اسلام آباد(ایجنسیاں) وزیراعظم عمران خان نے کرپشن کے خاتمے اور بدعنوان افراد کے کڑے احتساب کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ لوگ جو مرضی کر لیں‘جتناچاہیں شورمچالیں احتساب ضرور ہوگا، کان کھول کر سن لیں کسی کو این آر او نہیں ملے گا، بعض جماعتیں احتساب کا عمل رکوانے کے لئے دباؤ ڈال رہی ہیں لیکن ہم کسی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے، کسی کرپٹ شخص کو نہیں چھوڑوں گا، عوام سے وعدہ کیا ہے کہ کرپٹ افراد کو جیلوں میں ڈالیں گے‘ قوم بالکل فکر نہ کرے، تھوڑی دیر کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، پاکستان کو کرپشن کے کینسر نے مفلوج کر دیا ہے، ہم اس کرپشن کے کینسر کو نکال رہے ہیں‘ سعودی عرب سے زبردست پیکیج مل گیا ہے، مزید2 دوست ممالک سے بھی بات چل رہی ہے ‘ قوم کو جلد مزید خوشخبری سناؤں گا‘غریب اور کمزور طبقات کی فلاح و بہبود اورغربت میں کمی کے لئے خصوصی پیکیج کا اعلان جلد کیا جائے گا، پاکستان جلد قرض لینے کی بجائے قرض دینے والے ممالک کی صف میں شامل ہوگا، یمن میں لڑائی سے پوری مسلم امہ کو تکلیف ہے، پاکستان یمن جنگ میں ثالث کا کرداراداکریگا‘30ہزار ارب روپے کے قرض کا آڈٹ کرایاجائے گا‘منی لانڈرنگ پر ہاتھ ڈال رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کی شب قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب کے آغاز میں کہا کہ وہ پاکستانی قوم کو خوش خبری سنانا چاہتے ہیں۔ اﷲ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ سعودی عرب سے زبردست پیکیج مل گیا ہے اور اس کی وجہ سے قرضوں کا بوجھ بھی کم ہو گیا ہے‘انہوں نے کہاکہ ہمیں اقتدار سنبھالتے ہی قرضوں کے بوجھ کا سامنا کرنا پڑ گیا، ہم نے قرضوں کی قسطیں واپس کرنا ہیں، یہ قرضے ہماری پہلے کی حکومتوں نے لئے تھے، اگر وہ قسطیں واپس نہ کرتے تو ملک ڈیفالٹ کر جاتا‘ آئی ایم ایف ایسی شرائط لگا دیتی ہے جس سے عوام کو تکلیف پہنچتی ہے اور مہنگائی ہو جاتی ہے۔ اس ضمن میں دباؤ یہ تھا کہ ہم سیدھا آئی ایم ایف کے پاس چلے جاتے لیکن اس سے زیادہ قرضہ لیتے تو اس کا نقصان عوام کو ہوتا‘ہم کوشش کر رہے تھے کہ ہم دوست ممالک سے قرضہ حاصل کریں اور آئی ایم ایف سے کم سے کم قرضہ لیا جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اﷲ کا شکر ہے کہ ہم اس کاوش میں کامیاب ہوئے۔ سعودی عرب سے زبردست پیکیج مل گیا اور اس کی وجہ سے ہمیں امید ہے کہ آئی ایم ایف سے جتنا قرضہ لیں گے اس سے زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا۔دیگر دوست ممالک سے بھی بات ہو رہی ہے اور اس ضمن میں اگر ہمیں مزید معاونت ملتی ہے تو ہم اپنے عوام بالخصوص تنخواہ دار طبقہ، جو پہلے ہی مہنگائی میں پسا ہوا ہے، ان پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالیں گے۔وزیراعظم نے ملک کی سیاسی صورتحال اور قرضوں کے بوجھ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ1971ءمیں پاکستان کا قرضہ 30 ارب روپے تھا۔ منگلا ڈیم بنا، تربیلا ڈیم بنا، انفراسٹرکچر بنے، 60ءکی دہائی میں پاکستان تیزی سے اوپر گیا ‘ 2008ءمیں قرضہ گزشتہ 40 سالوں میں بڑھ کر 30 ارب روپے سے 6 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا جبکہ پچھلے 10 سالوں میں پاکستان نے 30 ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ جماعتیں بار بار کہہ رہی ہیں کہ حکومت ناکام ہو گئی، یہ سب اکٹھے ہو گئے ہیں‘ انہوں نے کہا کہ 10 سالوں میں اس ملک کے اندر قرضہ کو 6 ہزار ارب روپے سے بڑھا کر 30 ہزار ارب روپے کر دیا گیا۔ دوسری جانب گردشی قرضہ کا بوجھ ہے۔ 2013ءمیں 480 ارب روپے کا گردشی قرضہ تھا۔ 2009ءمیں 230 ارب روپے سے 2013ءمیں 480 ارب تک پہنچ گیا اور آج یہ گردشی قرضہ 1200 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت 40 ارب روپے کا ورکرز ویلفیئر فنڈ بھی کھا گئی۔ پنجاب حکومت 1200 ارب روپے کا قرضہ چھوڑ کر گئی ہے۔ ورکرز کا پراویڈنٹ فنڈ، اسٹیل مل میں ورکرز کا پیسہ کھا گئے۔ ان لوگوں نے گزشتہ دس برسوں میں یہ تباہی مچائی ہے، آج جمہوریت کو بچانے کے لئے یہ سب اکٹھے ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی آگے چل کر لوگوں کو پتہ چلے گی، ابھی تو جو یہ نقصان کر کے گئے ہیں ہم انہیں ٹھیک کر رہے ہیں۔ان سب کو پتہ ہے کہ ہم تیس ہزار ارب روپے کا آڈٹ کروائیں گے اور ان کی کرپشن سامنے آئے گی، اس کرپشن کو بچانے کے لئے یہ احتجاج کرنے کے لئے تیار ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں جو کچھ انہوں نے کیا، وہ کسی ملک میں نہیں ہوتا۔ ان کی صرف یہ کوشش ہے کہ کسی طرح ہم ان کو این آر او دے دیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کو این آر او دیئے لیکن میں ان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ کان کھول کر سن لیں، ہم ان کو احتجاج کے لئے کنٹینر دینے کو تیار ہیں، ہم کھانا بھی پہنچائیں گے لیکن یہ جو مرضی کرلیں ان کو این آر او نہیں ملے گا۔وزیراعظم نے بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کی گھمبیر صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہاں منی لانڈرنگ کی گئی ہے، فالودے والے کے پاس اڑھائی ارب روپے، کسی مرے ہوئے فرد کے اکاؤنٹ میں دو ارب روپے اور چھابڑی والے کے اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے کہاں سے آئے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ عوام کا پیسہ چوری ہو رہا ہے، یہ پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر جا رہا ہے۔ یہاں ڈالروں کی کمی ہوتی ہے اور ہمیں باہر سے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تھوڑا سا ہمیں ڈرائیں گے اور ہم کسی طرح ان کو چھوڑ دیں گے اور این آر او دے دیں گے‘ وزیر اعظم نے کہا کہ جب قوم مقروض ہو جاتی ہے تو مہنگائی کے ذریعے قرضوں کا سارا بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔اس طرح پاکستان میں یہ سائیکل چل رہا ہے‘ یہ سائیکل توڑنے کے لئے احتساب ہوگا‘وزیراعظم نے کہا کہ یہ تمام کیسز پرانی حکومت کے ہیں، ہم نے تو ابھی کچھ کیا ہی نہیں، ابھی ہم یہ پتہ چلا رہے ہیں، پی آئی اے پر 400 ارب روپے کا قرضہ چڑھا ہوا ہے، اسٹیل ملز پر ساڑھے تین سو ارب روپے کا قرضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آڈٹ کرا رہے ہیں، ابھی تو ہم نے کچھ بھی نہیں کیا‘وزیراعظم نے کہا کہ قوم بالکل فکر نہ کرے، اگر روپے کی قدر گر گئی ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں‘جب ہم کرپٹ قیادت کو برداشت کرتے ہیں تو قوم بالخصوص غریب عوام کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ ہم منی لانڈرنگ پر ہاتھ ڈال رہے ہیں،ہم ملک کے اداروں کو مضبوط کر رہے ہیں، برآمد کنندگان کی مدد کر رہے ہیں، ملک کی برآمدات بڑھائیں گے، اس کے لئے ون ونڈو آپریشن کی سہولت فراہم کریں گے، سرمایہ کاروں کو لانے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔ ترسیلات زر میں اضافہ کے لئے کوشاں ہیں۔ وزیراعظم نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر زور دیا کہ وہ جو پیسہ باہر سے بھجوائیں، قانونی طریقے سے بھجوائیں۔ عمران خان نے نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم غریب عوام کے لئے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے لئے ہاؤسنگ اسکیم لے کر آئے ہیں، اس سے منسلک 40 صنعتیں فعال ہوں گی، نوکریاں پیدا ہوں گی، عام نوجوانوں کو کنسٹرکشن میں جانے کا موقع ملے گا، ہمارے بہت سے بیرون ملک پاکستانی کنسٹرکشن کے شعبہ سے منسلک ہیں، وہ بھی پاکستان میں واپس آ جائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ قوم نے صرف ایک کام کرنا ہے کہ یہ سمجھ جانا ہے کہ ہم نے تھوڑی دیر کے لئے ان مشکلات کا سامنا کرنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ لوگ باہر سے سرمایہ کاری کے لئے تیار ہیں، بیرون ملک پاکستانی بھی سرمایہ کاری کے لئے تیار بیٹھے ہیں لیکن وہ دیکھ رہے ہیں کہ سرمایہ کاری کا یہاں کیا ماحول ہے کیونکہ پہلے وہ جب آتے تھے تو ہر کوئی پیسہ مانگ رہا تھا جس کی وجہ سے وہ دوبئی میں سرمایہ لگا دیتے تھے۔