• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست، حالات اور حکمرانوں کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں اور تاریخ کے اپنے۔ ان گنت مثالیں شاہد ہیں کہ اکثر تاریخ کے فیصلے حالات، سیاست اور حکمرانوں کے فیصلوں کے برعکس ہوتے ہیں۔ مرشدی علامہ اقبالؒ کو عملی سیاست کا شوق چرایا تو انتخابی مہم میں سرگرم ہوگئے۔ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے لیکن کوئی بڑا کام نہ کرسکے ۔ یاروں نے کہا اقبال کامیاب سیاستدان نہیں۔ چلئےمان لیتے ہیں کیونکہ اس وقت کے حالات کا یہی فیصلہ تھا۔ پھر کامیابی کا معیار بھی اپنا اپنا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کے ساتھ اسمبلی اور اقتدار میں بہت سے اراکین موجود تھے۔ کیا آپ ماضی کی سیاست میں خلیفہ عبدالحکیم، سکندر حیات، ملک برکت علی وغیرہ کے علاوہ کوئی اور اہم نام بتا سکتے ہیں؟لیکن اقبال تاریخ کے صفحات میں ایسے سورج کی مانند طلوع ہوا جس کی روشنی میں ہر دن اضافہ ہورہا ہے۔ عملی سیاست کےذریعے اقبالؒ قوم کی کوئی بڑی خدمت نہ کرسکا لیکن اپنی فکر اور شاعری کے ذریعے نہ صرف قوم کو بیدار، باشعور اور متحرک کرگیا بلکہ قائداعظمؒ جیسے عظیم لیڈر کو بھی ذہنی طور پر متاثر کر کے آزادی اور مطالبہ پاکستان کی راہ پر ڈال گیا۔ یقین ڈانواں ڈول ہو تو اقبال کے خطوط بنام جناح کا بغور مطالعہ کیجئے۔ جو لوگ تحریک پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے اسے محض تمدنی، آئینی اور سیاسی محرکات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور بالواسطہ طور پر مذہبی فیکٹر کا انکار کرتے ہیں ان کےلئے ان خطوط کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ اقبال کا یہ کہنا کہ وقت آگیا ہے آپ ایک آزاد ملک کا مطالبہ کریں اور یہ کہ مسلمان عوام کے معاشی مسائل کا حل نفاذ شریعت میں مضمر ہے لیکن اس کے لئے ایک خطہ زمین کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی مذہبی بنیاد کا ذکر تھا جس کا قائداعظم خاص طور پر آخری آٹھ دس برسوں میں بار بار ذکر کرتے رہے۔ یار لوگ ایک عجیب و غریب نقطہ اٹھاتے ہیں۔ وہ یہ کہ قرارداد لاہور میں مذہب کا کہیں ذکر نہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب قائداعظم نے اپنی تقریر میں زور دے کر کہا کہ ہمارا رہن سہن، تمدن، انداز فکر، مذہبی فلاسفی، معاشرتی رسوم اور لٹریچر ہندوئوں سے بالکل مختلف ہے۔ ہم آپس میں شادیاں کرتے ہیں نہ مل کر کھا پی سکتے ہیں، ہماری تہذیب اور تاریخ ایک دوسرے سے اسقدر مختلف ہے کہ ان کے ہیرو ہمارے دشمن اور ہمارے ہیرو ان کے دشمن ہیں۔ تو ان الفاظ کی بنیاد کیا تھی؟ بنیاد فقط مذہب تھی۔ مسلمان ہندوئوں سے اس قدر مختلف بلکہ برعکس کیوں تھے؟ کیونکہ وہ اسلام اور قرآن کو مانتے تھے۔ متحدہ ہندوستان کے مسلمان حامیوں کا ذکر کرتے ہوئے قائداعظم نے کیوں کہا کہ کیا کوئی مسلمان قرآن مجید سے ماورا (Over ride)ہوسکتا ہے؟ یہ مذہبی فیکٹر کا ذکر نہیں تو اور کیا تھا۔ قائداعظم کی یہ تقریر شروع سے آخر تک ایک ایسے مسلمان کی تقریر ہے جو قرآن حکیم کے پیغام کوبھی خوب سمجھتا ہے اور اسلامی تعلیمات کا بھی پورا ادراک رکھتا ہے۔ کانگرس کی سیکولرازم کے معترف کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب 1937ء میں انتخابات کے بعد کانگرس نے سات صوبوں میں حکومتیں بنائیں تو نہ صرف مسلمانوں پر نوکریوں کے دروازے بند کردیئے اور انہیں ہر صورت وعدوں کے باوجود اقتدار میں شریک نہ کیا بلکہ اسکولوں میں گاندھی جی کے بُت کی ’’پرارتھنا‘‘ بھی ضروری قرار دے دی۔ اسی لئے قائداعظم نے احتجاجاً کہا تھا کہ گاندھی کی بت پرستی ایک مشرکانہ اور کافرانہ فعل ہے جو مسلمان نہیں کرسکتے۔ قائداعظم کے اس بیان پر لاہور میں علیل علامہ اقبال نے خوشی کا اظہار کیا تھا۔ سید نذیر نیازی اپنی یادداشتوں ’’اقبال کے حضور میں‘‘ لکھتے ہیں کہ اس روز اقبال بیماری کی تکلیف کے باوجود بہت خوش تھے اور فرمایا مجھے جناح سے یہ الفاظ سن کر بہت خوشی ہوئی ہے اور ہاں یہ مت بھولیے کہ گاندھی نے اپنے رسالے ینگ انڈیا(Young India)میں یہ مضمون شائع کر کے ہندوستان کے مسلمانوں کے چودہ طبق روشن کردیے تھے کہ مسلمان ہندوازم ترک کرکے اسلام کے دائرے میں داخل ہوئے ہیں۔ یا تو ان کو اپنے پرانے دھرم میں واپس لائو ورنہ انہیں ہمیشہ کے لئے غلام بنا کر رکھو۔ یہ مذہبی فیکٹر نہیں تو اور کیا ہے؟ اس مضمون میں تفصیل جمیل الدین احمد کی کتاب کے صفحہ نمبر 44پر پڑھی جاسکتی ہے۔ گاندھی جی کے الفاظ کے آئینے میں ان کا اصل چہرہ ملاحظہ فرمایئے۔

“Muslims are either the progeny of Arab invaders or persons separated from us. There are three remedies, one they should be weaned away from Islam back to their old Dharma two, if that is not possible they should be returned to their ancestral land three, if this is difficult they should be kept as subjects in India.”

سچی بات یہ ہے کہ تاریخی مضامین سے انصاف کرنے کے لئے اپنے عقائد سے کچھ بلند ہونا پڑتا ہے اور کھلے ذہن اور کھلے دل کے ساتھ مواد کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ تحریک پاکستان کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میری رائے یہ ہے کہ اس تحریک کے پس پردہ مذہبی، معاشی، تہذیبی و تمدنی اور سیاسی محرکات کار فرما تھے اور ان میں سے کسی فیکٹر کو بھی اگنور کرکے تحریک پاکستان سے انصاف نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے سچ یہ ہے کہ اگر آپ معاشی، سیاسی اور تمدنی محرکات کا بھی بغور مطالعہ کریں تو ان کی تہہ میں بھی آپ کو مذہب ہی نظر آئے گا کیونکہ یہ اختلاف مذہب ہی کی دین تھا۔ عالمی تاریخ کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ کوئی بھی بڑی تحریک صرف ایک فیکٹر کی پیداوار نہیں ہوتی۔ اس میں بیک وقت بہت سے عوامل اپنا اپنا کردار سرانجام دیتے ہیں اور حصہ ڈالتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ رسم چل نکلی ہے کہ سیکولر حضرات پاکستان کو محض معاشی و سیاسی عوامل کی پیداوار قرار دیتے ہیں، مذہبی اسکالر اسے صرف مذہب کا کارنامہ سمجھتے ہیں اور وہ جو مذہب میں یقین ہی نہیں رکھتے وہ تحریک پاکستان، اقبال اور جناح کا ذکر کرتے ہوئے مذہبی فیکٹر کو یوں اگنور کرتے ہیں جیسے ہند و پاکستان کے مسلمانوں کا کوئی مذہب ہی نہیں تھا اور وہ صرف سیاسی، معاشی اور تمدنی عوامل کے تابع تھے۔ کیا مسلمان کا مذہب سیاسی، معاشی اور تمدنی عوامل کے تابع ہوتا ہے یا سیاسی، معاشی اور تمدنی محرکات مذہب کے تابع ہوتے ہیں؟ حیرت ہے کہ اس کوتاہ بینی کے علمبردار اپنے آپ کو روشن خیال کہتے ہیں اور حیرت ہے کہ کالم نگار بھی انہیں روشن خیالی کا طعنہ دیتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین