ڈاکٹرعمران خان، ملتان
ملتان سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے چناب کے مغرب میں واقع ’’شجاع آباد‘‘ تاریخی اہمیت کا حامل ایک شہر ہے۔ کہتے ہیں کہ’’ نواب شجاع خان‘‘ نے صاحبِ کشف و کرامت، صوفی بزرگ، بابا رشید شاہ سہروردی کی اجازت اور رہنمائی سے اس شہر کا سنگِ بنیاد 1750ء میں رکھا اور اس کا نام، بانی ’’شجاع آباد، نواب شجاع خان سدوزئی‘‘ سے منسوب کیا۔ نواب شجاع خان سدوزئی، نواب زاہد خان سدوزئی کے چھوٹے صاحب زادے تھے، جو احمد شاہ درّانی کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ وہ نواب زاہد خان سدوزئی کے دورِ حکومت میں دو بار ملتان کے صوبے دار رہے۔
بیرونی خطرات سے تحفّظ کے لیے شہر کے چاروں طرف 1767ء سے 1772کے دوران قلعے اوراس کے چہارا طراف ایک مضبوط فصیل تعمیر کیے گئے۔ اٹھارہویں صدی میں تعمیر کیے گئے قلعے کی یہ فصیل اب بھی موجود ہے،جس کے چہار جانب بازار قائم ہیں۔ فصیل کا مرکزی حصّہ چاندنی چوک کہلاتا تھا، جس کا نام بعد میں تبدیل کر کے نصیر الدین شہید چوک رکھا گیا۔ ریلوے اسٹیشن کی طرف جانے والا راستہ ریلوے بازار اور دروازہ، ریلوے دروازہ کہلاتا تھا، اسی طرح محمد بن قاسم کا جہاں سے گزر ہوا، اس راستے کی جانب واقع بازار،
’’ ملتانی بازار‘‘ اور اس بازار کے دروازے کو’’ ملتانی دروازہ‘‘ اور بابا رشید شاہ کے آستانے اور ان کی آخری آرام گاہ کی طرف نکلنے والا راستہ، ان کی نسبت سے ’’رشید شاہ بازار‘‘ اور دروازہ، ’’رشید شاہ دروازہ‘‘ کہلاتا تھا۔ جب کہ دریائے چناب کی جانب سے رات گئے تک آنے والے مسافروں کے لیے دریا کی طرف واقع بازارکے دروازے پر چار بڑے بڑے طاقوں میں روشنی کے لیے جو دِیے روشن کیے جاتے تھے، وہ آج بھی خستہ حال صورت میں قلعے میں موجود ہیں۔ ان چار طاقوں کی نسبت سے اس بازارکو ’’چوطاقہ بازار‘‘ اور دروازے کو’’ چوطاقہ دروازہ‘‘ پکارا جاتا تھا۔بعدازاں، ان دروازوں کے نام تبدیل کردیئے گئے اور خلفائے راشدین کے نام سے منسوب کرکے بابِ حضرت ابوبکر صدیقؓ،بابِ حضرت عمر فاروقؓ،باب ِحضرت عثمان غنیؓ اور بابِ حضرت ِعلیؓ رکھ دئیے گئے۔ بیرونی حملوں سے تحفظ اور شہر کی حفاظت کے نقطہ نظر سے تعمیر کیے جانے والے اس قلعے کی قدیم فصیلیں امتدادِ زمانہ کے باعث شکستہ ہوتی چلی گئیں۔
کچھ عرصہ قبل ان قدیم و تاریخی فصیلوں کومزید شکستگی اور معدوم ہونے سے بچانے کے لیے ایک شہری کی درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اسے اصل حالت میں برقرار رکھنے کے لیے خصوصی مرمّت کے احکامات جاری کیے، جس کے بعد کئی کروڑ روپے سے اس کی مرمّت کا کام کروایا گیا، لیکن کچھ عرصے بعد اس تاریخی ورثے کو پھر سے بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا۔ حالاں کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے فصیل پر آویزاں تختی پر واضح تحریر ہے کہ ’’اسے تاریخی ورثہ قرار دے دیا گیا ہے۔ نقصان پہنچانے والے کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘‘ تاہم، افسوس کا مقام ہے کہ محکمہ آثارِ قدیمہ اور مقامی حکومت اس حوالے سے اپنا کوئی کردار ادا نہیں کررہی، جس کے باعث آئے روزارد گردموجود گندگی و غلاظت اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں آگ لگنے کے باعث فصیل اپنی ہیئت اوراصل رنگت تقریباًکھو بیٹھی ہے۔ علاوہ ازیں، قلعے کے اردگرد ’’قبضہ مافیا‘‘ بھی اس تاریخی وَرثے کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹانے پر تلی ہوئی ہےاور یہ صورتِ حال صرف قلعے یا فصیلوں ہی تک محدود نہیں، بلکہ نواب شجاع خان کے ’’مظفر محل‘‘ کی صورتِ حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ وہ بھی بری طرح شکست و ریخت کا شکار ہے۔ جہاں کسی زمانے میں نواب شجاع کا خاندان مقیم تھا، اب وہاں جانور باندھے جارہے ہیں۔ محل کی بیش تر قیمتی ونایاب اشیاء چوری ہوگئی ہیں، حتیٰ کہ قیمتی لکڑیوں سے تعمیر کردہ کھڑکیاں، دروازے اور روشن دان تک غائب ہیں اور اسی وجہ سے محل کھنڈر کا منظر پیش کرنے لگا ہے۔نیز، ملتانی بازار میں واقع یہ ’’مظفر محل‘‘ چوروں اور نشہ کرنے والوں کی محفوظ پناہ گاہ کی صورت بھی اختیار کر گیا ہے، جب کہ دوسری جانب نواب شجاع خان کے مقبرے کی حالت بھی فصیل اور محل سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔
تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ مذکورہ شہرکے بانی، نواب شجاع خان کامحل سے متصل ایک شان دار باغ بھی تھا، جس سے ایک خٖفیہ سرنگ باغ کی طرف نکلتی تھی۔ اس وسیع باغ کا دروازہ نواب شجاع خان کے شایانِ شان ہی تعمیر کروایا گیا تھا۔ باغ میں ملازمین کے لیے متعدد کواٹرز اور بارہ دری بھی موجود تھی۔ تاہم، امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ نہ باغ رہا، نہ ہی بارہ دری۔ یعنی شہر کو نام دینے والا آج خودبے نام ہے، جو یقیناً یہاں کا نظم و نسق چلانے والوں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ تحصیل شجاع آباد میں تفریحی مقامات ہیں نہ روزگار کے مواقع۔ اگرچہ یہاں کے آم خوش ذائقہ اور معیاری ہونے کے سبب پوری دنیا میں پہچانے جاتےہیں، مگراب خود شجاع آباد کی اپنی کوئی شناخت نہیں رہی۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ یہاں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث لوگ تلاشِ معاش کے لیے گھر باراور بیوی بچّے چھوڑ کر دوسرے شہروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔اب جب کہ ملک، خصوصاً پنجاب میں تجاوزات کے خاتمے کے لیے موثر اور بھرپور مہم چل رہی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اس تاریخی فصیل اور قلعے کے اطراف میں تجاوزات کے خاتمے اور اس تاریخی وَرثے کے تحفّظ کے لیے بھی کوئی ٹھوس اور موثر اقدامات کیےجاتے ہیں یا نہیں۔کیوں کہ شجاع آباد کا یہ علاقہ اس تاریخی فصیل سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مدینتہ الاولیاء ملتان کے تاریخی تشخّص، اس کے تہذیبی و ثقافتی رنگ میں شجاع آباد کی اپنی ایک پہچان ہے، تو یہ حقیقت کے خلاف نہ ہوگا۔اس لحاظ سے شجاع آباد کے تاریخی ،تہذیبی و ثقافتی تشخّص کو برقرار رکھنے کے لیے اس تاریخی فصیل اور قلعے کو محفوظ بنانا ایک قومی فریضہ ہے، جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔