• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غزالہ خالد

بچپن میں سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال " ابو زیادہ اچھے لگتے ہیں یا امی‘‘مجھے زہر لگا کرتھا اور آج بھی لگتا ہے۔ناگہانی کسی معصوم ننھی سی جان کو مشکل میں ڈالنا ، سب جانتے ہیں کہ ننھے بچوں کی پوری دنیا صرف ان کے والدین ہوتے ہیں، اب ان میں سے کسی ایک کا نام لینا بچوں کو مشکل ترین لگتا ہے ۔اس سوال کے جواب میں اکثر میرے دل میں آتا کہ کہہ دوں کہ "امی زیادہ اچھی لگتی ہیں " کیونکہ قدرتی طور پر بچہ اپنی ماں کے زیادہ قریب ہوتا ہے کچھ طلب اور رسد کا رشتہ بھی ہوتا ہے۔ ماں اپنے بچے کی تمام بنیادی ضروریات بچپن کے لحاظ سے مثلاً کھلانا ، پلانا، نہلانا، دھلاناِ ، سلانا وغیرہ وغیرہ ،باپ کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور پر کر رہی ہوتی ہے، اس لئے بچہ بھی باپ کے مقابلے میں ماں سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ لیکن جب ابو کا چہرہ نگاہوں میں آتا تو میں رک جاتی کہ " نہیں نہیں ایسا تو نہیں ہے کہ امی زیادہ اچھی ہیں ،ابو بھی بہت بہت اچھے ہیں ، ایسے کیسے کہہ دوں کہ امی اچھی ہیں " اور یہی کیفیت میں نے ہمیشہ ہر اس بچے کے چہرے پر دیکھی جس سے یہ سوال پوچھا جا تا ،اس میں میرےبچے بھی شامل ہیں اور آج بھی جس بچے سے یہ سوال پوچھا جائے، وہ ایک گومگو کی کیفیت میں مبتلا نظر آئے گا۔ عمر بڑھتی گئی سمجھ آتی گئی اور رشتے بھی بڑھتے گئے ،مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ جذباتی ہوتی ہیں ، محبتوں میں شدت پسندی بھی ہوتی ہیں اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں بہت جذباتی ہوں۔ مجھے اپنی عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمہ وقت یہ احساس رہا کہ جیسے میرے دل کے بہت سے ٹکڑے ہیں اور ہر ٹکڑے پر میرا کوئی نہ کوئی پیارا رشتہ قابض ہے ، جب دل میں جھانک کر دیکھتی ہوں تو بے شمار لوگ مسکراتے نظر آتے ہیں ، کبھی کبھی دنیا کے دھندوں میں الجھ کر کسی کو کچھ دنوں کے لئے بھول بھی جاؤں تو دل کے ٹکڑے کی دستک ایسی ہوتی ہے کہ وہی سب سے پیارا لگنے لگتا ہے ۔ بچپن میں ماں باپ ہی سب کچھ تھے ،پھراُن کے ساتھ بہن بھائی کی محبت شامل ہوئی، ہوش سنبھالا تو پتہ چلا کہ کچھ اور رشتے بھی ایسے ہیں جو دل میں ایک بڑی جگہ پر قابض ہیں ، پہلے لگتا تھا کہ دل کے صرف دو ٹکڑے ہیں، ایک میں ابو رہتے ہیں اور دوسرے میں امی۔ لیکن پھر اندازہ ہوا کہ، نہیں میری چونکہ کوئی بہن نہیں اس لئے دونوں بھائیوں نے میرے دل کے بڑے بڑے ٹکڑوں پر قبضہ کیا ہوا ہے ، اس کے علاوہ بھی کچھ ٹکڑوں پر کچھ بہت پیارے خونی رشتوں کا قبضہ الگ تھا جو آج تک ہے ، پھر شادی ہوگئی اور مٹھی بھر دل کا ایک بڑا سا ٹکڑا میاں صاحب نے ہتھیا لیا اور ایک اجنبی نے دل کے اس ٹکڑے پر ایسا قبضہ جمایا کہ سب کو پیچھے چھوڑ دیا ،خود آئے سو آئے، اپنے ساتھ ساتھ ما شائاللہ تین عدد اولادوں کو بھی ساتھ لے آئے، تب پتہ چلا کہ اوہو، یہ اولاد تو دل کی سب سے تگڑی مکین ثابت ہوئی ۔لیکن وہ طاقتور اولاد بھی دل کے باقی مکینوں کو بے دخل نہیں کرسکی وہ سب میرے دل کے الگ الگ ٹکڑوں میں اسی طرح آباد رہے، ساتھ ساتھ بھائیوں کی بھی شادی ہوگئی، بھابیاں آئیں تو دل نے ان کو بھی خوش آمدید کہہ دیا، ان کے ساتھ ساتھ ان کے بچے بھی آتے گئے اور چپکے چپکے میرے دل میں سماتے چلے گئے،ان سب کی خوشی میری خوشی اور ان سب کا غم میراؐغم،کبھی لبوں سے ایسی دعا ہی نہیں نکلی جس میں، میں اپنے دل کے ٹکڑوں کو بھول جاؤں۔ اکثر سوچا کرتی تھی کہ اس موضوع پر لکھوں گی یا دوسری خواتین سے بھی آراء لوں گی کہ، کیا سب عورتیں ایسا ہی محسوس کرتی ہیں ؟لکھنے میں اتنی سستی کی کہ بچوں کی شادی کا وقت آگیا اور ایک پیاری سی ،خاموش سی ،معصوم سی لڑکی بہو بن کر ہمارے گھر میں آگئی ،لو بھئی اب دل کو وسعت تو دینی ہی تھی ناں ، وہ جو ہمارے بیٹے کے لئے اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئی تھی تودل کے ایک ٹکڑے کا مالک تو اسے بننا ہی تھا، سواب وہ بھی میرے دل میں بستی ہے، اس کے بغیر بھی مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا۔ ا ب بہو کو اکیلے تو نہیں آنا تھا ناں الحمداللہ میرے دل کا سب سے پیارا مکین میری معصوم سی پوتی بھی آگئی اور ایسے دھڑلے سے آئی کہ آج کل میرے دل پر اس ہی کی حکومت ہے ،اسے کسی کے ووٹوں کی ضرورت نہیں پڑی، خود بخود وزیر اعظم بن بیٹھی ہے اور وزیر اعظم بھی ایسا سخت گیر کہ اس سے پوچھے بغیر کسی سے ملنے کی اجازت بھی نہیں ،اپنے آپ میں ایسا مصرووف رکھتی ہے کہ کہیں نظر اٹھانے کا دل بھی نہیں چاہتا ۔ اللہ تعالی نے مجھ پر مزید کرم کیا ایک نیا داماد اور ایک نئی بہو مزید میرے دل میں جگہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اس میں کامیاب ہوتے بھی نظر آرہے ہیں۔ اللہ سے یہی دعا ہے کہ وہ بھی میرے دل کے بقیہ مکینوں کی طرح ہمیشہ شادوآباد رہیں اور ہم سب کی خوشیوں میں اضافے کا باعث بنیں ( آمین )۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ شائد ہر عورت کے دل کے اتنے ہی ٹکڑے ہوتے ہوںگے، مرد بھی بلا شبہ اپنے رشتوں سے اسی طرح محبت کرتے ہوںگےلیکن بس ایک بات بہت اہم ہے کہ ہوسکتا ہے ہر مردوعوورت کے دل کے اتنے ہی ٹکڑے ہوں ،ہر انسان کے دل میں رشتوں کی محبت قدرتی طور پر اللہ تعالی نے ڈالی ہے ۔لیکن ان دل کے ٹکڑوں کو سنبھالنا اتنا آسان نہیں ہوتا ،کبھی صبر کرکے تو ،کبھی برداشت کرکے ، کبھی ضبط کرکے تو کبھی ناگوار باتوں کو نظر انداز کرکے ، کبھی خاموش رہ کر تو کبھی بول کر ان رشتوں کو سنبھالنا پڑتا ہے ، کبھی کبھی دل میں رہنے والے بھی جانے انجانے میں دل دکھا جاتے ہیں ،سنبھلنا پڑتا ہے ، دل میں رہنے والوں کو اتنی آسانی سے دل سے نہیں نکالا جاتا "یوار بھی دل پہ اور راج بھی دل پہ "یہ سنا تو ہے لیکن کبھی کبھی اس سے پالا بھی پڑ جاتا ہے ، جھیلنا بھی پڑتا ہے اور بھولنا بھی پڑتا ہے ، دل تک جانے والے راستے کو اپنوں کے لئے سجا کر بھی رکھنا پڑتا ہے ، دل کے حقدار اتنی آسانی سے قابو نہیں آتے ،کبھی آنسوؤں سے آبیاری کرنی پڑتی ہے تو کبھی خون دل دینا ُپڑتا ہے ورنہ یہ سارے مکین آہستہ آہستہ ہمارے دل کو ویران کر کےچلے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ سکھ چین سب رخصت ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالی میرے دل کے ساتھ ساتھ سب کے دل کے ٹکڑے جُڑے رہیں۔

تازہ ترین