مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
مولانا ڈاکٹرمحمدحبیب اللہ مختارشہیدرحمہ اللہ قریبی زمانہ کے محقق اور نادرہ روزگار علماء میں سے ہیں،اہل علم کے حلقے میں آپ کااسمِ گرامی مشہورومعروف ہے،اللہ تعالیٰ نے آپ کوبہ یک وقت بے شمارخوبیاں،ان گنت صلاحیتیں عطافرمائی تھیں۔علمی اورتحقیقی میدان میں آپ کی خدمات اورانتظامی معاملات میں آپ کی مدبرانہ اوردوررَس نگاہ کےسب ہی معترف ہیں۔اصول پسندی اورقواعدوضوابط کی پاس داری میں آپ اپنی مثال آپ تھے،ساتھ ساتھ وقت کی قدروقیمت نے آپ کی شخصیت کوچارچاندلگادیے تھے،چناںچہ نہایت ہی مختصر عرصے میں آپ تنِ تنہاایک پوری جماعت کاکام کرکے،سینے پرشہادت کاتمغہ سجائےاس دارِفانی سے دارِبقاکی جانب روانہ ہوگئے اوراپنے بعدوالوں کے لئے ایک آئیڈیل اور نمونہ بن گئے۔
مولاناڈاکٹرحبیب اللہ مختارؒدہلی میں پیداہوئے،آپ کے والدِگرامی حکیم مختارحسن خان دہلویؒ طبیبِ حاذق وماہرحکیم تھے،ہجرت کے بعد کراچی تشریف لائے اوریہاں حکمت کے شعبے سے وابستہ رہے۔حکیم مختارحسن خان نہایت متواضع،خلق خدا کے خدمت گار،دیانت وامانت کے پیکراورعلماء کے بڑے قدردان تھے۔ مولاناڈاکٹرمحمدحبیب اللہ مختارنے 1963ء میں ملک کی عظیم دینی درس گاہ جامعہ بنوری ٹاؤن سے محدث العصر علامہ محمد یوسف بنوریؒ کی زیرِنگرانی دینی تعلیم کی تکمیل کی،مزیدتعلیم کے لئے آپ نے مدینہ یونیورسٹی کارُخ کیا،جہاں چارسال تک آپ تعلیم حاصل کرتے رہے،مدینہ یونیورسٹی سےتعلیم حاصل کرکے فارغ ہوئے توآپ کوآپ کے محبوب شیخ ومربی حضرت علامہ بنوریؒ نےاپنے ادارے میں دینی خدمت کے لئے طلب فرمایا،آپ نے اس حکم کی تعمیل کواپنے لئے سعادت سمجھااوراپنے شیخ کے ادارے ’’جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن ‘‘سے منسلک ہوگئے۔یہاں دینی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ نے 1973ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم۔اے کیا،جس میں آپ نے فرسٹ پوزیشن حاصل کرکے گولڈمیڈل حاصل کیا۔1981ء میں جامعہ کراچی سے ہی ڈاکٹریٹ(پی،ایچ، ڈی)کی ڈگری بھی حاصل کی۔ علامہ بنوریؒ کے انتقال کے بعد امام اہل سنت مولانامفتی احمدالرحمن ؒ کوجامعہ بنوری ٹاؤن کاسربراہ مقررکیاگیا اور1991ء میں جب مفتی احمدالرحمن ؒ کاوصال ہواتومولانا ڈاکٹرحبیب اللہ مختارؒاس مایۂ ناز ادارے کے رئیس ومہتمم منتخب ہوئے۔ ساتھ ساتھ مدارس عربیہ کی ملک گیرتنظیم ’’وفاق المدارس العربیہ پاکستان‘‘کے ناظم اعلیٰ بھی رہے۔ مولانا ڈاکٹر محمدحبیب اللہ مختارؒکواللہ تعالیٰ نے علمی استعداد،ذہانت وفطانت ،اعلیٰ اوصاف واخلاق اورانتظامی صلاحیتوں کاوافرحصہ عطافرمایاتھا،آپ نے اپنی زندگی کاکوئی لمحہ ضائع نہیں فرمایا،بلکہ وقت کی قدروقیمت کوجانتے ہوئے اورعمرعزیزکوامانت سمجھتے ہوئے ہمہ وقت آپ تعلیمی،تدریسی،تصنیفی اورانتظامی معاملات میں مصروف رہے،تاریخ ہمیشہ وقت کے قدردان لوگوں کانام اونچا اور روشن رکھتی ہے،آپ کے تاریخی کارناموں کی بناء پربعدوالوں کے لئے آپ کی شخصیت روشن قندیل کی حیثیت رکھتی ہے۔آپ خالص علمی اورتحقیقی امورسے تعلق رکھتے تھے،عربی ادب سے خصوصی لگاؤتھا،آپ نے اپنے پیچھے بے شمار تصانیف ،تراجم اورتلامذہ کی صورت میں ذی استعداد علمائے کرام کی جماعت یادگارچھوڑی ہے۔آپ سے استفادہ کرنے والوں میں نامی گرامی علمائے کرام شامل ہیں جو ملک پاکستان اوربیرون ممالک میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔آپ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں دیگرذمے داریوں کے نبھانے کے ساتھ ساتھ بیسیوں عربی کتابوں کا انتہائی سلیس اردوترجمہ کیا،تاکہ اُردو داں طبقے کے لئے اُن کتابوں سے استفادہ کرناآسان ہو،آپ کی تصانیف میں سے ’’کشف النقاب‘‘کوبڑی اہمیت حاصل ہے،اس کتاب کامختصر پسِ منظریہ ہے کہ صحاح ستہ یعنی حدیث کی مشہورچھ کتابوں میں شامل امام ترمذیؒ کی کتاب ’’سننِ ترمذی ‘‘کوخاص اہمیت حاصل ہے،حدیث کے طلبہ کے لئے یہ کتاب بڑی نفع بخش سمجھی جاتی ہے،امام ترمذی ؒ عموماً کسی عنوان کے تحت ایک حدیث ذکرفرماکراُس عنوان سے متعلق دیگراحادیث مکمل ذکرکرنے کی بجائے اُن کی جانب اشارہ کرنے پراکتفاء کرتے ہیںکہ اس موضوع سے متعلق دیگراحادیث بھی فلاں فلاں صحابی ؓسے منقول ہیں،ان احادیث کی تلاش وجستجو کاکام اولاً علامہ بنوری ؒ نے خود شروع فرمایااورپھراس عظیم حدیثی خدمت کے لئے مولاناڈاکٹرحبیب اللہ مختارکومنتخب کیا،آپ نے ان احادیث کی تحقیق وتلاش فرما کر ایک عظیم الشان ذخیرہ جمع فرمایا،یہ عظیم اورمایہ ناز حدیثی خدمت ’’کشف النقاب‘‘کے نام سے پانچ جلدوں میں طبع ہوکرمنظرعام پرآئی،اوراہل علم کے ہاتھوں اس کتاب کو خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ عموماً ،تدریسی ،تصنیفی اورانتظامی امورکی ذمہ داریوں کابوجھ اتنازیادہ ہوتاہے کہ انسان اس بارِگراں کے ساتھ تصوف وسلوک ،ذکرواذکار کے لئے وقت نہیں نکال سکتا،لیکن ڈاکٹرمحمدحبیب اللہ مختارؒان تمام خدمات اورذمے داریوں کے باوجودتصوف وسلوک کی لائن میں بھی پیچھے نہیں رہے ،چنانچہ آپ، قطب الارشادحضرت مولانا عبدالعزیز رائے پوریؒ سے بیعت بھی تھے اورآپ کوخلافت بھی حاصل تھی،نیزآپ ذکرواذکاراوردیگرمعمولات بھی پابندی سے انجام دیاکرتے تھے۔
دیگرمناصب وعہدوں کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ آپ سات برس تک جامعہ بنوری ٹاؤن کے مہتمم وشیخ الحدیث کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔نومبر1997ء میں آپ اپنے چندرفقاء کے ہمراہ اپنے ادارے جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کی ایک شاخ میں تشریف لے گئے،اورواپسی پرآپ کی گاڑی گرومندرکے قریب جامعہ بنوری ٹاؤن سے چندقدم کے فاصلے پرپہنچی تھی کہ لوگوں کے جم غفیرکے سامنے 2؍نومبر1997ء کوآپ اپنے رفیق مولانا مفتی عبدالسمیع ؒ اورڈرائیورمحمدطاہرؒکے ہمراہ شہید کردیئے گئے،آپ کوجامعہ بنوری ٹاؤن کے احاطے میں مسجدکے دائیں جانب اپنے محبوب ومشفق شیخ ومربی علامہ بنوری ؒ کے پہلومیں دفن کیاگیا،جہاں آپ اپنےدیگر رفقاء کے ساتھ ابدی نیندآرام فرمارہے ہیں۔اللہ ان کی قبور کو نور سے بھردے۔(آمین)