• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیئرمین پی آئی اے نے کہا ہے طیارے میں آگ نہیں لگی تھی دھوپ کی وجہ سے گرم تھا، جبکہ چیئرمین نے چار پائلٹوں کو ڈگریاں جعلی ثابت ہونے پر برطرف کر دیا۔
آگ طیارے میں نہیں لگی ہو گی یہ تو بجبرو اکراہ مان لیا مگر کیا پی آئی اے کو بھی آگ نہیں لگی؟ وطن عزیز میں ترجیح حکومت حاصل کرنے، دولت اکٹھا کرنے، انتخابات جیتنے کے لئے سارے لچھن اختیار کرنے اور جمہوریت خطرے میں ہونے کا ڈھونڈورا پیٹنے کو حاصل ہے، ادارے جو ملک کے باسیوں کو روٹی دیتے تھے تباہ کر دیئے گئے اور باسی روٹی بھی محرومی کے مارے افراد کو نہیں ملتی ریلوے کے ادارے نے بھی پی آئی اے کی سنت اختیار کی اور آج یہ کماؤ پتر بھی ٹنڈا بنا دیا گیا ہے، آگے آگے کیا ہو گا یہ تو اب رام جانے کیوں کہ بھارت نے بھی ہمارا سارا بندوبست کر لیا ہے، پی آئی اے کے چار پائلٹوں کی ڈگریاں پرکھنے پر دو نمبر ثابت ہوئیں اس لئے انہیں گھر بھیج دیا گیا، بھیجنے والے کو اپنی ڈگری بھی کسی کو دکھا لینی چاہئے، اور دوسرے سارے پائلٹوں کی ڈگریاں بھی جانچ لینی چاہئیں
کہیں یہ نہ ہو کہ این خانہ ہمہ آفتاب است کے مصداق ہماری قومی ایئر لائنز ہمہ داغ داغ ثابت ہو جائے، حکمرانوں کو ملکی اہم اداروں مسائل گرانی، اور دوسرے انواع و اقسا م کے بحرانوں سے کوئی دلچسپی نہیں، وگرنہ ہمارے دریاؤں کے کنارے انسان نہ مرتے، کتے تو بہت دور کی بات ہے، کچھ ایسی ملگجی سی کیفیت ہے سارے ملک میں کہ بقول اکبر
جیسا موسم ہو مطابق اس کے دیوانہ ہوں میں
مارچ میں بلبل ہوں جولائی میں پروانہ ہوں میں
#####
ڈاکٹر مجاہد کامران وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی نے کہا ہے نئے علم کی تحقیق سے دوری کے باعث ایک ارب چالیس کروڑ مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
حیثیت تو ہے، ایک ارب چالیس کروڑ تعداد رکھتے ہیں یہ کوئی مذاق تو نہیں، نیا علم تخلیق کرنے کے بجائے نئے انسان جو تخلیق کر ڈالے یہ کیا کم فضیلت ہے، جو ہمیں ہینگ اور پھٹکری کے بغیر ہی حاصل ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے درد کی تار چھیڑ دی ہے، اگر کوئی صاحب دل ان کی آواز سن لے تو غور کرے اور شروع ہو جائے جو قومیں حکمرانوں اور دوسری قوتوں کی طرف امید کی نظروں سے دیکھتی ہیں، وہ اسی طرح نفری ہی بڑھا سکتی ہیں اپنی وقعت و منزلت میں اضافہ نہیں کر سکتیں، اقبال کی روح کو ہم کب خوش ہونے دیں گے جنہوں نے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے یوں فرمایا تھا
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
تان آ کر معلم پر ٹوٹتی ہے، ہم انتہائی کم پڑھے لکھے سے اپنے بچوں کے ذہنوں میں علم کی بنیاد رکھواتے ہیں، اور اس کا انجام یہ ہوتا ہے
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
(جب معمار پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھتا ہے تو ثریا تک دیوار ٹیڑھی ہی جاتی ہے۔)
#####
فردوس عاشق اعوان کہتی ہیں، ادھار کا کلچر نہیں چاہئے فلمی صنعت کو بحال کرنا ہو گا۔ ہمیں ماضی کی طرف دیکھنے کے بجائے آگے بڑھنا ہو گا:
فردوس عاشق اعوان کے یہ کہنے کہ ادھار کا کلچر نہیں چاہئے سے ہمیں یاد آیا
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
یہ جو ہمارے حکمران آئی ایم ایف، ورلڈ بینک وغیرہ سے ادھار پر ادھار لے کر فاقہ مستی میں سر تا پا غرق ہیں، اور کبھی کبھی اوپر آ کر سانس لے لیتے ہیں، مگر عوام سمندر کی تہہ میں بے جان پڑے ہیں، پہلے اس بیماری کا کچھ علاج کر لیں ڈاکٹر صاحبہ تو ہماری فلمی صنعت کو بھی ہوش آنے لگے گا، اور وہ نیم مردنی کی کیفیت سے نکل آئے گی، بحال کرنے کی بات کی ہے کہیں اور بے حال نہ کر دینا، کیونکہ ہمارے نامور گلوکار، فنکار جب دانہ چگنے نکلتے ہیں، تو انہیں خاک چھان کر بھی کچھ نہیں ملتا، بھارت نے اپنی فلم انڈسٹری کو ملک کا سفیر بنا دیا ہے اور اس پر ہُن برستا ہے، اس لئے جب وہ ہمارے کلا کاروں کو بلاتے ہیں تو یہ چلے جاتے ہیں، اگر لالی وڈ کے چہرے پر دڈ ہی وڈ نہ ہوتا لالی بھی ہوتی تو بھلا یہ ہمارے ہنر مند کیوں اُدھر کا رخ کرتے، دونوں ملکوں میں آنا جانا لگا رہنا چاہئے، مگر کچھ مانگنے کے لئے نہیں، اور یہ جو کلچر ادھار لینے کی بات ہے تو وزیر ثقافت اپنے کلچر پر توجہ دیں اسے آگے لے جائیں، پھر کیوں کسی سے ثقافت ادھار لینے کی نوبت آئے گی۔ بات یہ ہے کہ ابھی تک ہمارا کلچر نہیں بدلا اور کسی بھی دھرتی کا کلچر نہیں بدلا کرتا، اپنی فلم انڈسٹری کو ڈوبنے سے بچانا ضروری ہے۔
#####
امریکہ نے ڈرون حملوں میں نمایاں کمی اور بالآخر بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، حملوں کا مقصد خطے سے القاعدہ قیادت کا خاتمہ تھا جو بڑی حد تک پورا ہو گیا، یہ بیان ہے ایک امریکی افسر کا، اور ظاہر ہے مستند ہے ان کا فرمایا ہوا۔ امریکہ جس القاعدہ کو تلاش کرتے کرتے کسی کے گھر سے سب کچھ لے گیا، اور جب کچھ باقی نہ رہا تو اعلان کر دیا گیا کہ القاعدہ پہلے بے قاعدہ کی گئی اور آخر کار ختم ہو گئی، اب خوش خبری یہ ہے کہ امریکہ بہادر نے از خود ڈرون حملے بند کر دیئے، ہمارے حکمرانوں سے تو اوباما قسم لے لیں انہوں نے جب سے یہ شروع ہوئے اف تک نہیں کی، پاکستان کے سیانے لوگوں کو یہ ضرور علم ہو گیا ہے کہ امریکہ عام پاکستانی شہریوں کو القاعدہ سمجھتا ہے، اور اب اس کو یقین ہو چکا ہے کہ مزید ڈراؤنے حملے کم اور پھر بند کرنے کا وقت آگیا ہے، اور ادھر بے گناہ مارے جانے والوں کی قبروں سے یہ صدا بلند ہو رہی ہے
آ ہی جاتا وہ راہ پر غالب
کوئی دن اور بھی جئے ہوتے
اور جو زندہ ہیں وہ بھی ڈر کے مارے یہ کہہ رہے ہیں
میں کب کا جا چکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو
امریکہ کب تک سجی دکھا کر کھبی مارتا رہے گا، اب اس کا یہ کیمو فلاج بہانہ بھی فسانہ بن گیا ہے، اس لئے اوباما حضور! اپنی اور نیٹو کی پَنڈ باندھ کر سر پر رکھیں تاکہ امریکہ بھیجے گئے تابوتوں کی کچھ تو تلافی معافی ہو، اور امریکی ماؤں بیویوں کے بیسیوں خاوندوں کی آتماؤں کو کچھ تو قرار ملے رہ گئے ادھر کے مرنے والے تو ان کی روحیں تو جسم بھی ساتھ لے گئیں، ان کے پسماندگان کو امریکہ کیا بھیج سکتا ہے۔
#####
تازہ ترین