• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو دعویٰ کرے وہ ثابت بھی کرے،مسلمہ قانونی اصول ہے، چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) چیف جسٹس مسٹر جسٹس ثاقب نثار نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ یہ قانون کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ جو شخص کلیم کرتا ہے اس کو ثابت بھی کرنا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پس یہ استغاثہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام کارروائی میں ملزم کے ارتکاب جرم کو ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر بنیاد پر ہر طرح کے شک وشبہ سے بالاتر ہو کر ملزم کے خلاف جرم کا ارتکاب ثابت نہ کر دے۔ شفاف سماعت مقدمہ جو کہ ازخود فوجداری اصول قانون کا بنیادی جُز ہے اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک منصفین خود واضح طور پر اس معیار ثبوت کے بنیادی نظریے کی توجیح نہ کریں گے جس پر کاربند ہونا استغاثہ کیلئے سزا کے احکامات حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے۔ دو نظریات یعنی ’’شک وشبہ سے بالا تر ہوکر ثابت کرنا‘‘ (a proof beyond reasonable doubt ) اور ’’قیاس بے گناہی‘‘ (a presumption of innocence) ایک دوسرے سے اس قدر منسلک ہیں کہ ان کو ایک ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر ’’قیاس بے گناہی‘‘ فوجداری اصول قانون کی طلائی کڑی (اصول) ہے تو ’’ شک وشبہ سے بالاتر ہوکر ثابت کرنا‘‘ نقرئی کڑی (اصول) ہے اور یہ دونوں کڑیاں ہمیشہ سے ہی فوجداری نظام انصاف کے بنیادی ڈھانچے کا اہم حصہ رہی ہیں۔ جیسے اصول ’’ شک وشبہ سے بالا تر ہوکر‘‘ فوجداری انصاف کیلئے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ان اصولوںمیں سے ایک ہے جو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ کسی معصوم کو سزا نہ ہو۔ جہاں کہیں بھی استغاثہ کی کہانی میں کوئی جھول ہوتا ہے اس کا فائدہ ملزم کو دیا جانا چاہئے جو کہ فوجداری انصاف کی محفوظ فراہمی کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ مزید برآں ! شبہ جس قدر بھی مضبوط اور زیادہ ہو کسی طور پر بھی فوجداری مقدمے میں ضروری بار ثبوت کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ملزم اور گواہان/شکایت گزار کے مابین عناد کی موجودگی میں عام طور پر گناہ یا بے گناہی کو ثابت کرنے کیلئے اعلیٰ ترین معیار ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر استغاثہ کے گواہان ملزم کیلئے عناد رکھتے ہوں تو وہ شک کے فائدے کے اصول کی بناء پر بریت کا حقدار ہوتا ہے۔ اس ضمن میں عدالت ہذا کے درج نظائر پر انحصار کیا جاتا ہے۔

تازہ ترین