آج میں سب سے پہلےاپنے قارئین کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گاجنہوں نے میرے گزشتہ دونوں کالموں پر نہایت مثبت فیڈبیک سے نوازا۔ایک قاری نے سوال پوچھا کہ قدیمی ٹیکسلا کے مہان فلسفی کوٹلیا چانکیہ نے اپنا کاروبار کرنےکےلیے تو کامیاب اصول بتلائے لیکن کیاملازمت پیشہ افراد کی رہنمائی کےلیے بھی کوئی تعلیمات دیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ چانکیہ جی نے اپنی تصانیف ارتھ شاستر اور چانکیہ نیتی میں ہر شعبہ زندگی میں کامیابی حاصل کرنےکے گُر بتلائے ہیں، چانکیہ جی کا ملازمت پیشہ لوگوںکےلیے درس ہے کہ جس طرح ایک بزنس مین کی طاقت اسکا سرمایہ ہوتا ہے اور ایک ملک کی طاقت اسکی فوج ہوتی ہے، اسی طرح ایک ملازمت پیشہ فرد کی طاقت اسکی صلاحیتیں، قابلیت اور وفاداری ہوتی ہے، اگر ایک ملازم اپنی پیشہ ورانہ زندگی ان اصولوں پر استوار کرلے تو وہ دن بدن ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرتا چلا جاتاہے۔ میرا آج بھی حکومت سے مطالبہ ہے کہ اگر مہان چانکیہ جی کے نام سے منسوب یونیورسٹی فی الحال قائم نہیں کی جاسکتی تو کم از کم ٹیکسلا کے تاریخی کھنڈرات میں انکی یادگار ضرور قائم کی جائے جہاں وہ کبھی علم کے پیاسے اپنے شاگردوں کو حکمت و دانائی کا درس دیا کرتےتھے۔یہ اقدام نہ صرف پاکستان کا علم دوست تشخص اجاگر کرے گابلکہ عالمی سطح پرمختلف سیاحوں کو وطن عزیز کی جانب راغب کرنے کا باعث بن سکتاہے جو چانکیہ جی کو خراجِ تحسین پیش کرنے انکی جنم بھومی کی سیاحت کرناچاہتے ہیں یاان پر کوئی تحقیقی ریسرچ ، ڈاکومینٹری بنانےمیں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسی طرح مذہبی سیاحت کے موضوع پربھی میرے کالم کووسیع پیمانے پر پذیرائی حاصل ہوئی جسکی بناء پر میں نے فیصلہ کیا کہ آج اس موضوع بحث کو مزید آگے بڑھایا جائے۔میں نے پاکستان کودنیا کے چار بڑے مذاہب ہندودھرم ، اسلام ، سکھ ازم اوربدھ مت کا گڑھ قرار دیا تھا جہاںان مذاہب کےمقدس مقامات بشمول مندر، مساجد، خانقاہیں، گوردوارے وغیرہ خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں،حکومتِ پاکستان چاہے تو وہ صرف مذہبی سیاحت سے اتنا زیادہ ریونیو اکٹھا کرسکتی ہے جس سے نہ صرف غیرملکی قرضوں سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے بلکہ قومی ترقی کےلیے ناگزیر منصوبے بھی کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچائے جاسکتے ہیں۔اس حوالے سے کرسچین کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک قاری نے اپنا فیڈ بیک دیتے ہوئے تبصرہ کیا کہ پاکستان بھر میں انگریزوں کے زمانے کے قائم کردہ چرچ بھی موجود ہیں جو اپنی طرز کے منفرد فنِ تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہیں،کراچی میں واقع سینٹ پیٹرک کتھیڈرل جنگ آزادی 1857ء سے ایک دہائی قبل قائم کیا گیا، اسی طرح دیگر تاریخی گرجا گھروں میں سینٹ اینڈریو چرج لاہور، سینٹ میری کتھیڈرل چرج ملتان، ہولی ٹرینیٹی چرج سیالکوٹ، سینٹ جان کتھیڈرل پشاور اور سینٹ لیوک چرج ایبٹ آباد وغیرہ شامل ہیں۔ اگر ہم مذہبی سیاحت کے فروغ میں انگریزوں کے قائم کردہ گرجا گھروں کو بھی شامل کرلیں تویہ مقدس مقامات بھی برطانیہ ، یورپ اور مغربی دنیا کے عیسائی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتے ہیں۔عالمی تاریخ گواہ ہے کہ خطہ یورپ آج سے فقط کچھ دہائیوں قبل آپس میں دست و گریباں تھا، یورپی عوام نے ہولناک جنگ عظیم اول، دوم کی تباہ کاریوں کا بھی سامنا کیا لیکن آج وہی یورپ اپنے اندرونی اور بیرونی چیلنجز پر قابو پاتے ہوئے عالمی امن کے فروغ کےلیے ایک رول ماڈل ہے، گزشتہ دنوں یورپی پارلیمانی وفدکے پارلیمنٹ ہاؤس دورے کے موقع پر مجھے کسی نے یورپیئن نیٹ ورک فار ہِسٹورک پلیسز آف وارشپ(European Network for Historic Places of Worship)نامی ادارے کے بارے میں آگاہ کیا جو پورے یورپ بھر میں قائم تاریخی مذہبی عبادت گاہوں کے تحفظ کےلیے نمایاں خدمات سرانجام دے رہا ہے، یورپی یونین کے تعاون سے قائم اس ادارے کا بنیادی مقصد مذہبی مقدس مقامات میں دلچسپی رکھنے والوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کرتے ہوئے حکومتی پالیسی سازوں کو قائل کرنا ہے کہ وہ تاریخی مذہبی مقامات کی اقتصادی اور سماجی اہمیت کو سمجھیں، فیتھ ٹورازم ایکشن پلان کے تحت مذہبی سیاحت کے فروغ کےلیے سب سے پہلے مقدس مقامات کی نشاندہی پر زور دیا گیا ہے تاکہ بھرپور آگاہی مہم چلا کر مقامی اور عالمی مذہبی سیاحوں کا رُخ یورپ کی جانب موڑا جاسکے ، یورپی ادارےکے مطابق مذہبی سیاحت کے فروغ کےلیے معاشرے کے دو طبقات نہایت کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں، ٹورازم سیکٹر سے وابستہ ٹریولنگ ادارے اور مقامی سطح پر اثرورسوخ رکھنے والے مذہبی رہنما جو مذہبی ہم آہنگی کی خاطر سیاحوں کا خوشدلی سے خیرمقدم کریں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ مختلف مذاہب کا گڑھ پاکستان بھی مذہبی سیاحت میں اپنا مقام بنائے تو سب سے پہلے متروکہ وقف املاک بورڈکی ازسرنو تشکیل کرنے کی اشد ضرورت ہے، ما ضی کی حکومتوں کی عدم دلچسپی اورسیاسی بھرتیوں کے باعث یہ اہم حکومتی ادارہ مختلف مذاہب کے قومی اثاثوں کوشرپسندوں سے محفوظ رکھنے میں مؤثر ثابت نہیں ہوسکا بلکہ اقلیتی مذہبی کمیونٹی کی کروڑوں کی جائیداد کو ملی بھگت سے اونے پونے فروخت کرنے اور قبضہ مافیا کے مختلف اسکینڈل سامنے آئے جس سے محب وطن غیرمسلم پاکستانیوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے اور عالمی برادری میں پاکستان کی جگ ہنسائی بھی ہوئی۔میں سمجھتا ہوں کہ حکومتِ وقت کو پہلی فرصت میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی روشنی میں ادارے کا سربراہ غیرمسلم پاکستانی کمیونٹی سے تعنیات کرنا چاہیے، انڈیا اور اسرائیل تک میں مسلمان اقلیتوں کے مذہبی مقدس مقامات کی دیکھ بھال کا فریضہ روز اول سے مقامی مسلمان اقلیت شہری کو سونپاجاتاہے توآخر یہاں ایسی کیا قباحت ہے کہ ہم نے متروکہ وقف املاک ادارے کی اصل اہمیت کو نظرانداز کرتے ہوئے لاوارث چھوڑا ہوا ہے۔ اگر آج یہ ادارہ کسی قابل غیرمسلم پاکستانی کی سربراہی میں حقیقی معنی میں فعال کردار ادا کرنے کے قابل ہوجاتاہے تو اسے پہلا ٹاسک یہی فراہم کیا جائے کہ وہ مذہبی سیاحت کے فروغ کےلیے اپنی توانائیاں وقف کردے، سب سے پہلے توادارے کو سرکاری سطح پر ملک بھر کے غیرمسلم مقدس مقامات کی نشاندہی کےلیے ایک جامع لسٹ تیار کرنی چاہیے، اگلا اقدام تاریخی مقامات کا تقدس برقرار رکھتے ہوئے دیکھ بھال یقینی بنانا ہونا چاہیے،آج کے ڈیجیٹل دور میں یورپی ادارے برائے تاریخی عبادت گاہ کی طرز پر ملک بھر کے تمام غیرمسلم مقدس مقامات کو ایک دوسرے سے منسلک کیا جاناکوئی بہت مشکل کام نہیں۔اس حوالے سے میری نظر میں متروکہ وقف املاک ادارے کے سامنے تین بڑے مقاصد بالکل واضح ہونے چاہیے، سب سے پہلے ملک بھر کے تمام غیرمسلم مقدس مقامات کی مؤثر دیکھ بھال، نمبر دو، تشہیری مہم کے ذریعے مذہبی سیاحوں کی توجہ کا حصول اور سہولتوں کی فراہمی اورنمبر تین ،سیاحتی ریونیو کا حصول۔ متروکہ وقف ادارہ فارن آفس، بیرون ممالک کے پاکستانی سفارت خانوں اور سیکورٹی اداروں سے قریبی روابط رکھتے ہوئے ان تمام غیرملکی سیاحوں کےلیےپاکستانی ویزے کا دعوت نامہ جاری کرنے کابھی مجاز ہو جو مذہبی عقیدت کی بناء پر پاکستان آنا چاہتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ آج پاکستان کی بہادر افواج کی قربانیوں کی بدولت دہشت گردی کا عفریت دم توڑ رہا ہے تو دوسری طرف اعلیٰ عدلیہ کے قومی اہمیت کے معاملات میں مثبت کردارنے پاکستان کا امیج امن پسندجمہوری ملک کے طور پر پیش کیا ہے جہاں قانون کی حکمرانی اور عدل و انصاف کا بول بالا ہے۔ ضرورت اب اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر اپنے پیارے وطن کو صحیح سمت میں گامزن کرنےکےلیے ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہوکر صحیح فیصلے کیے جائیں ۔ میری نظر میں بطور اچھا انسان ہمیں سمجھنا چاہیے کہ خدا کے گھر کی زیارت کرنے والے خدا کے مہمان ہوتے ہیں جنکی خدمت کرنے اور انہیں سفری سہولتیں پہنچانے سے خدا کی رحمت پوری دھرتی پر نازل ہوتی ہے۔اگر ہم مذہبی سیاحت کے فروغ کےلیے ٹھوس حکمت عملی مرتب کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تومجھے یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں جب مختلف ممالک کے مذہبی سیاح پاکستانی عوام کی پُر خلوص روایتی مہمان نوازی کے گرویدہ ہوجائیں گے اور پاکستانیوںکےلیے بھی باہر کی دنیا کے بند دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔