• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حُب ِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان کا اولین تقاضا ہے، قرآن حکیم فرقان مجید اور احادیث کثیرہ میں اس کی باقاعدہ تلقین و تاکید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی کیسا ہی بے عمل اور دنیادار مسلمان ہو، حرمت رسولﷺ پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرسکتا، تاہم یہ بات بھی قابل فراموش نہیں کہ کسی پر حد اس وقت تک جاری نہیں کی جاسکتی جب تک کہ جرم ثابت نہ ہو جائے، یہ بھی دین متین کے احکامات ہیں اورقرون اولیٰ میں اسی پر عمل بھی ہوتا آیا ہے۔ اسی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی واضح الفاظ میں کہا ہے کہ حرمت رسول ﷺ پر جان بھی قربان ہے۔ججز کسی سے کم عاشق رسول ﷺ نہیں، ثبوت نہیں تو سزا کیسے دے دیں۔ کوئی شک نہیں کہ معاملہ بہت حساس ہے لیکن چیف جسٹس کے بیان سے معاملات کو سمجھنا دشوار نہیں۔ حرمت و ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت دینی فریضہ ہے تو یہ بھی اسی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہیں کہ کسی کو اس کے ایسے فعل پر سزا نہ دی جائے جو اس نے نہیں کیا۔ سپریم کورٹ کےفیصلے کی روشنی میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی کے بعد ملک بھر میں جاری مذہبی جماعتوں کے احتجاج اور مظاہرے ختم کرانے کیلئے مذاکرات کا فیصلہ کرتے ہوئے حکومت نے کمیٹی قائم کردی ہے، حکومتی وفد نے اپوزیشن رہنمائوں بلاول بھٹو اور شہباز شریف سے ملاقاتیں کیں جن میں مظاہرین سے بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے پر اتفاق ہوگیا جو ایسی صورت حال میں قومی یکجہتی کی علامت ہے۔ موجودہ صورت حال میں حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق رائے احسن عمل ہے کہ ذاتی سیاست سے بالاتر ہو کر پاکستان کو درپیش ایک حساس معاملے کو حل کرنے کیلئے ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی۔ حالات کی کشیدگی کا ایک بڑا بلکہ بنیادی سبب یہ ہے کہ ایک طرف مطالبات اور احتجاج ہے اور دوسری جانب ملکی قانون۔ ہمیں آخر کیوں یہ یاد نہیں رہتا کہ قانون کی بالادستی اور نفاذ کے بغیر ملکوں کا چلنا ممکن نہیں ہوتا۔ جن جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لیا اسی قانون و آئین کے تحت لیا تو پھر اسے یکسر مسترد کرنا ان کے نزدیک کیسا عمل ہے؟ اسی قانون او رآئین کے تحت معاملات کو سلجھایا جاسکتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے پر نظر ثانی کا حق موجود ہے اور سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں یہ حق استعمال بھی کر لیا گیا ہے، یعنی درخواست دی جا چکی ہے اب فریقین کو عدالت کے فیصلے کا صبر و تحمل سے انتظار کرنا چاہئے۔ اگرچہ مظاہرین کی قیادت اور حکومت کے مابین مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار دکھائی دے رہے ہیں لیکن بات چیت کا دروازہ بند نہیں ہوا ،نہ ہونا چاہئے۔ وزیراعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے کیلئے مذاکراتی ٹیم کی منظوری دی۔ ٹیم میں فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی، شہریار آفریدی، نور الحق قادری اور محبوب سلطان شامل ہیں۔ نور الحق قادری اور محبوب سلطان مذاکرات کریں گے جبکہ مذاکرات کی نگرانی وزیراعظم خود کریں گے۔ حکومت کا یہ طرزعمل مستحسن ہے کہ تشدد اور زور زبردستی کے بجائے مذاکرات اور افہام و تفہیم سے معاملہ حل کیا جائے۔ فریقین کو اس حوالے سے اپنے باشعور ہونے کا ثبوت دینا ہوگا ۔مذاکرات کے دوران اپنے بیانات میں تلخ و ترش جملوں کا تبادلہ نہ کیا جائے اور اپنا موقف پیش کرتے ہوئے ٹھنڈے مزاج سے کام لیا جائے۔ مصالحانہ طرز عمل سے ہی معاملات حل ہوا کرتے ہیں جارحانہ یا دھمکی آمیز رویے بگاڑ کا باعث بنتے ہیںدونوں طرف سے اشتعال انگیزی سے گریز کیا جائے۔ یہ بات خاص طور پر یاد رہے کہ ملک دشمن قوتیں گھات لگائے بیٹھی ہیں اور ایسے کشیدہ حالات ان کے لئے آئیڈیل ہوا کرتے ہیں۔ لازم ہے کہ قانون اور آئین کے مطابق معاملات طے کرنے کی سبیل کی جائے، تشدد سے بہرصورت اجتناب کیا جائے، خاص طور پر اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے پر نظرثانی اپیل کے فیصل ہونے کا انتظار کیا جائے کہ اسی میں سب کی بھلائی دکھائی دے رہی ہے۔

تازہ ترین