• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست اور گروپ بندیوں کے خاتمے کے لیے سخت فیصلے کرنا پڑے، پروفیسر ڈاکٹر محمّد آصف

انٹرویو : ارشد عزیز ملک، پشاور

رپورٹ: سلطان صدیقی ، آصف خان ترک

عکّاسی: فرمان اللہ جان

جامعہ پشاور کے وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر محمّد آصف کا تعلق تو ضلع، چکوال سے ہے، تاہم گزشتہ 40برسوں سے حصولِ تعلیم اور پھر ملازمت کے سلسلے میں پشاور میں مقیم ہیں۔ اُنہوں نے راول پنڈی سے ایف ایس سی کی۔ بعدازاں، 1978ء میں جامعہ پشاور سے بی ایس سی(آنرز) جیالوجی اور 1979 ءمیں ایم ایس سی (جیالوجی) کیا۔ پی ایچ ڈی کے لیے ایمپریل کالج، لندن یونی ورسٹی، برطانیہ کی اسکالرشپ ملی، جہاں سے 1988 ء میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔1981ء میں جامعہ پشاور کے’’ نیشنل سینٹر آف ایکسیلینس اِن جیالوجی‘‘ سے بہ طور جونیئر ریسرچ فیلو ملازمت کا آغاز کیا۔1988 ءمیں اسسٹنٹ پروفیسر، 1994ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور 1998 ء میں پروفیسر کے عُہدے پر ترقّی پائی۔ نیز، تدریس کے علاوہ، تحقیق کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور اس ضمن میں 1993ء میں یونی ورسٹی آف ٹیکساس، امریکا کی فل برائٹ فیلوشپ، 1994ء میں پن اسٹیٹ یونی ورسٹی، امریکا کی این ایس ایف فیلو شپ،1999ء میں آکسفورڈ یونی ورسٹی، برطانیہ کی کامن ویلتھ فیلوشپ اور 2005 ءمیں لائی یونی ورسٹی، امریکا کی این ایس ایف فیلو شپ کے تحت اسناد حاصل کیں۔ اُن کے مُلکی و بین الاقوامی جرائد میں 200 ریسرچ پیپرز شایع ہو چُکے ہیں، جب کہ تین کُتب کے بھی مصنّف ہیں، جن میں سے دو بین الاقوامی پبلشرز نے شایع کیں۔ جامعہ پشاور سے طویل وابستگی کے بعد قراقرم انٹرنیشنل یونی ورسٹی، گلگت بلتستان کے وائس چانسلر تعیّنات کیے گئے۔ اگست 2017ء میں وائس چانسلر، جامعہ پشاور کے طور پر خدمات کا آغاز کیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ڈاکٹر محمّد آصف گزشتہ دنوں روزنامہ’’ جنگ‘‘، پشاور کے دفتر تشریف لائے، جہاں اُن سے یونی ورسٹی کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی،جو جنگ، سن ڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہے۔

سیاست اور گروپ بندیوں کے خاتمے کے لیے سخت فیصلے کرنا پڑے، پروفیسر ڈاکٹر محمّد آصف
نمائندگانِ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

س : جامعہ پشاور کے حوالے سے کچھ بتائیے۔کب قائم ہوئی؟ کِن کِن شعبوں میں تعلیم دی جا رہی ہے؟

ج: جامعہ پشاور کا قیام 1950ء میں عمل میں لایا گیا اور اس نے اپنے قیام ہی سے ترقّی کا سفر بڑی تیزی سے شروع کیا۔ یہ 70ء کی دہائی میں ہر لحاظ سے ایک مکمل یونی ورسٹی تھی، بلکہ مُلک کی صفِ اوّل کی جامعات کے ساتھ عالمی سطح پر بھی بہترین یونی ورسٹیز میں شمار کی جاتی تھی۔ یہ پاکستان کی واحد یونی ورسٹی تھی کہ جہاں عام علوم کے علاوہ، پروفیشنل تعلیم یعنی میڈیکل، انجینئرنگ، لاء، ہوم اکنامکس، کامرس اور ایگریکلچر کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج پروفیشنل افراد کی بڑی تعداد جامعہ پشاور کے فضلاء پر مشتمل ہے۔ اس یونی ورسٹی کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ یہاں دنیا بھر کے علوم کی تدریس ایک ہی چھت تَلے ہوتی تھی، جب کہ پاکستان میں کمپیوٹر سائنس اور فارمیسی کی تعلیم سب سے پہلے پشاور یونی ورسٹی ہی میں شروع ہوئی، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ حالات تبدیل ہوتے گئے اور اس کے ذیلی ادارے یعنی انجینئرنگ کالج، میڈیکل کالج، ایگری کلچر کالج اور اسلامیہ کالج، یونی ورسٹیز میں تبدیل ہو گئے، جس سے اس کی پروفیشنل یونی ورسٹی کی حیثیت تقریباً ختم ہو گئی، تاہم اب بھی یہ صوبے میں’’ مدر یونی ورسٹی‘‘ کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔ معیارِ تعلیم کی بات کی جائے، تو اس کا ہر شعبہ اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ مثلاً فیکلٹی آف آرٹ اینڈ ہیومنیٹیز میں انگلش، آرکیالوجی اور آرٹ اینڈ ڈیزائن، فیکلٹی آف اسلامک اینڈ اوریئنٹل اسٹڈیز میں سیرت اسٹڈیز اور اُردو، فیکلٹی آف لائف اینڈ انوائرمینٹل سائنسز میں جیالوجی، باٹنی، زوآلوجی اور اربن اینڈ ریجنل پلاننگ، فیکلٹی آف مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سائنسز میں کامرس اور ہوم اکنامکس، فیکلٹی آف نومیریکل اینڈ فزیکل سائنسز میں فزکس، میتھس اور کمپیوٹر سائنس اور فیکلٹی آف سوشل سائنسز میں سائیکالوجی، اکنامکس، پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل ریلیشنز وغیرہ کے شعبہ جات شامل ہیں۔ خیبر پختون خوا کے بیش تر بیورو کریٹس اور سیاسی و سماجی رہنماؤں نے پشاور یونی ورسٹی ہی سے تعلیم حاصل کی۔ اور اس یونی ورسٹی نے اپنے قیام کے محض 25 برسوں میں مُلکی اور عالمی سطح پر وہ مقام حاصل کیا، جو کم ہی اداروں کے حصّے آتا ہے۔

س: طلبہ، فیکلٹی ارکان اور دیگر عملے کی تعداد کتنی ہے؟ مالی صُورتِ حال کیسی ہے؟

ج: اِن دنوں یونی ورسٹی میں ریگولر طلبہ کی تعداد 15سے 20 ہزار کے درمیان ہے، تاہم فاصلاتی نظامِ تعلیم، ملحقہ اداروں اور پرائیویٹ طلبہ کو ملا کر یہ تعداد ایک لاکھ کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ فیکلٹی ارکان کی تعداد 700 ،جب کہ دیگر عملے کی تعداد تقریباً3000 ہے۔ تدریسی شعبوں کی تعداد 50 اور فیکلٹیز کی تعداد چھے ہے۔ رواں سال کا بجٹ 3ارب 75 کروڑ روپے ہے، جس کا 40 فی صد حصّہ ہائر ایجوکیشن کمیشن دیتا ہے، جب کہ باقی اخراجات ہم اپنے ذرایع سے پورے کرتے ہیں۔ جہاں تک خسارے کی بات ہے، تو یہ بالکل درست ہے کہ یونی ورسٹی کا بجٹ مسلسل خسارے میں جا رہا ہے، جس پر قابو پانے کے لیے ہم اپنے اخراجات کم کررہے ہیں اور فیسز میں بھی ہر سیشن کے آغاز پر 10 فی صد اضافہ کرتے ہیں، مگر اس سب کچھ کے باوجود یونی ورسٹی کو خسارے کا سامنا ہے۔ اس خسارے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت ہر سال بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تن خواہوں میں 10 یا 15 فی صد اضافہ کرتی ہے، تو اس پر ہمیں بھی عمل کرنا پڑتا ہے، لیکن یہ اضافی بوجھ اٹھانے کے لیے ہمیں حکومت کی جانب سے کوئی اضافی گرانٹ نہیں ملتی۔ اچھی خبر یہ ہے کہ ہماری بچت پالیسی کے سبب خسارہ 900ملین سے کم ہو کر 500 ملین تک آگیا ہے اور امید ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ مزید کم ہو جائے گا۔

س: طلبہ فیسز میں اضافے کے خلاف گزشتہ ایک سال سے سراپا احتجاج ہیں، یہ کیا قصّہ ہے؟

ج: دیکھیے، بات در اصل یہ ہے کہ جامعہ پشاور کی فیسز اب بھی صوبے کی دیگر سرکاری جامعات کی نسبت کم ہیں۔ہمارے ہاں سینڈیکیٹ کی جانب سے ہر سال فیسز میں 10 فی صد اضافے کی اجازت ہے، مگر ہم طلبہ کی مشکلات کے پیشِ نظر اس پر عمل نہیں کرتے ۔ ہم صرف نئے داخل ہونے والے طلبہ کی فیسز ہی میں 10 فی صد اضافہ کرتے ہیں اور جس سیشن میں داخلہ لیا جاتا ہے، اُس کی فیس اختتام تک ایک ہی جیسی رہتی ہے۔ یعنی اگر کوئی طالبِ علم رواں سال، سیشن 19- 2018ء میں بی ایس یا کسی اور پروگرام میں داخلہ لیتا ہے، تو وہ یہی فیس کورس کے اختتام تک ادا کرے گا، یعنی اگلے چار سال تک اس فیس میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، آپ کو ایک اور بات بھی بتائوں کہ ہمارے فیکلٹی ارکان اور دیگر عملہ ہر سال لاکھوں روپے طلبہ کی فیسز کی مد میں یونی ورسٹی کو عطیہ کرتا ہے، جس سے سیکڑوں طلبہ کی فیسز معاف ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح یونی ورسٹی میں بھائی، بہن کے اکٹھے زیرِ تعلیم ہونے پر بھی فیسز میں رعایت دی جاتی ہے۔ نیز، مورا اسکالر شپ کے علاوہ، پرائم منسٹر فیس ری ایمبرسمنٹ اسکیم کے تحت بھی سیکڑوں طلبہ کی فیسز معاف کردی جاتی ہیں۔یوں اگر دیکھا جائے، تو پورے مُلک میں پشاور یونی ورسٹی سب سے افورڈایبل یونی ورسٹی ہے۔

س : بہ طور وائس چانسلر تعیّناتی کے بعد کِن مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور اُن سے نمٹنے کے لیے کیا حکمتِ عملی اپنائی؟

ج: گزشتہ 40 سال سے جامعہ پشاور سے وابستہ رہنے کی وجہ سے مجھے یہاں کے کلچر، مسائل اور مشکلات کی گہرائی کا علم تھا، لہٰذا وائس چانسلر جیسے حسّاس عُہدے کو ایک بڑے چیلنج کے طور پر قبول کیا۔ گزشتہ ایک سال کے دَوران دیکھنے میں آیا کہ یونی ورسٹی جن پیچیدہ مسائل سے دوچار ہے، اُن میں سیاست اور گروپ بندی جیسے معاملات سرِفہرست ہیں۔ جگہ جگہ گروپ بندی تھی اور کوئی بھی کام کسی گروپ سے تعلق رکھے بغیر نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے فیصلہ کیا کہ اس کلچر کو ہر صُورت تبدیل کرنا ہوگا۔ سو، ہم نے سخت فیصلے کیے، جس سے گروپ بندی بہت حد تک کم ہوگئی اور مثبت نتائج سامنے آنے لگے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یونی ورسٹی میں کوئی مارشل لاء نافذ کیا، بلکہ ہم نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کا پیغام پہنچایا اور ہر ایک کے لیے اپنے دفتر کے دروازے کھول دیے کہ جس کا جو بھی جائز مسئلہ ہے، وہ بغیر کسی مشکل کے حل ہو سکے۔ چوں کہ اپنی 40 سالہ یونی ورسٹی وابستگی کے دَوران کسی گروپ کے ساتھ نہیں رہا، اس لیے دونوں گروپس میں میرے دوست ہیں اور دونوں سے یک ساں تعلق ہے۔ جب میرا کسی گروپ سے تعلق نہیں تھا، تو پھر ڈر کس بات کا، چناں چہ جب بھی کوئی فیصلہ کیا، تو صرف اور صرف میرٹ پر کیا اور اس میں گروپس کی بجائے یونی ورسٹی کے مفاد ہی کو مدّ نظر رکھا۔ نیز، حالات کی بہتری کے لیے مختلف ای میلز گروپ بنائے، جن میں ایک ای میل گروپ ،اسٹوڈنٹس ٹو وی سی، دوسرا گروپ، اسٹوڈنٹس ٹو فیکلٹی اور تیسرا ای میل گروپ، اسٹاف ٹو وی سی شامل ہے۔ سب سے کہہ رکھا ہے کہ جس کا جو مسئلہ ہو، مجھے ای میل کردے، یوں جسے کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے یا کوئی زیادتی ہوجاتی ہے، تو مجھے پتا چل جاتا ہے اور اسی فیڈ بیک کے نتیجے میں اس شعبے سے متعلقہ خامی کو دُور کرنے کے لیے اقدامات کرتا ہوں۔ ابتدائی دنوں میں ڈگری ویری فیکیشن کے حوالے سے کافی شکایات تھیں، لیکن اب سال ہورہا ہے کہ شکایات کا سلسلہ تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک سسٹم وضع کیا گیا ہے، جس سے خلا پُر کرنے میں بڑی مدد ملی۔نیز، جب مَیں نے اپنا عُہدہ سنبھالا، تو ایم فِل /پی ایچ ڈی اسکالرز کے ایک ہزار سے زائد کیسز زیرِ التواء تھے۔ متعلقہ دفاتر کو یہ کیسز جلد از جلد حل کرنے کی ہدایت کی اور یہی وجہ ہے کہ اب تقریباً سارے کیسز حل ہوچُکے ہیں۔ مجھے یہ اندازہ بھی ہوا کہ تحقیق کا شعبہ کم زور ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ معلوم کی تو پتا چلا کہ ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے لیے موضوعات کے تعیّن اور سپروائزر کی فراہمی وغیرہ میں سال لگتے تھے، جس سے ہزاروں طلبہ کا مستقبل متاثر ہو رہا تھا، چناں چہ ہم نے جنگی بنیادوں پر چھے سے آٹھ ماہ کے اندر یہ مسئلہ حل کردیا اور اب مہینے کے اندر ہی یہ سارا پراسس مکمل ہو جاتا ہے، جس سے ریسرچ میں تیزی آرہی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ سال15- 2014ء میں ہمارے انٹرنیشنل ریسرچ پبلیکیشنز کی تعداد 200تھی، جو 17-2016ءکےدَوران500 تک پہنچ گئی، جب کہ اس سال توقّع ہے کہ یہ تعداد 1500سے 2000 تک ہو جائے گی۔ پھر یہ کہ تدریس کا معیار بہتر کرنے کے لیے فیکلٹی ڈیویلپمنٹ پروگرام پر توجّہ دی گئی۔ اسی طرح ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کے لیے ڈائریکٹوریٹ آف ایڈوانس اسٹڈیز قائم کیا، جس سے ڈائریکٹوریٹ آف ایڈمیشنز پر اضافی بوجھ ختم ہوا اور تحقیق کرنے والے طلبہ کا داخلہ پراسس بھی آسان ہوگیا۔ چوں کہ یونی ورسٹی میں انڈر گریجویٹ کورسز بھی ہیں، تو اُن طلبہ کی سہولت کے لیے ڈائریکٹوریٹ آف انڈر گریجویٹ اسٹڈیز قائم کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ماضی میں سارا بوجھ ایک ہی ڈائریکٹوریٹ آف ایڈمیشنز پر ہوتا تھا، تو اس میں یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ کس طالبِ علم نے اپنی فیس جمع کروائی ہے اور کس نے نہیں۔ یوں ماضی میں بعض طلبہ فیس جمع کیے بغیر آٹھ، آٹھ سمسٹرز گزار دیتے تھے اور آخر میں فیس معافی کی درخواست دے کر چلتے بنتے۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ پہلے طلبہ کے نتائج چار سال بعد شعبۂ امتحانات کو بھیجے جاتے تھے، جب ہمیں اس بات کا پتا چلا، تو ہم نے اس نظام کو بھی درست کیا۔ اب ہر سمسٹر کے بعد اس کے نتائج شعبہ امتحانات کو بھیج دیے جاتے ہیں،جس سے بروقت پتا چل جاتا ہے کہ کس نے فیس جمع کروائی اور کس کی جانب بقایا جات ہیں۔ علاوہ ازیں، انرولمنٹ بڑھانے کے لیے بی ایس کی سیٹس 1800 سے بڑھا کر 4000کردیں، یوں ہم نے فیسز میں اضافے کی بجائے طلبہ کی تعداد میں اضافہ کرکے اپنی آمدنی بڑھائی اور دیگر یونی ورسٹیز کے مقابلے میں طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے بہتر مواقع فراہم کیے۔ ہم نے ڈائریکٹوریٹ آف ریسرچ، انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن کو پہلے سے مضبوط کیا۔ کیرئیر ڈیویلپمنٹ سینٹر بنایا۔ ایلومینائی ایسوسی ایشن بنائی اور اپنے مختلف پراجیکٹس کے نتیجے میں بننے والی پراڈکٹس اور خدمات کی کمرشلائزیشن کا آغاز کیا۔

س: پچھلے دنوں یونی ورسٹی ہاسٹلز کے حوالے سے بہت کچھ سُننے کو ملا، حقیقت کیا ہے؟

ج: صُورتِ حال یہ تھی کہ400کی گنجائش والے ہاسٹل میں1500افراد رہ رہے تھے، جن میں صرف 15 ہی قانونی حیثیت رکھتے تھے۔ ماضی کی انتظامیہ کو ان کے خلاف ایکشن لینا چاہیے تھا، مگر اُنہوں نے نہیں لیا۔ شاید اُنہیں اپنی مدّتِ ملازمت پوری کرنے کا شوق ہوگا، مگر مجھے ایسا کوئی شوق نہیں۔ یونی ورسٹی میں ہاسٹلز کے مسائل کو کسی نے نہیں چھیڑا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ تقریباً چار ہاسٹلز کے درجنوں کمروں پر آئوٹ سائیڈرز کا قبضہ تھا، جن میں سیکڑوں غیر متعلقہ افراد رہائش اختیار کیے ہوئے تھے، جس سے یونی ورسٹی کو ہر سال کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا تھا۔ ہم نے آئوٹ سائیڈرز کو نوٹس دیے اور پھر تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اُن کے خلاف گرینڈ آپریشن کیا، جس کے دَوران تمام کمرے واگزار کرالیے گئے۔ اب یہ کمرے صرف میرٹ ہی پر طلبہ کو دیے جائیں گے، جب کہ آئوٹ سائیڈرز کے لیے ہاسٹلز میں کوئی جگہ نہیں ہو گی۔ ہاسٹل خالی کروانے کے معاملے پر طرح طرح کا ردّ عمل سامنے آرہا ہے، لیکن ہم نے اپنا کام کرلیا اور اب کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔

س : یونی ورسٹی کو مالی بحران سے نکالنے کے لیے آپ حکومت سے کس قسم کا تعاون چاہتے ہیں؟

ج:یونی ورسٹی کے مالی بحران کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت ہم انجینئرنگ یونی ورسٹی، اسلامیہ کالج یونی ورسٹی، زرعی یونی ورسٹی اور خیبر میڈیکل کالج کے تقریباً 300 ریٹائرڈ ملازمین کو اپنے کھاتے سے پینشنز دے رہے ہیں، جس کی مد میں ہمیں ہر سال کروڑوں روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ ان اداروں کے پنشنرز کے کھاتوں کو انہی اداروں کو منتقل کیا جائے، کیوں کہ یہ اب جامعہ پشاور کے ذیلی ادارے نہیں۔ لہٰذا بہتر ہو گا کہ یہ اپنا بوجھ خود اٹھائیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جب بھی ہم نے صوبائی حکومت سے اس حوالے سے رابطہ کیا کہ اس نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اسی طرح اٹھارہویں ترمیم کے بعد جامعات کی مالی سرپرستی صوبوں کی ذمّے داری ہے، تو صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ جامعہ پشاور کو خصوصی گرانٹ دے تاکہ یہاں کے مسائل کم ہوں اور طلبہ کے لیے ایک خوش گوار تعلیمی ماحول یقینی بنایا جاسکے۔

س:  تعلیم یافتہ افراد کی شرح میں بہتری کے باوجود معاشرہ رُوبہ زوال ہے۔ آپ کی نظر میں اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

ج:دراصل ہمارے معاشرے میں جو تنوّع پایا جاتا تھا، وہ ختم ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے شرحِ خواندگی میں اضافے کے باوجود معاشرہ زوال کا شکار ہے۔ 70ء کی دہائی میں، جب ہم جامعہ پشاور میں پڑھ رہے تھے، پاکستان کے مختلف علاقوں کے علاوہ، بیرون مُلک سے بھی طلبہ یہاں پڑھنے آتے تھے۔ یوں مختلف علاقوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا۔ وہ ایک دوسرے کے جذبات و احساسات سے واقف ہوتے، جس کی بنیاد پر ایک ایسا کلچر قائم ہوا کہ جس میں ہر طرف رواداری، برداشت اور پیار و محبّت کا ماحول تھا، تاہم مختلف وجوہ اور مخصوص حالات کے باعث معاشرتی تنوّع کا یہ سلسلہ کم زور ہوتا چلا گیا۔ نیز، اضلاع کی سطح پر یونی ورسٹیز بننے لگیں، تو اس سےبھی طلبہ اپنے ہی علاقوں تک محدود ہوتے چلے گئے اور کثیرالجہت ثقافت سے کٹ گئے۔ اسی صُورتِ حال نے معاشرے میں انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کو بھی ہوا دی۔

س : اعلیٰ تعلیم کا معیار بہتر کرنےکے لیے آپ کیا تجاویز دیں گے؟

ج: اعلیٰ تعلیم کا معیار بلند کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے جامعات میں تمام تر داخلے میرٹ کی بنیاد پر دیے جائیں۔ نیز، فیکلٹی اور انتظامی عملے کی تقرّریوں میں بھی میرٹ دیکھا جائے،کیوں کہ اگر ایک آدمی بھی غلط طریقے سے بھرتی ہوگیا، تو نتیجے میں اگلے 40 ،50سال تک وہ ادارے کو نقصان پہنچاتا رہے گا۔ قراقرم یونی ورسٹی میں ہم نے فیکلٹی ڈیویلپمنٹ پر خصوصی توجّہ دیتے ہوئے فیکلٹی ڈیویلپمنٹ کا ایک الگ ڈائریکٹوریٹ قائم کیا تھا۔ دیکھیے، ریسرچ الگ چیز ہے اور ٹیچنگ الگ۔ اب صرف لیکچر سے کام نہیں چلتا، نئی ڈیویلپمنٹس کی طرف بھی جانا ہوگا ۔ ہمیں ٹیچنگ میتھڈالوجی کے نئے انداز اپنانا ہوں گے۔ گروپ لرننگ اور ڈسکشن کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔ پھر یونی ورسٹی میں ڈائیورسٹی ہونی چاہیے، جس طرح ماضی میں پشاور یونی ورسٹی پورے صوبے، بلکہ پورے مُلک کے لیے تھی اور اس میں بیرونِ مُلک سے بھی طلبہ آکر تعلیم حاصل کرتے تھے، اسی حیثیت کو بحال کرنے کے لیے حکومت کو یہ پابندی ختم کرنی ہو گی کہ یونی ورسٹی جس ضلعے میں ہو، اسی ضلعے کے طلبہ اس میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ اگرچہ اب تقریباً ہر ضلعے میں یونی ورسٹی ہے، لیکن اس پابندی کے باعث طلبہ کی مینٹل گروتھ نہیں ہو پا رہی اور اگر وہ اسکول سے یونی ورسٹی تک ایک ہی مائنڈ سیٹ کے تحت رہیں گے، تو کیا سیکھیں گے۔ یونی ورسٹی کے ماحول میں، جب مختلف علاقوں کے طلبہ ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں، تو وہ لیکچرز کے ساتھ، ایک دوسرے سے بھی بہت کچھ سیکھ پاتے ہیں۔ اس لیے میری خواہش ہے کہ حکومت یہ پابندی ختم کر دے۔

تازہ ترین