ڈاکٹرمحمّد شیراز دستی،اسلام آباد
اسٹاک ہوم، سبز جزیروں اور اُن کے عاشق پانیوں کا شہر ہے۔ آبادیاں، پانیوں سے اور پانی، آبادیوں سے وفا کرتے کرتے حُسنِ تعلق کا استعارہ بن چُکے ہیں۔ پانی اس قدر وافر ہے کہ اسے’’ شمال کا وینس‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ شہر، آبی اور زمینی مکانوں کے عجب سنگم پر واقع ہے۔ ایک ایسا مقام ہے، جہاں مٹّی کی ساری طاقت پانی کے ہونے سے ہے۔ پانی، مٹّی کا پالن ہار ہے۔ اُسے اپنا رزق سمجھ کر کھا جانے کی بجائے، اُس کے ماتھے پہ سبز درختوں سے بنی مالائیں سجا کر پتا نہیں کس دوشیزہ سے کیا وعدہ نبھاتا پِھرتا ہے۔ اور اس کی ہوا میں غیر ضروری نمی گھول کر یہاں کے انسانوں کو پسینوں میں شرابور کرنے کی بجائے، ہوا کو پاک و معطّر رکھ کر معلوم نہیں کس زمانے کا قرض اُتار رہا ہے۔
اسی پانی کی سخاوت کو داد دینے کی خاطر ہم نے کشتی لی اور بحیرۂ بالٹک میں اُتر گئے۔ سمندر محوِ رقص تھا۔ بڑھتے، گھٹتے دائرے اس مہارت سے سمندری’’ اتنڑ‘‘ پیش کر رہے تھے کہ کشتی لہلہا، لہلہا جاتی۔ پانیوں کے سینے پہ کشتی کا توازن دیکھ کے یوں لگا، جیسے یہ پانی تَھر کی کوئی الہڑ دوشیزہ ہو، جو اپنی پیاس بھول کر دُور اِک بستی میں بستے گبھرو کی یاد میں گھڑا سَر پہ جمائے، لوک رقص کر رہی ہو اور گھڑے سے پانی کی ایک بوند بھی نہ چھلکنے دیتی ہو۔ اسٹاک ہوم کا شفّاف پانی ہماری کشتی کو گدگداتا، تو وہ مچل مچل جاتی اور اُس کے ماتھے پہ وہ نکھار آتا کہ خنک ہوا اُسے دیکھنے کو بادلوں سے نیچے اُتر آتی۔’’یہ پانی تمہارے لیے کیا ہے؟‘‘ ہم نے اُس سے پوچھا۔’’رزق گاہ، صحت آور رہ نُما، آرام سرا! سب سے بڑھ کر تعلق پرور۔‘‘( اس آخری ترکیب کو اُس نے اِس ڈھنگ سے ادا کیا کہ ہمارا یقین سامنے والے جزیرے کی بلند فصیل کے پیچھے کسی کے ہونے کی پکار بن کے چار سُو گونجنے لگا)۔ہماری رفتار مستقل ہوئی،تو لگا کہ کشتی کوئی آلۂ ساز ہے، جو سطح ِآب سے ٹکرا کر آہنگ کا وہ جادو جگاتی ہے، جو اَن ہونی کو ہونی، فانی کو بقا عطا کرتی ہے۔ محدود کو لا متناہی بنا دیتی ہے۔ اسٹاک ہوم، سحر کدہ ہے۔
یہاں کے پانی، کشتیاں، یہاں کے پرندے اور انسان، زندگی، دوستی کی اس منزل پر ہیں، جہاں اُن کے لیے کچھ بھی کر ڈالنا ممکن ہے۔ جیسے مجھ ایسے شخص کو اپنی جادوئی صلاحیتوں کا یقین دلا دینا۔ سمندر کے بیچ تیرتے ایک پانی نے ہاتھ ہلا کر سلام کیا، تو ہم نے اُسے کشتی کے پاس بلا لیا۔’’پانی میاں! پانیوں میں تیر، تیر کے اکتاہٹ نہیں ہوتی؟‘‘’’نہیں تو۔ انسانوں کو انسانوں میں بیٹھ بیٹھ کر اکتاہٹ ہوتی ہے کیا؟‘‘’’نہیں تو‘‘۔ ہم نے انسانیت کا بھرم رکھنے کے لیے جھوٹ بولا۔’’ کبھی کسی گلی میں گھس جانے کو مَن کرتا ہے؟’’ ہم اُس کی نفسیات سمجھنا چاہتے تھے۔’’نہیں تو‘‘۔’’تھکتے ہو، تو کیا کرتے ہو؟‘‘’’نیچے جا کر سمندر کی تہہ میں بچھی مخمل پہ لیٹ جاتا ہوں۔‘‘ بہرکیف، ہم نے اُسے الوداع کہا اور کشتی سے التجا کی کہ واپس انسانوں کی بستی چلو۔
کشتی نے پانیوں سے منہ موڑ کر رُخ آبادی کی طرف کیا، تو سامنے خواب بستی تھی۔ اسٹاک ہوم کا پرانا شہر۔ ہم متجسّس تھے،وہ مہربان۔’’وہاں کیا ہے؟‘‘ اپنے ہم سفر سے پوچھا۔’’گلیاں، گلیوں میں گھر، گھروں میں تعبیرگاہیں‘‘’’تو اسٹاک ہوم کے گھروں میں خواب گاہوں کی جگہ تعبیر گاہیں ہوتی ہیں؟‘‘۔’’یہاں خواب جب بھی آتے ہیں، اپنی تعبیر کا تاج سر پہ سجائے آتے ہیں۔‘‘ اُس نے ذرا شاعرانہ سا جواب دیا۔’’ آؤ! وہاں چلتے ہیں۔‘‘ ہم نے فیصلہ کُن انداز میں کہا۔ اسٹاک ہوم کے چودہ جزیروں سے لپٹے ان پانیوں سے اپنی سانسیں تر کرنے کے بعد، اُن گلیوں میں نکل آئے، جو اپنی آغوش میں قدیم قدموں کے لاکھوں نشان لیے اپنی دیواروں پہ بیٹھی دھوپ سے ہماری چہل قدمی کی عکس بندی کا معاہدہ کر رہی تھیں۔ اُنہی گلیوں میں ہمارے قدموں نے الفریڈنوبل کے قدموں کے برسوں پرانے نشانوں سے معانقہ کیا۔ مگر نہ جانے کیوں، ہماری خوشی نے اُس انتہا کو نہ چُھوا، جس کا یہ مقام متقاضی تھا۔’’ کیا ہی اچھا ہوتا، اگر یہ مقام آج اقباؔل اور ایدھی کے نقش ہائے پا سے بھی مزیّن ہوتا !‘‘ہم نے اُس سے کہا۔’’ ہُوں…!‘‘ اُس نے بلا کچھ سمجھے، جواب دیا۔ تاہم، فقیرِ بشریات کا سِتم ہائے سیاسیات سے کیا علاقہ؟ ہمارا کام تو کُوچے ناپنا تھا، گلیاں دیکھنا تھا، جن میں کُھلتی کھڑکیوں سے جھانک کر خوش بوئیں ہمیں خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔ خوش نُما رنگوں میں ملبوس دیواریں، اپنی بانہوں میں رنگا رنگ پھولوں کی ٹوکریاں لیے کھڑی تھیں۔
کہیں بنگالی بابا کا ای میل ایڈریس لکھا تھا، نہ کہیں مسز مُسکان میرج بیورو کا اشتہار دیکھا۔ نہ’’ جیب کتروں سے ہوشیار رہیے‘‘ پڑھا۔یہاں کے لوگ اس قدر فکر شناس ہیں کہ پریشانی ابھی آپ کے چہرے پہ آتی بھی نہیں کہ وہ آگے بڑھ کر مدد کی پیش کش کر دیتے ہیں۔ بھٹکے ہوؤں کو راستا بتانے کا یہاں ہر کسی کو شوق ہے۔ اپنے قیام کے دَوران کم وبیش پندرہ لوگوں سے راستا پوچھا۔ کسی ایک کو بھی ہمارے مطلوبہ مقام کا علم نہ تھا، مگر گوگل نقشہ نکال کے رہنمائی کرنے کی کوشش ہر ایک نے کی۔ چوں کہ اُن میں سے ایک کو نقشے کا خیال نہیں آیا، اس لیے وہ پہلے تو ہمیں ایک طرف لے گیا، پھر اُس کی مخالف سمت میں لے جا کے واپس اُسی جگہ لے آیا، جہاں سے ہم نے آغاز کیا تھا۔ پھر مدد نہ کرسکنے پر اِتنی معذرتیں کیں کہ ہمیں شرمندگی ہونے لگی۔’’ شہرِ مہربانی‘‘ کے ان بھلے لوگوں کی ہم ایسے اکیلوں سے تعلق بندی کی یہ کاوشیں شہر کی مجموعی نفسیات کی عکّاس ہیں۔ اس شہر کے مختلف علاقوں نےربط ِ باہم کی خاطر اپنے بیچ ستاون پُل باندھے، سیکڑوں آبی راستے متعیّن کیے اور ملنے جلنے کے ہزاروں بہانے تراش کر چوراہوں میں یادگاروں کی صُورت سجا دیے۔ اب یہ محبّت شناس جزیرے، ہر روز ایک دوسرے کو سیکڑوں قاصدین بھیج کر ایک دوسرے کے گلی کُوچوں کی خیریت دریافت کرتے ہیں۔
سویڈن کی ثقافت میں انسانی رویّوں کے تنوّع کی قدر ہے۔ یہاں منفرد الرائے ہونا آپ کی شناخت ہے۔ صاحب الرائے ہونا شخصیت کی خُوبی ہے، تو اظہارِ رائے کرنا بنیادی انسانی حق۔ یہاں دوسروں کے لیے برداشت اس قدر زیادہ ہے کہ اس مُلک کی ثقافت کو باقاعدہ طور پر’’مؤنث ثقافت"(Feminine Culture) گردانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سویڈن کئی سو سالوں سے کسی جنگ کا براہِ راست حصّہ نہیں رہا۔ یہاں فتح کا جشن اور شکست کا سوگ خاموش رہ کر، فکر کر کے منایا جاتا ہے۔ سویڈن کی فٹ بال ٹیم نے ایک اہم میچ میں میکسیکو کی ٹیم کو تین، صفر سے ہرایا، تو ہزاروں لوگ اس تاریخی فتح کا جشن منانے باہر نکلے۔ لیکن کمال یہ تھا کہ ایک بھی سڑک بند نہیں ہوئی۔ سیکڑوں نے جشن یوں منایا کہ پیلی قمیص پہن کر گلیوں میں سائیکل چلانا شروع کردی۔ باقی ریستورانوں میں جا بیٹھے۔ اُس دن اسٹاک ہوم کے ریستورانوں میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو، جس نے پیلی شرٹ نہ پہنی ہوئی ہو۔ جشن منانے کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کوئی شخص اُٹھ کر نعرہ لگاتا اور باقی ہوا میں ہاتھ لہرا کر اُس کا جواب دیتے۔ ہم نے صرف ایک شخص ایسا دیکھا، جو ایک ہاتھ گاڑی کی چھت سے باہر نکال کر مکّا دِکھا رہا تھا اور دوسرا ہاتھ مسلسل ہارن پر رکھ کر لوگوں کو دعوتِ حیرانی دے رہا تھا۔ گلوبلائزیشن کے تحفے سویڈن تک بھی پہنچ رہے تھے!!
یہ باتیں سوچتے سوچتے ہمیں خیال آیا کہ یہاں کشتیوں، بسز، ریل گاڑیوں میں سفر کیا، گلیوں اور بازاروں میں گھوما، لوگوں سے ملا، پانیوں تک سے حال احوال پوچھ لیا، مگر موجودہ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والی مخلوق’’ خوف‘‘ سے تو آمنا سامنا ہوا ہی نہیں۔ منڈلاتی جنگوں کا خوف، پھیلتی بیماریوں کا خوف، ناچتی مفلسی کا خوف، ہجوم کا خوف، پانی کا خوف، بلندی کا خوف، دہشت گردی کا خوف، دھوکے فریب کا خوف۔ آخر یہ خوف کہاں چُھپے ہوئے ہیں؟ یہاں کے پرندے تک انسانوں سے نہیں ڈرتے۔ کسی کی بھی کشتی میں بیٹھ جاتے ہیں۔گلی کُوچوں میں ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ ’’یہاں خوف کیوں نہیں ہے؟‘‘ ہم نے مہربان بگلے سے پوچھا۔ ’’کیوں کہ ہماری ہوائیں بارود سے پاک ہیں اور ہمارے گھر بھوک سے۔ ہمارا ہم سفر بگلا خوف کی وجوہ جانتا تھا۔’’ جانتے ہو ہم کہاں سے آئے ہیں؟‘‘’’اوں، ہوں۔‘‘ اُس نے نفی میں جواب دیا۔’’پاکستان سے !‘‘ ہم نے خوف کو اس کی آنکھوں کے عین سامنے لا کھڑا کیا۔ہم ساکت تھے، وہ محو ِ پرواز۔ کاش!وہ کچھ دیر ٹھہر جاتا، تو ہم اُسے بتاتے کہ کیسے ہم بھی برداشت کی نئی داستانیں رقم کر رہے ہیں۔ دوسروں کی جنگوں کے انگاروں میں جُھلس کر، ایک ایک دن میں تین، تین سو بچّوں کی لاشیں اٹھا کر، بھوک اور افلاس سے سمجھوتا کر کے ہم اس قدر سخت خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، ایسا مثالی صبر اپنائے ہوئے ہیں کہ ہمارے بگلے، ہمارے بے چین پانیوں کو ہماری مثالیں دیتے ہیں۔