• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کراچی میں ایسا لگتا ہے، جیسے ممبئی میں گھوم رہی ہوں، ادیتی سنگھ

یہ حقیقت ہے کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔ قسمت کی دیوی جب فلم انڈسٹری پر مہربان ہوئی تو بھارت کی فلم انڈسٹری کے صفِ اول کے فن کاروں نے بھی پاکستان کا رُخ کیا، یہ سلسلہ چند برس قبل شعیب منصور اور جیو کی فلم ’’خدا کے لیے‘‘ سے شروع ہوا، جس میں بالی وڈ کے منجھے ہوئے اداکار نصیر الدین شاہ نے عمدہ اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا اور پھر دوسری بار 2013میں ریلیز ہونی والی فلم ’’زندہ بھاگ‘‘ میں لیڈنگ رول ادا کیا۔ 2016میں ہدایت کار نبیل قریشی اور پروڈیوسر فضا علی مرزا نے بالی وڈ کے مایہ ناز اداکار اوم پوری کو اپنی فلم ’’ایکٹر ان لا‘‘ میں وکیل کے جان دار کردار کے لیے کاسٹ کیا۔ اُوم پوری نے کراچی کی سڑکوں پر فلم کی شوٹنگ میں حصہ لیا۔ 2018 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’مان جائو نا‘‘ میں عدیل چوہدری کے مدِمقابل بھارتی اداکارہ ناز نو روزی نے بہ طور ہیروئن کام کیا۔ 

اسی طرح ہدایت کار جاوید شیخ کی ریلیز ہونے والی فلم ’’وجود‘‘ میں نئی نسل کے معروف اداکار دانش تیمور کے مدمقابل معروف ماڈل و ادکارہ ادیتی سنگھ کوکاسٹ کیا گیا۔ یہ فلم رواں برس عیدالفطر پر ریلیز ہوئی، جس میں ادیتی سنگھ کی پرفارمنس کو پاکستانیوں نے سراہا، یہی وجہ ہے کہ اب انہیں ایک اور پاکستانی فلم ’’چھا جارے‘‘ میں کاسٹ کرلیا گیا ہے۔ گزشتہ دِنوں وہ ممبئی سے فلم کی شوٹنگ میں حصہ لینے کراچی پہنچیں تو ہم نے اُن سے اس موقع پر ملاقات کی۔ ہمارےسوالات اور ادیتی سنگھ کے جوابات نذرِ قارئین ہیں۔

کراچی میں ایسا لگتا ہے، جیسے ممبئی میں گھوم رہی ہوں، ادیتی سنگھ
نمائندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

س: آپ نے پاکستان فلم انڈسٹری تک کس طرح رسائی حاصل کی؟

ج: (ادیتی سنگھ ، چہرے پر ہلکی سی مسکان سجاتے ہوئے )اس سلسلے میں بھارت میں میری پہلی ملاقات ہدایت کار جاوید شیخ سے فلم ’’ہیپی بھاگ جائے گی‘‘ کے سیٹ پر ہوئی تھی۔ اس موقع پر ان کی بیٹی اداکارہ مومل شیخ بھی موجود تھیں۔ جاوید شیخ کا میں نے بھارت میں بہت نام سن رکھا تھا۔ اُن سے ملی تو وہ بہت خوش اخلاقی سے ملے۔ میں نے ان کو اپنے بارے میں تفصیل سے بتایا تو انہوں نے مجھے اپنی فلم ’’وجود‘‘ میں کاسٹ کرنے کے لیے پیش کش کی، جسے میں نے فوراً قبول کرلیا۔ بعد ازاں میں شوٹنگ کے لیے پاکستان اور دیگر ممالک بھی گئی۔ پاکستانی فن کاروں کے ساتھ فلم میں کام کرنے کا تجربہ بہت شان دار رہا۔ میں خود کو بہت خوش نصیب تصور کرتی ہوں کہ پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور اورسینئر اداکاروں کے ساتھ فلم میں کام کیا۔ سینئر اداکار ندیم، شاہد، جاوید شیخ اور دانش تیمور سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ہم سب نے فلم ’’وجود‘‘ کی شوٹنگ کے دوران بہت انجوائے کیا۔جاوید شیخ ایک بہترین اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست ہدایت کار بھی ہیں۔ 

انہوں نے مجھے پاکستانی فلم انڈسٹری میں متعارف کروایا۔ ’’وجود‘‘ میں میری اداکاری کو سراہا گیا تو مجھے دوسری بار پاکستانی فلم میں کاسٹ کرلیا گیا۔ اس سلسلے میں اِن دنوں کراچی آئی ہوئی ہوں، جس فلم میں کام کررہی ہوں، اس کا نام بھی بہت مختلف ہے۔ ’’چھا جارے‘‘۔ اس میں میرا ایک خصوصی رقص بھی ہے، جسے آئٹم سونگ کہا جارہا ہے، حالاں کہ وہ آئٹم سونگ نہیں، بلکہ ڈانس نمبر ہے۔ آئٹم سونگ اور ڈانس نمبر میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ آئٹم سونگ کے لیرکس بہت بولڈ اور نا مناسب ہوتے ہیں۔ فلم ’’چھا جارے‘‘ کی ٹیم نئی ضرور ہے، مگر سب میں عمدہ اور دل چسپ فلم بنانے کی صلاحیتیں موجود ہیں۔

س: اس بار پاکستان آنا کیسا لگا؟

ج: میں چوتھی بار پاکستان آئی ہوں، ایسا لگتا ہے کہ کراچی اب میرا دوسرا گھر بن گیا ہے۔ میرا بنیادی تعلق راجستھان سے ہے، لیکن میں ممبئی میں رہتی ہوں۔ کراچی کے لوگ بہت محبتی اور فن کے دلدادہ ہیں۔ میں ساحلِ سمندر پر گھومتی ہوں تو ایسا لگتا ہے، جیسے ممبئی میں ہوں۔ کراچی کی بریانی بہت شوق سے کھاتی ہوں۔ طارق روڈ اور ڈیفنس کے بڑے بڑے شاپنگ سینٹروں میں گئی۔ خوب انجوائے کیا۔ ’’دو دریا‘‘ کا بڑا نام سُنا تھا، وہاں بھی گئی۔ مجھے کراچی میں گُھومتے پھرتے کسی خوف کا احساس نہیں ہوا۔ یہاں دو تین مرتبہ برائیڈل شوٹ کے لیے دُلہن بھی بنی۔اس سے قبل کبھی بھارت میں برائیڈل شوٹ نہیں کیا تھا۔

س: ہمارے فن کار بھارت جاتے ہیں توانہیں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس بارے میں آپ کیا کہتی ہیں؟

ج: مجھے سیاست سے بالکل دل چسپی نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام اور فن کار آپس میں بہت پیار و محبت سے پیش آتے ہیں۔ پاکستانی فن کار بھارت میں بہت مقبول ہیں اور بھارتی فن کاروں کو پاکستان میں بے حد پسند کیا جاتا ہے۔ ہمارے طرزِ زندگی میں بھی کافی مماثلت ہے۔رہن بھی کافی ملتے جلتے ہیں۔ میں نے پاکستانی فلم میں کام کیا تو مجھے کسی بھی جانب سے کوئی غلط بات سننے کو نہیں ملی۔ 

سب نے فلم ’’وجود‘‘ مں میری اداکاری کو پسند کیا اور مجھے یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں بھارت سے آئی ہوں۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدیں ضرور ہیں، لیکن ہمارے دل ملے ہوئے ہیں۔ بھارت میں ان دِنوں ماہرہ خان ، فواد خان، سجل علی، راحت فتح علی خان اور عاطف اسلم کو بہت مِس کیا جارہا ہے۔ صبا قمر کی فلم ’’ہندی میڈیم‘‘ میں کی گئی پرفارمنس کو آج بھی سراہا جارہا ہے۔ سجل علی اور سری دیوی کی نئی فلم ’’موم‘‘ کو کسی نے فراموش نہیں کیا۔ شاہ رخ خان کے ساتھ ماہرہ خان کو فلم بین اب کسی اور فلم میں بھی ایک ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں کو فلم ’’رئیس‘‘ میں سراہا گیا۔ اس فلم نے 100کروڑ سے زائد کا بزنس بھی کیا۔ اس طرح بھارتی فن کار بھی پاکستان آتے ہیں، تو واپس جاکر یہاں کی مہمان نوازی کی تعریف کرتے ہیں۔ امید ہے یہ سلسلہ پھر سے شروع ہوگا۔ دونوں طرف فن کار اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔ سیاسی حالات کچھ بھی ہوں، لیکن دونوں ملکوں کے فن کار ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ تعاون کرتے ہیں۔

س:کس پاکستانی ہیرو کے ساتھ بہ طور ہیروئن کام کرنے کی خواہش ہے؟‘‘

ج: مجھے پاکستانی فلمیں بہت اچھی لگتی ہیں، میری تمنا ہے کہ ہمایوں سعید، فواد خان، شہر یار منور اور فہد مصطفیٰ کے ساتھ کسی فلم میں بطور ہیروئن کام کروں۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے بھارت میں بھی بڑے چرچے ہیں۔

س: ’’آپ نے بھارت میں کن فلموں میں اداکاری کی؟‘‘

ج: میں ابھی نئی ہوں، لیکن اس کے باوجود بھی کم عرصے میں مجھے بالی وڈ کے سپر اسٹار دبنگ خان، سلمان خان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کے ساتھ ٹی وی کمرشل میں بھی کام کیا۔ ’’بک باس‘‘ کے لیے بنائے گئے ٹی وی کمرشل میں مجھے سلمان خان کے ساتھ کام کرنے کا زبردست رسپانس ملا۔اس کے علاوہ دو تین تامل فلموں میں بہ طور ہیروئن کا کیا ہے۔ رانی مکھرجی کے بھائی کی ایک فلم میں کام کیا۔ کچھ نئے پروجیکٹس ابھی زیر تکمیل ہیں۔

کراچی میں ایسا لگتا ہے، جیسے ممبئی میں گھوم رہی ہوں، ادیتی سنگھ
بالی وڈ سپراسٹارسلمان خان کے ساتھ

س: آپ نے فلموں میں اداکاری کے لیے رقص کی کوئی باقاعدہ تریبت حاصل کی؟

ج: مجھے رقص اور اداکاری کا بچپن ہی سے شوق تھا۔ مادھوری ڈکشٹ اور سری دیوی کی فلمیں شوق سے دیکھتی تھی۔ رقص کی باقاعدہ تربیت لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی، کیوں کہ مجھے بچپن ہی سے جنون حد تک رقص کرنے کا شوق رہا ہے۔

س: پاکستانی فن کاروں میں کون کون پسند ہیں؟

ج: میں نے جن فن کاروں کے ساتھ فلموں میں کام کیا۔ وہ سب میرے پسندیدہ آرٹسٹ ہیں۔ گلو کاروں میں راحت فتح علی خان کے گائے ہوئے گیت بہت پسند ہیں۔ ان کا سپر ہٹ گیت ’’ضروری تھا‘‘ بار بار سُنتی ہوں۔ ان کے علاوہ عاطف اسلم ، شفقت امانت علی، کوک اسٹوڈیو شوق سے سُنتی ہوں۔ پچھلے دنوں علی ظفر کی فلم ’’طیفا ان ٹریبل‘‘ دیکھی، مجھے وہ فلم بہت اچھی لگی۔ میں پاکستانی فلموں میں کام کرکے بہت خوش ہوں، مجھے ویزے کے سلسلے میں بھی کوئی مشکلات پیش نہیں آئیں۔ فلموں کے ساتھ میں پاکستانی ڈرامے بھی شوق سے دیکھتی ہوں۔ دانش تیمور کے ٹی وی ڈرامے دیکھے تو ان کی اداکاری اچھی لگی۔ میں بھی پاکستانی ڈرامے میں کام کرنا چاہتی ہوں۔ دسمبر میں پھر پاکستان آنا ہے۔واپش آنے کے لیے جارہی ہوں۔

تازہ ترین
تازہ ترین