• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرپرستِ اعلیٰ پاکستان ہندوکونسل

عمومی طورپر ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنا بزنس شروع کرے، ایسے بہت سے لوگ ملازمتوں کو خیرباد کہتے ہوئے مختلف کاروباروں میں اپنی جمع پونجی لگابھی لیتے ہیں لیکن قسمت کی دیوی ہر ایک پر مہربان نہیں ہوتی، میری نظر میں اگر کوئی چاہتا ہے کہ وہ کاروبار میں نام اور پیسہ بنائے تو اسے سمجھنا چاہیے کہ ایسے طویل سفر میں مشکلات بے انتہا ہیں لیکن اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ اسکا وژن ٹھیک ہے یا نہیں ۔ بطور پاکستانی ہمارے لیے باعثِ فخر ہونا چاہیے کہ اس پیچیدہ موضوع پر جس عظیم دانا اور فلسفی شخص نے رہنمائی کے بنیادی اصول فراہم کیے وہ موجودہ سرزمین پاکستان کے تاریخی شہر ٹیکسلا کی قدیمی یونیورسٹی کے معلم اور شہنشاہ چندر گپت موریہ کے وزیراعظم کوٹلیاچانکیہ جی تھے جنکا نام آج ہزاروں سال گزر جانےکے باوجود ساری دنیا میں نہایت عزت و احترام سے لیا جاتا ہے ۔ چانکیہ جی وہ مہان ہستی تھے جنہوں نے اپنے فلسفیانہ علم کونہ صرف اپنی زندگی میں کامیابی سے ثابت کیا بلکہ ایسی لازوال کتابیں بھی تحریر کرگئے جنہیں آج ہزاروں سال بعد پڑھنے کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آج کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھی گئی ہیں۔چانکیہ جی کی مشہور کتاب ارتھ شاستر کو علم سیاسیات کی سائنس بھی کہا جاتا ہے لیکن میں ارتھ شاستر کو ترقی و خوشحالی اور امن و استحکام کی کتاب قرار دیتا ہوںجس کا مطالعہ ہر اس انسان کوکرنا چاہیے جو اپنی زندگی میں ترقی و خوشحالی یقینی بنانے کا خواہاں ہے، اسی طرح چانکیہ جی کی ایک اور کتاب چانکیہ نیتی حکمت و دانائی سے بھرپور ہے۔ چانکیہ جی نے بطور معلم اپنے شاگردوں کومقصد زندگی میں کامیابی کیلئے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا درس دیا، انکی نظر میں ایک لیڈر کا خاصا اخلاقیات ہوا کرتا ہے، اپنی کتاب ارتھ شاسترکے پہلے باب میں انہوں نے تحریر کیا کہ علم فلسفہ دنیا کے تمام سائنسی علوم میں ایک چراغ کی سی حیثیت رکھتی ہے اور انسان کے تمام اعمال اسکی سوچ کے تابع ہواکرتے ہیں۔ چانکیہ جی نے قرار دیا کہ کاروبارکی کامیابی کیلئے ٹھوس بنیادی اقدار بہت ضروری ہیں اور اصل اہمیت منافع کمانے کی نہیں بلکہ ان مثبت عوامل کی ہوتی ہے جو ایک کاروبارکے نتیجے میں معاشرے میں پروان چڑھتے ہیں مثلاََ روزگاری مواقع، سرمایہ کاری، کرنسی کی لین دین ،قومی خزانہ میں اضافہ، معاشی ترقی ،سماجی اقدار، وغیرہ وغیرہ۔چانکیہ جی کے مطابق اچھی منصوبہ بندی ایک ایسی روشنی ہے جو اندھیرے میں راستہ دکھلاتی ہے، ایک منظم منصوبہ ناموافق حالات میں بھی خاطر خواہ نتائج دینے کے قابل ہوتا ہے، اسی طرح کاروباری شخص کو نیا منصوبہ شروع کرتے وقت ہر پہلو سے اچھی طرح غوروفکر کرلینا چاہیے۔ آج دورِ جدیدکے کاروباری اداروں کے وژن اینڈ مشن بیانات اور نئے شروع ہونے والے پراجیکٹس کی فزیبیلٹی اسٹڈیز چانکیہ جی کے تصور کی عکاسی کرتی ہیں۔ چانکیہ جی کی نظر میں کوئی بھی کامیاب بزنس سات ستونوں پر قائم ہوتا ہے،سب سے پہلے سوامی (لیڈر/سربراہ)کاادارے کی کامیابی میں قائدانہ کردار ہوتا ہے، آج کی کارپوریٹ دنیامیںاس عہدےکوچیف ایگزیکٹو،مینیجنگ ڈائریکٹر، وغیرہ کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔چانکیہ جی کے مطابق ایک لیڈر کو بطور رول ماڈل کمیونٹی کی فلاح و بہبود کےلیے کام کرنا چاہیے، ایک لیڈر کا فرض بنتا ہے کہ وہ ظالم اور فسادی عناصر کی سرکوبی اور ایماندار افراد کی حوصلہ افزائی کرے۔اسکےبعداماتیا(منیجر)کانمبرآتاہےجوادارے کے سربراہ کے وژن کی کامیابی کےلیے اپنی تمام پیشہ ورانہ صلاحیتیں بروئے کار لاتا ہے۔ نمبر تین، جنا پڑا (مارکیٹ)کے بغیر بزنس کی کامیابی ممکن نہیں ہوسکتی، ایک کامیاب بزنس کےلیےسازگار مارکیٹ کی موجودگی بہت ضروری ہے۔نمبرچار،دُرگ(قلعہ/انفرااسٹرکچر) یعنی کہ ہیڈ آفس جہاں سے انتظامی و دیگر امورپرموثر گرفت قائم رکھی جاسکے اور مختلف پالیسیوں کی تیاری و نفاذ عمل میں لایا جائے۔ نمبر پانچ، کوشا (فنانس)یہ ایک حقیقت ہے کہ کاروبار کی کامیابی میں اہم فیکٹر سرمایہ کا ہوتاہے اور بیشتر کاروبار سرمایہ کی کمی یا غلط استعمال کی بدولت تباہی کے دہانےپر پہنچ جاتےہیں۔نمبرچھ،ڈنڈ(ٹیم ورک)یعنی کہ کاروبارسےوابستہ تمام ٹیم اراکین کو اپنا کرد ارادا کرنے دیاجائے ۔نمبرسات ،متر(دوست / مشیران)یعنی ادارے کو اپنے کاروبار میں پھیلاؤ کے لیے ہمیشہ مزید کاروباری دوستوں، مشیران، بزنس پارٹنرز اور کنسلٹنٹس کی تلاش میں رہناچاہیے۔ یوں چانکیہ جی نے ہزاروں سال پہلے ہی یہ بتلا دیا تھا کہ اگر کوئی بزنس اپنی بنیادیں ان سات ستونوں کو استوار کرلیتا ہے تو وہ کاروباری دنیا کے تمام تر چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے کبھی مات نہیں کھا سکتا۔ آج جب میں بیشتر اچھے کارپوریٹ اداروں کو اپنے ملازمین کےلیے مراعات، کارپوریٹ سوشل ریسپونسیبلیٹی (سی ایس آر) اور وومن پراٹیکشن کو اپنی ترجیحات میں شامل کرتے دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں چانکیہ جی کا خیال آجاتا ہے جنکے مطابق ایسے سماج کا قیام ہماری ترجیح ہونا چاہیے جہاں مادیت پرستی کا راج نہ ہو بلکہ روحانیت پر بھی توجہ دی جائے، چانکیہ جی نے اپنی کتاب میں تمام لوگوں کی سوشل سیکورٹی یقینی بنانے بالخصوص خواتین کو استحصالی قوتوں سے محفوظ رکھنے کی ضرورت پر زور دیاتھا، وہ چاہتے تھے کہ ریاست زیادہ سے زیادہ کامیاب کاروباری منصوبوںکےلیے سازگار حالات پیدا کرے تاکہ ٹیکس کے ذریعے عوامی منصوبوںکےلیے قومی خزانے میں اضافہ کیا جاسکے۔ چانکیہ جی کے مطابق کٹھن حالات کا مقابلہ کرنا بے ایمان انسان کی بس کی بات نہیں،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کامیاب کاروبار کو دیانتداری اور اصول پسندی سے مشروط کردیا،چانکیہ جی نے کامیاب بزنس مین کی نشانی بتلائی کہ وہ تمام ملکی قوانین کی پاسداری کرتےہوئے اپنی قومی ذمہ داریاں پوری کرتا ہے، وہ ٹیکس چوری اور رشوت پر نہیں بلکہ سماجی خدمت اور معاشی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے پر یقین رکھتا ہے، کامیاب بیوپاری اپنے معاشرے سے لینے سے زیادہ دینے کو اپنی ترجیح بناتا ہے، وہ اپنی کاروباری ذمہ داریاں کسی دباؤ کے نتیجے میں نہیں بلکہ ہنسی خوشی احسن طریقے سے ادا کرتا ہے۔ ایسے اعلیٰ اخلاقی اوصاف پر اپنے کاروبار کو مستحکم کرنے والے کو چانکیہ جی نے راجا رِشی کا نام دیا ہے جو ایک طرف متحرک اور قائدانہ کردار ادا کرتا ہے اور دوسری طرف روحانی اقدار کو فروغ دیتا ہے۔ چانکیہ جی کرپشن کو ایک سماجی ناسور سمجھتے تھے اور اپنی کتابوں میں انسدادِکرپشن کا درس دیتے نظر آتے ہیں، انکا ماننا تھا کہ ایک ملازم کےلیے کسی صورت جائز نہیں کہ وہ سرکاری خزانے میں خوردبرد کرے، چانکیہ جی سمجھتے تھے کہ پیشہ ورانہ امورمیں قریبی ذاتی تعلقات کرپشن اور اقربا پروری کی راہ ہموار کرتے ہیں، وہ مضبوط ٹیم ورک اور ہائرنگ کے وقت امیدوارانِ ملازمت کے بیک گراؤنڈ چیک کے بھی حامی تھے، چانکیہ جی نے کرپشن کے خاتمےکےلیےبھی تجاویز مرتب کیں مثلاََ افسران اور ملازمین کےپیشہ ورانہ امور کی کڑی نگرانی کی جائے، ایمانداری سے کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، کرپشن کی اطلاع دینے والے کو انعامات سے نوازاجائے، غلط اطلاع دینے والے کو سخت سزا دی جائے، کسی بھی افسر کو مستقل ایک جگہ تعنیات نہ کیا جائے بلکہ باقاعدگی سے مختلف ڈیپارٹمنٹس میں تبادلہ کیا جائے اور سب سے اہم احتسابی نظام کو فروغ دیا جائے۔ آج دنیا بھرکے نامور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مختلف پروفیشنل شعبوں بشمول بزنس ایڈمنسٹریشن کے نصابِ تعلیم میں چانکیہ جی کی کتابوں سے استفادہ حاصل کیا جارہا ہے اور مختلف ریسرچ رپورٹس سے چانکیہ جی کی تعلیمات کو دورجدیدسے ہم آہنگ ثابت کیا جارہا ہے لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم انہیں انکی اپنی جنم بھومی پاکستان میں مذہبی تعصب کی بناء پر نفرت کا نشانہ بناتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمیں پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو ہمیں سب سے پہلے تاریخ سے انصاف کرنا ہوگا اور چانکیہ جی جیسے عظیم فلسفی استادکےلیے عزت و احترام یقینی بنانی ہوگی ۔میں آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ اگر کوئی اپنے کاروبار میں ترقی چاہتا ہے تو وہ ایک دفعہ چانکیہ جی کی تعلیمات کا مطالعہ ضرور کرے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین