• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلزپارٹی ملک کی تاریخ میں اس وقت سب سے کم مقبولیت کے گراف کی طرف مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ مغربی پاکستان اور بالخصوص پنجاب کی مقبول ترین سیاسی جماعت نے اب تک اپنی مقبولیت کی کمی کا عوامی جائزہ بھی نہیں لیا۔ اب یہ جماعت سندھ کی حد تک محدود ہوچکی ہے اور قرائن بتاتے ہیں کہ اگلے عام انتخابات میں ان کو ملک بھر میں امیدوار تلاش کرنا پڑیںگے اور غالباً 272؍ حلقوں میں بہت سے حلقے پیپلزپارٹی کے امیدوار کا نام بھی نہ سن سکیں گے۔ ایسے حالات میں جب کہ ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے و الے امیدوار آصف زرداری کی تصویر بھی اپنے پوسٹرز پر شائع کرنے سے انکاری ہوں جناب آصف علی زرداری پنجابی فلموں کے مظہر شاہ اور ساون کی طرح بڑھکیں لگا کر مار کھانے کی رسم کو آگے لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ چند ماہ قبل اسلام آباد میں ہوشیار ہوشیار اور ہوشیار کے نعرے بلند کرتے جناب زرداری نے صورتحال کا احساس کرتےہو ئے اب فرمادیا ہے کہ سیاست یا احتساب میں فوج کا کردار تلاش کرنا مناسب نہیں اور کراچی میں منظم جرائم اور بھتہ خوری بھیانک سازش ہے۔ پیپلزپارٹی اور بالخصوص سندھ کی حکومت جس انداز کے ساتھ احتساب اور وفاقی اداروں کی کارروائی کے حوالے سےگفتگو کررہےتھے وہ اس بات کی غماز تھی کہ مضبوط ارادے اور طریقے کیساتھ احتساب شروع ہواہے۔جناب آصف زرداری نے آرمی چیف کی طرف سے مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کا جو عندیہ دیا اس کوبھی قبل از وقت اعلان قرار دے رہا ہے۔جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالہ سےجناب زرداری کی جماعت کہتی ہےکہ جنرل پاشا فائل تیار کروا کے آئے تھے اور یوسف رضا گیلانی کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ جہاں تک عوامی امید کا مایوسی میں تبدیل ہونا ہے تو گزشتہ حکومت سے زیادہ کسی بھی حکومت کو مایوس کن قرار نہیںدیا جاسکتا۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ ملکی سلامتی اور استحکام کے لئے فوج کا کردار شاندار ہے اور یہ کہ سیاسی قیادت قومی مفاد میں فیصلہ کرے۔ گویا جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کردی اور سبھی سیاسی جماعتیں اس کا بار اٹھائیں تاکہ کسی کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جاسکے قوم اور سیاسی قوت و قیادت دہشت گردی کے خلاف فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اس کو ختم کریں۔ جناب آصف زرداری اگر خود وضاحت کردیں کہ امریکہ میںبیٹھ کر ان کو اس طرح کے خیالات کیوں آرہے ہیں اور جو کچھ وہ پہلے کہتے رہے اس کا جواز تھا بھی یا نہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے 4؍ مرتبہ اقتدار سنبھالا اور چاروں مرتبہ طاقت ور اداروں کی مدد شامل حال رہی 71ء میں اقتدار فوج نے ان کے حوالہ کیا، 88ء میں امریکہ اور فوج کی مدد موجود تھی، 93ء میں بھی یہی کچھ تھا 2008ء میں بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ بظاہر پی پی پی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے مگر عملی طور پر معاملات باہمی تعلقات میں لین دین کےساتھ طے کرنے میں اس جماعت کی قیادت کبھی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوئی یہاں تک کہ محترمہ بےنظیر بھٹو اور نصرت بھٹو مرحومہ نے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا ۔ جنرل مشرف تو خود اس کا کئی بار اظہار کرچکے ہیں کہ معاملات طے پائے تھے کچھ معاملات ابھی بھی منظرعام پر نہیںآئے محترمہ کی شہادت نے واقعات کا رخ موڑ دیا تھا ورنہ وہ وزیراعظم اور مشرف صدر پاکستان ہوتے۔
آج کے حالات میں یہ بات عیاں ہے کہ معاملات سول اور فوجی قیادت باہمی اتفاق کے ساتھ چلارہی ہے جس طرح اقتصادی راہداری کو مکمل کرنے کا یقین جنرل راحیل شریف دلاتے ہیں اور اس راہداری کو گیم چینجر کہا جارہا ہے تو یہ غلط نہیں پوری کی پوری معیشت، اقتصادیات، سماجی ماحول، دفاع اور سیاسی حالات میں تبدیلی ہوکر رہے گی اگر ملک کو ترقی دینا مقصود ہے تو عام آدمی تک وسائل کا ہونا اور سماجی انصاف کا مکمل بحال ہونا ازحد ضروری ہے اگر وسائل غلط استعمال ہوںگے، کرپشن ختم نہ ہوگی اور دہشت گردی کو حوصلہ دینے والے عناصر کا قلع قمع نہ ہوگا توپاکستان میں سیاسی استحکام بھی نہ ہوسکے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جناب زرداری یہ بات تسلیم کرلیں کہ ان کی اپنی وجہ سے بہت خرابی ہوچکی ہے اور اب اسکا دفاع نہیں ہوسکتا خواہ راحیل شریف رہیں یا نہ رہیں۔
تازہ ترین