• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہنے کو تو اردو زبان ہمیشہ سے تہذیب اور اخلاق کا استعارہ رہی ہے۔ کہنے کو تو یہ میر کی سہیلی اور مومن کی چہیتی رہی ہے۔ کہنے کو زبان اردو پر غالب کا سایہ فگن ہے، کہنے کو تو زبان اردو سودا کی میراث ہے۔ کہنے کو تو یہ منٹو کا اعزاز ہے، کہنےکو تو یہ فیض کا طرہ امتیاز ہے ، کہنے کو یہ فراز کا سہرا ہے ، کہنے کو تو یہ جالب کی جاگیر ہے ۔ لیکن اس سب کے باوجود اس زبان نے کچھ حوالوں سے ایسے استعارے ہمیں تفویض کئے ہیں جہاں تہذیب اور اخلاق تو چھوڑیئے بات انسانی قدروں سے بھی گر جاتی ہے۔ ایسی تقسیم شاید نہ کسی اور زبان میں موجود ہے نہ ہی دنیا کے کسی اور خطے میں زبان کا استعمال ایسے قبیح مفاہیم میں ہوتا ہے۔ زیر نظر کالم زبان اردو کے ایک ایسے ہی پہلو کی طرف نشاندہی کرے گا۔ اس کالم میں چند ایسے الفاظ اور مرکبات کا استعمال ہو گا جن کا استعمال مجھے ذاتی طور پر کسی طرح بھی مناسب نہیں سوجھتا مگر بعض اوقات زخم کی گہرائی کا اندازہ کرنے کے لئے نشتر زنی درکار ہوتی ہے۔ یہی نشتر زنی اس کالم کا مقصد ہے۔


معذور افراد کے حوالے سے ہمارے ہاں رائج جتنے بھی الفاظ ، تراکیب، استعارے اور محاورے ہیں ان تمام میں تضحیک کا پہلو ضرور نکلتا ہے۔ کسی کی دل شکنی مقصود ہو، کسی کا تمسخر اڑانے کا عندیہ ہو ، کسی کی توہین درکار ہو تو انہی استعاروں کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ بات اس حد تک ظالمانہ ہو چکی ہے کہ اس کے ذریعے پہنچنے والے زخم کا درد بھی ہمیں محسوس نہیں ہوتا۔ خون بھی رستا نظر نہیں آتا۔ آنسو بھی گرتے نظر نہیں آتے۔ آہیں بھی سنائی نہیں دیتیں۔


دنیا بھر میں معذوری کی چار اقسام ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جو بینائی نہ ہونے کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ دوسری قسم قوت سماعت و گویائی سے محروم افراد کی ہے۔ ایک معذوری جسمانی معذوری کہلاتی ہے اور معذوری کی آخری اور سب سے تکلیف دہ نوعیت ذہنی معذوری ہے۔ دنیا بھر میں معذور افراد کو انہی چار بنیادی اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ان معذوریوں کے حوالے سے زبان کے استعمال پر بہت توجہ دی گئی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اس نظر انداز طبقے کے بارے میں لسانی تعصب برتا جاتا ہے وہ از حد تکلیف دہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس تکلیف دہ روئیے کا موجب عام آدمی کم ہی ہوتا ہے بلکہ اس میں اس قوم کے دانشوران کرام اور میڈِیا بڑی حد تک مورد الزام ٹھرایاجاتا ہے۔ انہی کے ذریعے یہ الفاظ اور استعارے عوام تک پہنچتے ہیں انہی کے ذریعے یہ روزمرہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ میری اس کالم میں کوشش ہو گی کہ ان الفاظ کی طرف نشاندہی کروں جو اس توہین کا سبب بنتے ہیں۔ تضحیک کا موجب بنتے ہیں۔ تمسخر کی وجہ کہلاتے ہیں۔


نابینا افراد کا المیہ یہ ہے کہ یہ دنیا اور اس کے رنگ ان کو دکھائی نہیں دیتے ۔ یہ کیفیت کسی بیماری کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے اور کبھی’’کزن میریج‘‘کی وجہ سے موروثی طور پریہ بیماری کسی خاندان میں اسطرح سرایت کر جاتی ہے کہ نسلیں کی نسلیں بینائی سے محروم ہو جاتی ہیں ، کبھی کوئی حادثہ اس بیماری کا موجب اور کبھی کسی غلط دوا کا استعمال اس طرح کے حادثے کا سبب بنتا ہے۔ لیکن سماجی طورپر نابینا افراد کو پکارنے کے لئے ہمارے پاس ایک ہی لفظ ہے اور وہ ہے ’’اندھا یا کانا‘‘ ۔یا پھر ہم بڑی تسلی سے اس مصرعے میں تفنن کا پہلو ڈھونڈتے ہیں کہ’’اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی‘‘ ان سب تراکیب اور انکے استعمال سے اس معذوری کے حوالے سے نفرت اور بغض کی بو آتی ہے۔ ہم اس قدر ظالم لوگ ہیں کہ ایسے الفاظ استعمال کرتے ذرا بھر یہ نہیں سوچتے کہ یہ توہین آمیز الفاظ کسی معذور شخص کا سینہ چیر دیتے ہوں گے۔ برسوں تک اس کے سینے پر کچوکے لگاتے ہوں گے۔یاد رکھئے درست لفظ نابینا ہے ’’اندھا ‘‘ نہیں۔


اسی طرح قوت سماعت و گویائی سے محروم افراد کے لئے ہمارے پاس عام استعمال کا واحد لفظ ’‘’ گونگا اور بہرا ‘‘ ہے۔ ہم اس توہین آمیز لفظ کا استعمال اس بے دریغ طریقے سے کرتے ہیں کہ کبھی نظام کو اس سے موسوم کرتے ہیں، کبھی قانون کو اور کبھی شقی القلب حکمرانوں کو اور کبھی نظام تعلیم کو ’’گونگا اور بہرا‘‘ کہہ کر شتاب ہو تے ہیں۔ غرض ہمیں جہاں کسی کوحقیر ثابت کرنا ہو ہم اسے ’’گونگا اور بہرا ‘ کہیں گے۔ اس سارے واقعے میں ایک لمحے کےلئے بھی ہمارے ذہن میں وہ لوگ نہیں ہوں گے جو سماعت و گویائی سے محروم ہیں۔ ان کے دل پر کیا گزرتی ہے اس کا نہ ہم نے کبھی سوچا ہے نہ اس تکلیف تک ہمارے ذہن کی رسائی ہوتی ہے۔ یاد رکھیں درست لفظ قوت سماعت و گویائی سے محروم افراد ہے ’’گونگا اور بہرا ‘‘ نہیں۔


جسمانی معذور افراد کو اس معاشرے میں ’’لولا ، لنگڑا یا ٹونڈا ‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ وہیل چیئر اور بیساکھی استعمال کرنے والے افراد کی اس سے زیادہ توہین کیا ہو سکتی ہے۔ اب ایک لمحے کے لئےسوچئے کہ ہم ’’لولا اور لنگڑا ‘‘کن معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ مخالفین پر رکیک حملے کے لئے استعمال ہونے والے یہ لفظ کسی کی عمر بھر کی مجبوری اور معذوری ہوتے ہیں۔ معذوری کی تکریم بہت ضروری ہے، اسکی توہین سے اجتناب کرنا چاہئے۔ درست لفظ جسمانی معذور ہے ’’لولا لنگڑا یا ٹونڈا ‘‘نہیں۔


معذوری کی سب سے تکلیف دہ قسم ذہنی معذوری ہے۔ اس کی اقسام میں ڈپریشن بھی ہے اور اس کی مختلف سطحیں ہیں۔ یہ واحد معذوری ہے جس کا کوئی حل نہیں ، نابینا افراد کے لئے سفید چھڑی ، قوت سماعت و گویائی کے لئے سماعت و گویائی کے آلات اور جسمانی معذرور افراد کے لئے وہیل چیئر موجود ہیں مگر ذہنی معذور افراد کے لئےدنیا بھر میں کوئی ٹیکنالوجی نہیں ہے ۔ اس معذوری میں معذور فرد کا ذہن اس کے اختیار میں نہیں ہوتااور بدقسمتی سے ایسے افراد کے لئے اس معاشرے میں واحد لفظ ’’ پاگل‘‘ ہے۔ ہر برے کام کو ہم اس معاشرے میں’’ پاگل پن‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہر مختلف سوچ رکھنے والے کی توہین ’’پاگل ‘‘ کہہ کر کرتے ہیں۔ خدارا اس بات کو سمجھیں کہ درست لفظ ذہنی معذور ہے ’’پاگل‘‘ نہیں۔


دنیا بھر میں ایسے افراد کو ا سپیشل کہنے کی مہم چلی تھی مگر ہم اپنے معذور افراد کو ا سپیشل کہنے کے بھی حقدار نہیں۔ یہ اختیار ان قوموں کو حاصل ہے جو ایسے افراد کو ا سپیشل سمجھتی ہیں اور ان سے ا سپیشل برتاو کرتی ہیں۔


مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ گرما گرم سیاست کے دور میں اسطرح کے موضوعات پر قارئین کی نظر نہیں پڑتی مگر اسکے باوجود اگر اس تحریر کے نتیجے میں چند لوگ ہی اپنی تحریر اور کلام میں معذور افراد کے حوالے سے محتاط ہو جائیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ اس سےبہت سے دکھی دلوں کے غم کا مداوا ہو گا۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین