جناب چیف جسٹس ثاقب نثار کا شکریہ کہ انہوں نے پروفیسر حضرات کو ہتھکڑیاں لگانے کے معاملے پر از خود نوٹس لے کر کارروائی کا حکم دیا۔ چیف جسٹس صاحب نے ڈی جی نیب کی اسقدر سرزنش کی کہ ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ڈی جی نیب نے چیف جسٹس سے معافی مانگی اور گرفتار اساتذہ سے معافی مانگنے کا وعدہ کر کے اپنی خلاصی کروائی۔ چیف جسٹس کے نوٹس ہی کا نتیجہ ہے کہ نیب چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ایڈیشنل ڈائریکٹر نیب کو معطل کر دیا ہے اور پروفیسر حضرات پر لگے ا لزامات کی تحقیقات کیلئے نئی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔اس معاملے کی تحقیقات ہونی بھی چاہئیں۔ اگر طے شدہ قواعد و ضوابط سے ہٹ کر جامعات میں بھرتیاں ہوئی ہیں،اگر تعمیرات کے غیر قانونی ٹھیکے دئیے گئے ہیں،جانتے بوجھتے جامعات کے غیر قانونی سب کیمپسز قائم ہوئے ہیں، قومی خزانے کا ذاتی استعمال ہوا ہے، اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے تعلیمی وظائف دئیے گئے ہیں، تو ان تمام معاملات کی تفتیش اور تحقیقات ضرور ہونی چاہئیں۔ کسی مہذب پاکستانی کو احتساب سے انکار نہیں ہے۔ مگر احتساب کا بھی کوئی ڈھنگ، کوئی اصول ہو نا چاہئے۔ کوئی مہذب معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتاکہ ہر بلاوے پر حاضری دینے والے نہتے پروفیسروں کو گرفتار کر لیا جائے، انکو ہتھکڑیاں ڈال کر سر عام گھمایا جائےاور انکی عمر بھر کی کمائی ہوئی عزت آبرو کو خاک میں ملا دیا جائے۔ قانون کہتا ہے کہ جرم ثابت ہو نے تک کوئی بھی شخص گناہ گار یا مجرم نہیں کہلاسکتا۔ قانون یہ بھی کہتا ہے کہ محض الزامات کی بنیاد پر کسی کیساتھ مجرموں جیسا برتائو نہیں کیا جا سکتا۔ قانون کسی بھی شحض (خواہ وہ انتہائی پڑھا لکھا ہو یا بالکل ان پڑھ) کی تذلیل اور تحقیر کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ مگر اس معاملے میں ان سب قانونی تقاضوں کو نظر انداز کیا گیا۔ ایک لمحے کو فرض کیجئے کہ اگر قومی احتساب بیورو ، پروفیسر حضرات پر عائد کردہ الزامات ثابت نہ کر سکا، تو کیا ان صاحبان علم کی با عزت بریت ممکن ہو سکے گی؟۔
افسوس کہ ہمارے ہاں ٹھوس شواہد کے بغیر کسی بھی شخص پر الزام عائد کرنے کی روایت پروان چڑھ چکی ہے۔ سوشل میڈیا تو خیر دنیا بھر میں جعلی خبریں پھیلانے کا مستندذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہا ںالبتہ روایتی میڈیا کا ایک حصہ بھی اس کام میں پیش پیش ہے۔ ذرائع کا نام لے کرکچھ بھی کہہ دیا جائے ، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہتک عزت کے قوانین ، جو دنیا بھر میں انتہائی اہمیت رکھتے ہیں، ہمارے ہاں غیر موثر ہیں۔لہٰذا کیچڑ اچھالنے کا کھیل بغیر رکاوٹ جاری رہتا ہے۔
اساتذہ کو ہتھکڑی لگی تو یہ بحث بھی سننے کو ملی کہ فلاں فلاں سیاستدان جن پر اربوں کھربوں روپے کی خورد برد کے الزامات ہیں ، آج تک انکو ہتھکڑیاں کیوں نہیں لگیں؟فلاں فلاں بیوروکریٹس پر غیر قانونی ٹھیکے دینے کے الزامات ہیں، انہیں بھی ہتھکڑیاں لگائیں۔ فلاں فلاں اشخاص پر منی لانڈرنگ اور اختیارات سے تجاوز کرنے کے الزامات ہیں،انہیں بھی بیڑیوں میں جکڑیں۔ یہ باتیں تقریر کی حد تک تو اچھی لگتی ہونگی۔ مگر اصول کا تقاضا ہے کہ محض الزامات کی بنیاد پرکسی کو بھی ہتھکڑی نہیں لگنی چاہئے۔ سیاستدان ہوں، بیوروکریٹس ہوں ، بزنس مین ہوں ، اساتذہ یا عام آدمی ، الزامات ثابت ہونے تک سب کا عزت و وقار ملحوظ رہنا چاہئے۔ جہاں تک ہتھکڑی کی بات ہے تو اسکا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کوئی ملزم پولیس کی گرفت سے فرار نہ ہو پائے۔ اپنی مرضی و منشا سے پیش ہو نے والوں کو ہتھکڑیاں لگانے کا کوئی جواز نہیں۔اس سارے معاملے کا ایک خوشگوار پہلو بھی ہے۔ یہ حقیقت پوری قوت کیساتھ سامنے آئی کہ پاکستانی سماج میں لاکھ خرابیاں سہی، مگر یہ بے حس اور بے نیاز معاشرہ ہرگز نہیں ہے۔ کم از کم استاد کی عزت کے معاملے میں اسے کوئی سمجھوتہ منظور نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگانے کی گونج ہر جگہ پر سنائی دی۔ میڈیا کو بھی اکثر تنقید کا سامنا رہتا ہے، مگر استاد کی عزت کے معاملے میں میڈیا کا انتہائی مثبت چہرہ سامنے آیا۔ ٹیلی وژن چینلوں اور اخبارات نے اس معاملے کی بھر پور کوریج کی۔ سینکڑوں ٹی وی پروگرام ہوئے اور کالم لکھے گئے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے مطابق حکومت اور اپوزیشن نے نظام احتساب کی اصلاح احوال کیلئے مل بیٹھنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو تسلیم کرنا چاہئے کہ انہوں نے اس معاملے میں غفلت کا مظاہرہ کیا۔ دس سال کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا۔ جمہوریت بحال ہوئی تھی تو نیب نامی ڈکٹیٹر کی اس یادگار(جو سیاسی اور انتقامی مقاصد کیلئے استعمال ہوتی رہی) کو مٹا دینا چاہئے تھا۔ گزشتہ حکومتوں کا فرض تھا کہ احتساب کا کوئی حقیقی اور شفاف نظام قائم کرتیں۔ میثاق جمہوریت میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے عہد کیا تھا کہ احتساب کا غیر جانبدار ادارہ قائم کیا جائے گا۔ وجوہات کچھ بھی ہوں، مگر ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ اب اگر ایسا اقدام ہوتا ہے تو یہ بہت مثبت پیش رفت ہو گی۔
بزرگ اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگانا یقیناً ایک بڑے قومی المیے سے کم نہیں۔ کسی اہلکار کو معطل کر دینے یا محض زبانی کلامی سرزنش سے یہ معاملہ تمام نہیں ہو جاتا۔ اچھا ہو کہ عدالت عظمیٰ ،آئین میں دئیے گئے بنیادی حقوق کی روشنی میں ،نیب آرڈیننس کا جائزہ اور ایسے تمام قوانین کو ختم کرنے کے احکامات جاری کرئے جو آئین پاکستان سے متصادم ہیں۔اسی طرح اگر اس سیاہ قانون کے سیاہ استعمال کی انتہائی شرمناک مثالیں سامنے آہی گئی ہیں تو پارلیمنٹ بھی سیاسی تفریق سے بالا تر ہو کراس قانون کا از سر نو جائزہ لے۔ اگر اساتذہ کے ہاتھوں میں ڈلی ہتھکڑیوں سے یہ کام ہو جاتا ہے تو اسے شر سے برآمد ہونے والا خیر سمجھا جائے گا۔