علم نجوم میں دائرۃ البروج کے 180سے210درجات پر مشمل حصہ برج میزان (Libra) کہلاتا ہے۔ فطری ترتیب کے لحاظ سے یہ ساتواں برج ہے۔ شمس تقریباً 23ستمبر سے 22اکتوبر تک اس برج میں گردش کرتا ہے۔ اس برج کا حاکم سیارہ زہرہ ہے، اس کی ماہیت (Nature) منقلب ہے، اس کا نشان یا علامت ترازو ہے جبکہ عنصر بادی(ہوا)ہے۔ اس برج کے لیے خوش بختی کے اعداد 6اور 9 ہیں، خوش بختی کا دن جمعہ ، خوش نصیبی کی دھات کانسی، تانبہ اور پلاٹینیم، خوش بختی کا پھول چنبیلی جبکہ خوش بختی کا نگینہ الماس، زمرد، سنگِ دودھیا(سنگ یشب) اوپل اور موتی ہیں۔
برج میزان کے حامل افراد کی شخصیت اپنے اندر ایک خاص کشش رکھتی ہے ۔ان افراد کو دیکھ کر پہلی نظر میں محبت نہیں ہوتی مگر جیسے جیسے ان سے ملتے جائیں ان کی شخصیت کی کشش اور خوبیاں انسان کو ان کا دیوانہ بنادیتی ہیں ۔اس برج کے حامل افراد چاہنے اور چاہے جانے کے ہنر سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں شوبز کی چند معروف میزان شخصیات پر، جن کی ایک دنیا دیوانی ہے۔
خوبصورتی، دلکشی اور توازن کا دوسرا نام ریکھا ہے۔ زندگی میں متعدد تنازعات میں گھرے رہنے کے باوجود ریکھا نے ان معاملات کو کبھی اپنی زندگی کے آڑے نہیں آنے دیا اور اپنی زندگی کے ہر لمحے سے بہترین انداز سے لطف اندوز ہوئیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 64سال کی عمر میں وہ آج بھی اتنی ہی حسین ہیں، جتنی وہ ’امراؤ جان‘(1980ء)میں نظر آئی تھیں۔
اگر11اکتوبر بالی ووڈ کے معروف اداکار امیتابھ بچن کا یومِ پیدائش ہے تو 10اکتوبر 1954)ء)کو معروف اداکارہ ریکھا پیدا ہوئی تھیں۔ وہ ایک تامل گھرانے میں، بھارتی ریاست مدراس میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد اور والدہ، دونوں بالترتیب معروف تامل اور تیلگو اداکار اور اداکارہ تھے۔ ریکھا کی 7بہنیں اور 1بھائی ہے۔
ریکھا، جن کا پورا نام ’بھانوریکھا‘ ہے، نے 1966ء میں تیلگو فلم ’رنگولا رتنم‘ میں بطور چائلڈ آرٹسٹ کام کیا۔ ایک اور تیلگو اور پھر کناڈا فلم میں کام کرنے کے بعد انھوں نے ممبئی کا رُخ کیا۔ کٹھن محنت کے بعد انھیں 1970ء میں ’ساون بھادوں‘میں کام کرنے کا موقع ملا، تاہم اپنی گہری رنگت اور اضافی وزن کے باعث انھیں بالی ووڈ میں سند قبولیت نہ مل سکی۔ پہلی ناکامی کے بعدریکھا نے معاملات کو سنجیدگی سے لینے کا فیصلہ کیا۔ یوگا کے ذریعے اضافی وزن سے چھٹکارا پایا، ڈانس میں مہارت حاصل کی، ہندی زبان پر عبور حاصل کیا اور ایک بہترین شخصیت کے ساتھ ’ناگن‘ (1976ء)، ’مقدر کا سکندر‘ (1978ء)، مسٹر نٹورلال (1979ء)، ’خوبصورت‘ ((1980ء اور ’امراؤ جان‘ (1981ء) جیسی لگاتار کامیاب اور بہترین فلموں میں اداکاری کے جوہر دِکھا کر خود کو منوالیا۔ریکھا نے بہترین اداکارہ کا ایک نیشنل ایوارڈ (امراؤ جان)، بہترین اداکارہ کے دو فلم فیئر(خوبصورت، خون بھری مانگ) اور ایک بہترین معاون اداکارہ کا فلم فیئر(کھلاڑیوں کا کھلاڑی)ایوارڈ حاصل کیا ہے۔
بالی ووڈ کے لیجنڈ سپراسٹار امیتابھ بچن 75برس کے ہوچکے ہیں اور 11اکتوبر کواپنی 76ویں سالگرہ منائیں گے۔ وہ 11اکتوبر 1942ء کو الہ آباد، بھارت میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ہری ونش رائے بچن ، ہندی کے معروف شاعر رہے ہیں۔ جس عہد میں امیتابھ بچن پیدا ہوئےتھے، اس وقت متحدہ ہندوستان میں ہر طرف آزادی کے لیے ’انقلاب زندہ باد‘ کے نعرے گونج رہے تھے۔ان ہی نعروں کی مناسبت سے پیدائش کے وقت ہری ونش رائے بچن نے اپنے بیٹے کا نام ’انقلاب‘ رکھا، تاہم کچھ عرصے بعد اپنے ساتھی شاعر سومیترآنندن پنت کے مشورے پر انھوں نے اپنے بیٹے کا نام تبدیل کرکے’امیتابھ‘ رکھ دیا، جس کے معنے ہیں، ’روشنی جو کبھی مدھم نہ ہو‘۔
امیتابھ فلموں میں آنے سے پہلے کولکتہ کی ایک شپنگ فرم’ 'بررڈ اینڈ کمپنی‘ میں بطور’ فریٹ بروکر‘ کام کرتے تھے۔ انہی دنوں امیتابھ نے آل انڈیا ریڈیو میں خبریں پڑھنے کے لیے درخواست دی تھی تاہم انہیں آڈیشن میں یہ کہہ کر فیل کردیا گیا کہ ان کی آواز اس کام کے لائق نہیں ہے۔ امیتابھ نے اس 'ناکامی 'کو بہت سنجیدگی سے لیا اور دن رات محنت کرکے اسی آواز سے ایسا جادو جگایا کہ لوگ آج بھی ان کی آواز کے دیوانے ہیں ۔ آنے والے سالوں میں انہوں نے ریڈیو سے نہ صرف متعدد پروگرام پیش کئے بلکہ ریڈیو کے لئے گانے بھی گائے۔امیتابھ بچن بالی ووڈ کے ایک اہم اداکار ہی نہیں بلکہ ایک غیر معمولی شخصیت بھی ہیں۔ 1969ء میں خواجہ احمد عباس کی ’سات ہندوستانی‘ سے فلمی زندگی کی شروعات کر کے امیتابھ اپنے طویل فلمی کیریر میں کئی د نشیب و فراز سے دو چار ہوئے لیکن ہر بار وہ اپنے عزم کی بدولت صورتحال کو نہ صرف معمول پر لانے میں کامیاب رہے بلکہ مزید بلندیوں پر پہنچے ۔ 60کی دہائی میں جب امیتابھ فلم انڈسٹری میں آئے تھے تو وہ اس وقت کے ہیروکی شبیہ میں فٹ نہیں بیٹھتے تھے۔ ایک پتلا دبلا، بے حد لمبا اور گندمی رنگت کا بڑی بڑی آنکھوں والا لڑکا، فلمی پردے پر نمودار ہونے والے راجیش کھنہ جیسے سپر اسٹار کے ہوتے ہوئے کس طرح مقبول ہو پاتا؟ لیکن آگے چل کر ان کی کمزوریاں ہی ان کی خوبیاں ثابت ہوئیں۔
70کے عشرے میں ’زنجیر‘، ’دیوار‘ اور ’شعلے‘جیسی فلموں میں اپنے کرداروں اور شخصیت کے باعث انھیں ’اینگری ینگ مین‘ کا خطاب ملا، جبکہ انھیں بالی ووڈ کا شہنشاہ اور بِگ بی بھی کہا جاتا ہے۔کیریئر کے عروج پر 1984ء میں انھوں نے فلمی دنیاکو خیرباد کہہ کر سیاست کی دنیا میں قدم رکھا ، تاہم سیاست انھیں راس نہ آئی اور تین سال بعد ہی وہ فلموں میں واپس لوٹ آئے۔ امیتابھ بچن اعلیٰ پایہ کے ایک ایسے اداکار ہیں، جومسلسل تبدیل ہوتے منظر میں خود کو نئے دورمیں ڈھالتے گئے اور اپنی اس جدوجہد میں وہ نہ کبھی تھکے اور نہ کبھی ہارے، تبھی تو انھیں ’صدی کا عظیم ستارہ‘ کے لقب سے نوازا گیا ہے۔