سوا ڈیڑھ لاکھ انبیاء کرام کی ولادت ہوئی ، جس کے ایک ایک چپے سے تاریخ کو لاکھوں ہیرے جواہرات ہاتھ آئے ، مگر بے قدرے لوگوں نے ان کی اہانت میں کوئی دقیقہ نہیں بھلایا جہاں انبیاء و صلحا کی سانسیں مہکتی رہیں جہاں کے گوشے آل عمران کی پاکباز بچی مریم کی عبادت و اخلاص سے منور ہوتے رہے جہاں اللہ کے خاص بندے زکریا نے آہ صبحگاہی سے تقدیر کے آسمان کو ہلا کر رکھ دیا اور جہاں میرے حبیب سید الملائکہ حضرت جبرائیل کی معیت میں براق پر قدم رنجا فرما ہوئے اسی جگہ سے آپ کا معراج جسمانی شروع ہوا تھا …یہ وہ علاقہ ہے جہاں میں اپنے چند رفقاء کے ساتھ جسم و جان کو حاضر کرکے بیٹھا ہوں اسے مسجد براق کہتے ہیں ۔اس دیوار گریہ کے پیچھے والا حصہ دیوار براق کہلاتاہے جیسا کہ عرض کیا گیا۔ گہرائی میں جاکرچھوٹی سی علامتی مسجد بنی ہوئی ہے جہاں نماز با جماعت نہیں ہوتی اور دیوار کے درمیان علامت کے طور پر ایک کڑا لگایاہوا ہے، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ براق کو باندھا تھا ۔ میں نے وہاں موجود چند فلسطینی بھائیوں سے اس کی تاریخ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ یہ بنو امیہ کے دور میں اس کڑے کو بطور علامت لگایاگیاحتمی طور پرنشاندھی مشکل ہے کہ کس جگہ رسول اللہ ﷺ نے براق کو باندھا تھا بہرحال یہی وہ جگہ ہے جو سینہ بہ سینہ چلی آتی ہے ۔لوگ وہاں جاتے ہیں دو رکعت نفل ادا کرتے ہیں ۔ اور بطور تبرک اس کڑے کو ہاتھ لگاتے ہیں حالانکہ وہ دور نبوی میں نہ تھا ۔ہم نے وہاں کچھ دیر گزاری اور ان نورانی لمحات سے مشام جان معطر کرتے رہے کہ اس مبارک جگہ ہمارے آقا و مولی نے قدم مبارک رکھے تھے اوراسی علاقے سے آپ کو آسمانوں کی سیر کیلئے لیجایا گیا تھا یوں آپ امام الانبیاء والمرسلین بھی بنے ، اور امام القبلتین کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے تھے۔اس طرح حق تعالیٰ نے تقریباً2621سال کے بعد یہاں بننے والی ’’مسجداقصیٰ‘‘ اہل مسجد یعنی امت مسلمہ کو ہمیشہ کیلئے عطا فرما دی ۔ خوشا شہرے کہ آنجا دلبر است اور اس قوم کو جو یہاں ستر سال سے ناجائز قابض ہو رہی ہے اور جس نے ہمیشہ قتل و غارت کا معرکہ گرم رکھا اور آج بھی اسی کا فساد ہر سو پھیلا ہواہے ۔ جس نے رحمۃ للعالمین کی پیروی کے اعزاز کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ، حالانکہ امت اسلام ، رحم و محبت کی علمبردار ، اور امن وسلامتی کی پیامبرجماعت ہے…اس خیر امۃ…کو کعبۃ اللہ سے چالیس سال بعد تعمیر ہونے والی دنیا کی دوسری بڑی مسجد ’’مسجد اقصیٰ‘‘ کی سرزمین کی وراثت بھی عطا فرمادی گئی ہے۔ محمد کریم علیہ الصلوٰۃ وازکیٰ التسلیم کی بعثت و رحمت ،نزول قرآن کا واقعہ ، امت محمدیہ کی تشکیل و تنصیب، خاتم النبین صلی اللہ علیہ وازکیٰ التسلیم کی رافت و شفقت سے معمور جماعت کی تشکیل دنیائے انسانیت کیلئے ایک بہت بڑا انقلاب تھا ۔ ایسے انقلاب جو صدیوں میں ماہ و سال کی گردش کے بعدنمو دار ہوتے ہیں ۔ ہندوستان کے شیخ الاسلام ابن تیمیہ، امام الہند مولاناابوالکلام آزاد نور اللہ مرقدہ کے بقول یہی وہ موقع تھا جب ایک رات کوہزار راتوں سے بہتر قرار دیاگیا تھا کیونکہ ایسے فیصلے چند سالوں میں نہیں صدیوں میں ہوپاتے ہیں ۔ {لیلۃ القدر خیر من الف شھر} معراج النبی ، مسجد براق ،دیوار براق ، اور اس سے متصل مسجد قبلی ( مسجد اقصی)کے جوار میں بیٹھے ہوئے مجھے جب یہ مناسبت نظر آئی اور امام الہند کی یہ تفسیر سمجھ میں آئی تو روح کی گہرائیوں میں لذت وحلاوت کی وہ لہردوڑ گئی جس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے پاس بیٹھے ہوئے امام مسجد اقصی ٰ سے اپنی ان دلی کیفیات کو بیان کیا تو انہوں نے کہا’’دراصل یہ چیز دیکھنے کی نہیں محسوس کرنے کی ہوتی ہے ، نظر بازی سے نہیں اندازی سے ملتی ہے چھو کر نہیں احساسات سے محسوس کی جاسکتی ہے، یہ کیفیات ظاہر نہیں ہوتیں وارد ہوتی ہیں۔