• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

وزیراعظم عمران خان کڑا احتساب ضرور کریں، مگر مہنگائی کا جن بھی بوتل میں بند کریں

25 جولائی کے انتخابات کے نتیجہ میں بننے والی وزیراعظم عمران خان کی حکومت اپنے اقتدار کی رکاوٹوں کو کسی حد تک مسلتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف قومی اسمبلی اورسینٹ میں اپوزیشن ابھی تک متحد ہونے کیلئے ’’ٹی او آر‘‘ پر ہی گفتگو شروع نہیں کرسکی۔ جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف کی کامیابی پر مبنی انتخابی نتائج سے اختلاف کرتے ہوئے مسلسل اس کے خلاف نہ صرف خود احتجاج کررہے ہیں بلکہ پنجاب میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی متحد کرکے عمران خان حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس بنانے کے خواہاں ہیں، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی خواہش کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین وزیراعظم کے انتخاب اور صدارتی انتخاب کے موقع پر اتحاد کا عملی مظاہرہ نہ کرسکی جس کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن کی مسلسل کوششوں کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) اپوزیشن کے’’ ٹی او آر‘‘ پر ہی گفتگو کا آغاز نہیں کرسکے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف ایک ماہ سے کے قریب کا جسمانی ریمانڈ کاٹ چکے ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹریز کے سربراہ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے خلاف بھی جعلی بنک اکائونٹس میں گھیرا تنگ ہوچکا ہے۔35ارب روپے کے غیر ملکی بنک اکائونٹس سے شرو ع ہونے والی بات کے 800 ارب تک پہنچنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں نو منتخب حکومت گرانے میں عد م دلچسپی کاا ظہار کرچکے ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف بھی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات میں واضح کرچکے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) ایسی کسی تحریک کا حصہ نہیں بننا چاہتی جو حکومت کے خلاف ہو۔ دونوں بڑی جماعتیں جب نو منتخب حکومت کے لئے مسائل نہیں بننا چاہتی تو پھر وزیراعظم عمران کو اپنی خواہش کے مطابق’’تبدیلی‘‘ کے عمل کیلئے بھرپور موقع ملے گا۔ احتساب کا عمل بھرپور انداز میں چلنا چاہیے مگر ایسا نہیں کہ اسے سیاسی انتقام قرار دیا جائے اور احتساب صرف سیاستدانوں تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر وہ شخص جو کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث ہو اسے احتساب کی چکی سے گزارنے کا انتظام ہونا چاہیے۔ نوازشریف دورحکومت میں آصف زرداری پر چھ کروڑ ڈالر سوئس بنکوں میں جمع کروانے کی باتیں سنائی دیتی تھیں مگر صدارتی منصب پر براجمان ہونے کے بعد آصف زرداری نے ان ہی لوگوں کے ذریعے اس معاملے کو یکسر نیست و نابود کردیا اور وہی جج جنہوں نے آصف علی زرداری کو نیب جج کی حیثیت سے سزا سنائی تھی ، چھ کروڑ ڈالر کی رقم کے معاملے کو ختم کرنے کیلئے سوئٹزرلینڈ گئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ جعلی بنک اکائونٹس کیس میںگرفتار کئے جاتے ہیں یا نہیں تاہم آصف علی زرداری اس کے لئے اپنی رضا مندی دے چکے ہیں ، ان کی گرفتاری کی خبر نئی بات نہیں ہوگی۔ آصف علی زرداری نے جعلی بنک اکائونٹس کا دفاع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ٹریڈنگ اکائونٹس کو جعلی کہا جارہا ہے، نئی حکومت سعودی عرب سے مالی معاونت کے حصول میں کامیابی کے بعد معاشی دبائو سے کسی حد تک نکل آئی ہے چین کے دورے سے بھی وزیراعظم ضرورت کے مطابق معاشی معاونت حاصل کرنے میںکامیاب ہوجائیں گے جس کے بعد انہیں ’’تبدیلی‘‘ کے پروگرام پر عمل پیراہونا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے سٹیزن پورٹل سسٹم کا افتتاح کرکے خرابیوںکی نشاندہی کا موقع فراہم کردیا اور اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ خود سرکاری محکموں اور افسر شاہی کے بارے میں آنے والی شکایات کا جائزہ لیں گے جس سے نہ صرف کارکردگی سے آگاہی ملے گی بلکہ سرکاری ملازمین کی ترقی اور جزا وسزا کا تصور وضع ہوگا، ایک طرف نو منتخب حکومت پاکستان کے حقیقی ترقی کے سفر کے آغاز کے دعوے کررہی ہے تو دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف کاکہنا ہے کہ یہ حکومت عوام کے سامنے کھل رہی ہے اوراپنے لئے گڑھا خود کھود رہی ہے، ہم انہیں پورا موقع دیں گے کہ عوام کے سامنے اپنی نااہلیت ثابت کریں۔ نواز شریف کو مقتدر حلقوں سے گلہ تو ہے مگر وہ خاموش ہوگئے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن ابھی تک انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے پر آمادہ نظر نہیں آئے، ذمہ دار ذرائع کاکہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ مستقبل قریب میں ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو احتساب عدالت سے دی گئی سزا کی معطلی کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نیب کی اپیل کی سماعت ہوگی جبکہ احتساب عدالت میں زیر سماعت العزیزیہ سٹیل میٹل اور فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنسز بھی آخری مراحل میں ہیں، 9نومبر کو سپریم کورٹ کی ڈیڈ لائن بھی ختم ہورہی ہے۔ نوازشریف کے وکلا تو بظاہر مطمئن نظر آتے ہیںمگر پر اسیکیوشن کا دعویٰ ہے کہ دونوں ریفرنسز میں نواز شریف کوسزا ہوگی، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری بھی دعویٰ کرچکے ہیں کہ نواز شریف ہی نہیں پچاس سیاستدان جیل جائیں گے۔ 25 جولائی کے انتخابات کے نتائج پر اٹھنے والی انگلیاں آہستہ آہستہ خاموشی اختیار کرتی جارہی ہیں مگر ڈالر کی قیمت میں یکمشت ہونے والے اضافے نے مہنگائی میں اضافہ کردیا ہے اور تنخواہ دار طبقہ معاشی بحران کا شکار ہوگیاہے۔مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگ احتجاج کاموجب بھی بن سکتے ہیں، بے روزگاری پہلے ہی ایک سماجی مسئلے کی شکل میں موجود ہے جس کی وجہ سے جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا ہے، پاکستان کی پینتیس فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، بے روزگاری پر قابو نہ پائے جانے کی صورت میں ہی نوجوان امن وامان کی صورتحال خراب کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور منشیات جیسے ناسور کا ایندھن بھی بن سکتے ہیں۔22 برس سے ’’تبدیلی‘‘ کاعزم لے کر خاردار سیاست میں کودنے والے عمران خان کو بڑے بڑے سیاسی ڈاکوئوں سے حساب لینے کے ساتھ ساتھ غریب اور متوسط طبقے پر مشتمل شہریوں کو مہنگائی کے چنگل سے بچانا ہوگا، بجلی اور سوئی گیس کے بلوں کی وجہ سے گھروں کے چولہے بند نہیں ہونے چاہیے۔ پچاس لاکھ گھروں اورایک کروڑ نوکریوں کی تقسیم میں سیاسی ، مذہبی اور لسانی تفریق نہیں ہونی چاہیے، تبدیلی کے عمل میں قوم متحد ہونے کی بجائے مزید تقسیم نہیں ہونی چاہیے، وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں بد عنوانوں کی جمہوریت جلد خطرے میں پڑھنے والی ہے بیڈ گورننس کی وجہ سے پاکستان پیچھے رہ گیا ہے ملکی تاریخ میںپہلی بار حکومت کا احتساب ہوگا جبکہ دوسری طرف چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار کی رائے ہے کہ ملک پہلی بار ہر لحاظ سے ترقی کی طرف ٹیک آف کررہا ہے اللہ کرے ہمیں ایسی دیانتدار اور محب وطن قیادت ملے جو ملک کو آگے لے کر جائے اور ہم دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ مقتدر حلقوں نے کرپشن میں ملوث سیاسی قیاد ت کو سیاست سے آئوٹ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، 2010 سے شروع کئے گئے اس فلسفے پر تسلسل سے عملدرآمد ہونے کی صورت میں ہی ادارے مضبوط ہونگے اور پھر کسی کو بھی کرپشن سے رعایت نہیں ملے گی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف اورمریم نواز کی خاموشی سیاسی کارکنوں کیلئے سوالیہ نشان بن چکی ہے بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں این آر او مل چکا ہے صرف ادائیگی باقی ہے جبکہ ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب اسے الزام تراشی کا حصہ قرار دیتی ہیں، ان کا کہناہے کہ نوازشریف نے نہ پہلے کوئی این آر او کیا نہ آئندہ کریں گے۔ پاکستان کے عوام نے 2018 کے انتخابات میں بھی ن لیگ کو بھرپور میڈیٹ دیا ہے اگر ہم اقتدار میں نہیں رہ سکے تو خوف کی کوئی بات نہیں اسی ملک رہنا ہے یہیں جینا مرنا ہے، عمران خان کھل کر کھیلیں، ہم غلطیوں سے فائدہ اٹھائیں گے او ر عوام کی طاقت سے ہی خدمت کیلئے منتخب ہونگے۔ نواز شریف کی خاموشی دراصل ن لیگ کے بیانیے میں تبدیلی محسوس کی جارہی ہے ، سیاسی حلقوں میں یہ بات موضو ع گفتگو بنی ہوئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) نوا ز شریف کو پس منظر میںرکھ کر مقتدر حلقوں سے تعلقات استوارکرنے کے خواہاں ہیں بعض سینئر ساتھی اس سلسلے میں چودھری نثار علی خان کی عدم موجودگی شدت سے محسوس کرتے ہیں مگر کوئی رہنما بھی نواز شریف سے گرین سگنل کی جرات نہیں کررہا، مریم نواز جو اپنی والدہ کے انتقال کے بعد گھر تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں،نوازشریف جانتے ہیں کہ ان کی پارٹی کو مزید تقسیم کرنے کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں، نواز شریف نہیں چاہتے کہ ان کے بیانیہ کی وجہ سے ان کے ارکان پارلیمنٹ پر دبائو بڑھے۔ نواز شریف کے بعد شہباز شریف کی گرفتاری کو بھی نواز شریف اپوزیشن کو دبانے کی کوشش کا حصہ قرار دے رہے ہیں، ادھر سیاسی تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ کرپشن کے الزام میں ملوث سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کی بلا تفریق گرفتاریوں سے تو عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا مگر اگر صرف اپوزیشن کو ہی احتساب میں رگڑا لگانے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے تو اپوزیشن عوام کو احتجاج پر بھی مائل کرسکتی ہے جو حکومت کی کارکردگی میں رکاوٹ بنے گی۔

تازہ ترین
تازہ ترین