• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکی برآمدات میں ماہی گیری کی صنعت کوہمیشہ اہم حیثیت حاصل رہی ہے ۔بد قسمتی سے کسی بھی دور حکومت میں سمندروں کی صفائی کیلئے موثر اور جدید نظام اپنانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی جس سے بتدریج ہمارے ساحل آلودہ ہوتے رہے اور اب حالت یہ ہےکہ سمندری آلودگی کے باعث مچھلیوں کی افزائش میں روز بروز کمی آرہی ہےجس کے براہ راست منفی اثرات ماہی گیری کی صنعت پر مرتب ہو رہے ہیں جبکہ کراچی کے ساحلی علاقے مبارک ولیج میں بڑی مقدار میں تیل پھیلنے کے حالیہ واقعہ میںہی کئی لاکھ مچھلیاں مردہ پائی گئیں۔دوسری جانب بعض نئی حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے بھی کراچی کے سمندر میں ماہی گیری کرنے والی 7ہزار لانچوں اور بیس لاکھ مچھیروں کے روزگار کو بھی شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ اپوزیشن اراکین کی جانب سے دی گئی درخواست میں بتایا گیا ہےکہ حکومت کی جانب سے ایسی غیر ملکی بوٹس کو لائسنس جاری کئے گئے ہیں جو ماہی گیری کی بجائے سمندر کے پانی سے مچھلی کو مشینوں کے ذریعے کھینچتی ہیں۔جس سے مچھلی کے انڈے اور چھوٹے بچے بھی جال میں آجاتے ہیں۔اسی باعث مقامی ماہی گیروں کی بڑی تعداد گزشتہ دو ماہ میں بیروزگار ہوگئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی آغا رفیع اللہ جان نےیہ بھی انکشاف کیا کہ مقامی ماہی گیروں کو کہا جارہا ہے کہ وہ بھی بھاری فیسیں دے کر لائسنس حاصل کریں اور مچھلی پکڑنے کی بجائے اسے کھینچنے کی مشینوں کااستعمال کریں۔یہ مقامی صنعت کے ساتھ ساتھ سمندری حیات کی بقا کا بھی نہایت سنجیدہ معاملہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پربھی اس کا نوٹس لیتے ہوئے نئی مشینوں کے استعمال پر پابندی لگائی جائے یا قواعد و ضوابط وضع کر کے انہیں ان کا پابند بنایا جائے۔ اگر اس اہم معاملے پر توجہ نہ دی گئی تو ہمارے سمند رمیں آبی حیات کی نشوونما جو پہلے ہی کئی مختلف خطرات سے دوچار ہے ،بالکل ختم ہوجائے گی۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین