اسلام آباد(نمائندہ جنگ/نیوز ایجنسی)چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے تھرمیں غذائی قلت سے بچوں کی ہلاکت کے معاملے پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تھر میںسندھ حکومت کی کارکردگی صفر ہے، میں خود تھر چلا جائوں گا، وہاں لوگوں کو مرنے نہیں دوں گا۔غذائی قلت کا ایشو اتنے عرصے سے چل رہا ہے اسے حل کیوں نہیں کیا جا رہا ، رپورٹ نہیں حل چاہیے،وہاں جو گندم بھیجی گئی اس میں سے بھی ریت نکلی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گھر پانی اور خوراک دینا کی ذمہ داری ہے۔ عدالت نے سیکرٹری صحت کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے خوراک اور پانی کے ٹرک ہنگامی بنیادوں پر بھجوانے کی ہدایت کی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ان علاقوں میں اسپتال ہیں ڈاکٹرز نہیں، مشینیں ہیں آپریٹرز نہیں،جو ڈاکٹر وہاں جاتا ہے سمجھتا ہے اسے سزا ملی ہے وہ مریضوں کو سزا دیتا ہے۔بعدازاںعدالت نے ایڈووکیٹ جنرل، صحت، خزانہ، ورکس، خوراک، آبادی اور تعلیم کے سیکرٹریز کو آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔ منگل کو تھرمیں غذائی قلت سے بچوں کی ہلاکت کے معاملے پرازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے کہا کہ اتنے عرصے سے یہ ایشو چل رہا ہے اسے حل کیوں نہیں کیا جا رہا۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ اس حوالے سے رپورٹ دی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ نہیں حل چاہیے، آپ نے وہاں جو گندم بھجوائی اس میں بھی ریت نکلی، میں خود تھر چلا جائوں گا، بتائیں کس دن آئوں، میں اپنے لوگوں کو مرنے نہیں دوں گا،خشک سالی کے حوالے سے کیا پالیسی بنائی گئی ہے،صوبے کی ذمہ داری ہے کہ ان لوگوں کو دیکھے۔ لوگ کہتے رہیں کہ حدود سے تجاوز کر رہا ہوں، اپنے لوگوں کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا، تھر کا اصل مسئلہ کوئی بیان نہیں کرتا، کوئی غذائی قلت سے مر رہا ہے کوئی ناقص علاج معالجے سے۔ حکومتی رپورٹ کے مطابق تو سب اچھا ہے لیکن سندھ حکومت کی کارکردگی زیرو ہے۔ عدالت نے کمرہ عدالت میں موجود ایم این اے رمیش کمار کو تھر کے حالات بتانے کیلئے روسٹرم پر طلب کر لیا۔ رمیش کمار نے عدالت کو بتایا کہ تھر میں بہت زیادہ کرپشن ہے، کوئلے کی وجہ سے زمینوں پہ قبضے ہو رہے ہیں، فیملی پلاننگ نہیں ہو رہی، جو خوراک مستحقین کیلئے آتی ہے اس میں ایم این اے اور ایم پی اے کا نام بھی ہوتا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ تھر کے علاقے میں منشیات فروشوں کا راج ہے، اربوں روپے لگانے اور افتتاح کے باوجود تھر کول پلانٹ بند ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ چیف سیکرٹری پالیسی بنا کر لائیں کہ مسائل کا حل کیسے نکل سکتا ہے۔ سیکرٹری ہیلتھ سندھ نے تھر میں ہلاک ہونے والے بچوں کی رپورٹ دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ اس سال تھر میں کل 486 بچے جاں بحق ہوئے،ایک سے29 دن کے 317 بچے جاں بحق ہوئے، ایک سال کی عمر کے 94 جبکہ ایک سال سے زائد عمر کے75؍ بچے جاں بحق ہوئے۔انہوں نے ہلاکتوں کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ مائوں کی صحت ٹھیک نہیں اور بچوں میں وقفہ نہیں،لیڈی ہیلتھ ورکرز صرف بیالیس فیصد علاقے کو کور کرتی ہیں، اب این جی اوز کو شامل کر کے پلان بنا رہے ہیں کہ پوری علاقے میں مائوں کو سہولیات دیں۔چیف جسٹس نے استفسارکہ اٹارنی جنرل بتائیں کہ عدالت اس حوالے سے کیا اقدامات لے سکتی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان علاقوں میں اسپتال ہیں ڈاکٹرز نہیں، مشینیں ہیں آپریٹرز نہیں،جو ڈاکٹر وہاں جاتا ہے سمجھتا ہے اسے سزا ملی ہے وہ مریضوں کو سزا دیتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کسی نے جنگی حالات کے اقدامات کیے؟، سب کچھ کاغذات پر ہے جس کے بعد عدالت نے سیکرٹری ہیلتھ سندھ کی رپورٹ مسترد کر دی۔چیف جسٹس نے آخر میں ریمارکس دیئے کہ چیف منسٹر اور سیکریٹری صحت بتائیں کہ لوگ کیوں مر رہے ہیں؟۔