نہ جانے کس نے اپنے ذاتی تجربے کو بنیاد بنا کر زمانے بھر کے لیے یہ کلیہ دے دیا کہ ،’’رونا ، گانا سب کو آتا ہے‘‘۔ اس مقولے پر اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تویہ بات اس حد تک تودرست ہے کہ رونا تو سب ہی کو آتا ہے لیکن ’’گانا‘‘ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔بلاشبہ گائیکی سُر اور تال کا سنگم ہے،جو یا تو کسی کو استاد مان کرمستقل لگن اور جستجو سے سیکھی جاتی ہے، یا کبھی کبھی خداداد صلاحیت کی صورت کسی کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے۔
سُر میں گانا ایک فن ہے اور اسے سننا اچھے ذوق کی علامت ہے۔ہماری ستّر سالہ تاریخ میںگائیکی کے حوالے سے نہ صرف اعلیٰ پائے کےمعروف گلوکار سُر اور تال کے ان مٹ نقوش چھوڑ گئے ہیں بلکہ پشت در پشت گائیکی و موسیقی کے فن پر حکمرانی کرنے والے نامی گرامی خاندان آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔گو کہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں، لیکن آج بھی سننے والوں کے لیے ماضی کے مقبول گیت کسی یادگار سرمائے سے کم نہیں۔یہی وجہ ہے کہ موسیقی میںبدلتے ہوئے رجحانات میں ’’ری مکس‘‘یا ’’ری میک‘‘ (یعنی پرانے گانوں کو نئی دھن کے ساتھ دوبارہ گانے)کے رجحان کو پزیرائی ملی،تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے ’’ری مکس‘‘ کے رجحان کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔
ری مکس گانے بہت بے دردی کے ساتھ کلاسیکل گانوں کا تاثر خراب کر دیتے ہیں خصوصاًماضی میں جو لوگ اصل گانوں کی دھنوں سےمحظوظ ہوتے ہیں ان کے لیے ری مکس کے نام پر یہ’ جھنکار‘ قابل قبول نہیں ہوتی۔پاکستان اور بھارت میںری مکس کا رجحان سر چڑھ کر بول رہا ہے،تاہم اس پر آنے والا ردعمل قابل غور ہے۔گزشتہ دنوں بھارتی فلم ’’مترون‘‘ کے لیےماضی کی مشہورفلم ’’پاکیزہ ‘‘کاگیت’’یونہی کوئی مل گیا تھا،سر راہ چلتے چلتے‘‘جسےلتا منگیشکر کی آواز میں موسیقار غلام محمد نے ترتیب دیا تھااور جس کے شاعر کیفی اعظمی تھے،ری میک کیا گیا،اس گانے کوپاکستان کے معروف گلوکار عاطف اسلم نے گایا،چوں کہ یہ لتامنگیشکر کا ماضی کا مقبول گیت تھا لہذا اُن کی طرف سے سخت اعتراض کیا گیا،انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ،’’میں یہ (ری مکس)گانا سننا ہی نہیں چاہتی‘‘انہوں نے ری مکس کے رجحان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ،’’یہ ٹرینڈ انتہائی افسوس ناک ہے،کسی کو اجازت نہیں کہ اسے تبدیل کرے، کیا محنت کی کوئی قیمت نہیں؟‘‘،انتہائی سخت الفاظ میں کی جانے والی اس تنقید کی بازگشت پاکستان و بھارت کے میڈیا میں کئی دنوں تک گونجتی رہی۔اسی طرح بھارتی گلوکارہ الکا یاگنک کا ماضی کامقبول گیت’’دلبر دلبر‘‘بھی بالی وڈکی فلم ’ستی میواجیت‘ کے لیے ری میک کیا گیا،جس پر الکا یاگنک کی طرف سے بھی سخت ردعمل آیا اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ’’ماضی کے سپر ہٹ گانوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے بجائے نئے موسیقار نیا گانا بنا کر اسے سپر ہٹ کیوں نہیں کرتے؟‘‘
لیجنڈ گلوکاروں کی جانب سے سخت ردعمل کے باوجود ری مکس کا بخار کسی صورت کم نہیں ہورہا۔ایسا ہی ردعمل گزشتہ دنوں پاکستانی موسیقی کے شائقین کی جانب سے بھی دیکھنے کو ملا۔ کوک اسٹوڈیو کے سیزن الیون میںری مِکس کے نام پر پاکستانی مقبول گانے ’’کوکوکورینا‘‘کے ساتھ کیا جانے والا’’سلوک ‘‘ ہر خاص و عام کی گفت گو کا مرکز بناہواہے۔ماضی کی فلم ’’ارمان ‘‘کے مشہور گانے ’’کوکو کورینا‘‘ جسے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد پر فلمایا گیا اور لیجنڈری گلوکار احمد رشدی نے گایا، اس سدا بہار گانے کو پاکستان کا پہلا پاپ گانا بھی کہا جاتا ہے۔’’ کوک اسٹوڈیو الیون‘‘ کے لئے یہ گانا گلوکارہ مومنہ مستحسن اور اداکار احد رضا میر نے گایا۔گانے میں 60 کی دہائی کے فیشن کو فالو کرتے ہوئے گلوکار اور موسیقار،وہی رنگ واندازاختیار کیےتھے۔تاہم گلوکاری اور موسیقی چوں کہ متا ثر کن نہ تھی، لہذادونوں ہی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ماضی کے مقبول اداکار آصف رضا میر کے بیٹے،احد رضا میر بحیثیت اداکار اپنا لوہا منوا چکے ہیں اور اداکاری کے میدان میں اپنے مداحوں کا بڑا حلقہ بھی رکھتے ہیں۔
مومنہ مستحسن بھی ”آفرین آفرین“ کا ری میک گاکرمداحوں میں پسندیدگی کی سند حاصل کر چکی ہیں ،لیکن ان دونوں فن کاروں کے’کوکوکورینا ‘نےراتوں رات جس تیزی سے ان کی مقبولیت کا گراف نیچے کیا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔جس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ انہوں نے اس شاہ کار گانے کے ساتھ کیا ہے،اس سے بڑھ کر انہیں مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ’کوک اسٹوڈیو‘پروڈیوس کرنے والوں کی یہ بات یقیناً قابل تعریف ہے کہ کم از کم انہوں نے اس گانے پر ’طبع آزمائی‘کرنے سے پہلے وحید مراد کے صاحب زادے سے اجازت ضرور لی ،وگرنہ ہمارے یہاں تو ایسا کوئی رجحان ہی نہیں ہے۔اس سے پہلے بہت سے گلوکار ملکہ ترنم نورجہاں، مہدی حسن اور نصرت فتح علی خان کے گیت بغیراجازت ری مِکس کرچکے ہیں۔بہر کیف ،ری مِکس کو جلد شہرت کے حصول کا ’’شارٹ کٹ‘‘بھی کہا جاسکتا ہے،لیکن اس کے لیے بھی کم از کم گائیکی آنا تو بنیادی شرط ہونی چاہیے۔
2008 میں جب کوک اسٹوڈیو کا آغاز ہو تو اسے بے حد پزیرائی ملی۔درحقیقت گلوکاروں کے انتخاب اور معیاری موسیقی نے شائقین کو اپنی جانب کھینچ لیا۔شروع کے6سال تک معروف میوزیکل بینڈ وائٹل سائنز کے سابق رکن اور باصلاحیت موسیقار روحیل حیات کی پروڈکشن میںاس کاوش کو سراہا گیا۔اس کے بعد پروڈکشن کی نازک ذمے داری اسٹرنگز بینڈ کے بلال مقصود اور فیصل کپاڈیا نے سنبھالی۔بلال مقصود اور فیصل کپاڈیاکی فنی خدمات کا اعتراف کیا کرنا،یہ کہہ دینا’’نام ہی کا فی ہے‘‘زیادہ مناسب رہے گا۔ان باصلاحیت موسیقاروں کی بدولت کوک اسٹوڈیوکونہ صرف پسند کیا گیا،بلکہ ری مکس کی چھوٹی موٹی خامیوں کو نظرانداز کر کے مدھراور معیاری گیت پسندیدگی کی سندبھی حاصل کر تے رہے۔ بعدازاں ’نوری بینڈ‘کےعلی حمزہ اور زوہیب قاضی کی پروڈکشن میں کوک اسٹوڈیو سیزن 11کا آغاز ہوا،ابتدا میں گانوں کا معیار برقرار رکھا گیا،تاہم ’کوکوکورینا‘جیسے ’ہولناک‘ریمکس کے بعدکوک اسٹوڈیو کی مقبولیت تیزی سےمتاثر ہوئی ہے،ممکن ہے معیار پر سمجھوتہ ہی اس تنزلی کی وجہ ہو۔بہرحال ،چوں کہ کہنے والے کہتے ہیں کہ موسیقی’’ روح کی غذا‘‘ ہے توبہتر ہوگا کہ روح کو معیاری ہی غذا فراہم کی جائے،نہ کہ’ری مکس‘کے نام پر سخت ’’سزا‘‘دی جائے۔