• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب مسلح افواج کے سابق سپریم کمانڈر آصف علی زرداری نے جوش جذبات میں للکار ماری تھی کہ’’ آپ کوتو تین سال رہنا ہے،پھر چلے جانا ہے،پھر ہمیں ہی رہنا ہے ،ہمیں تنگ مت کرو ورنہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔میں نے فہرست بنائی تو قیام پاکستان سے اب تک کئی جرنیلوں کے نام سامنے آئیں گے،میں خود لسٹ نکالوں گا پھر تم جواب دیتے رہنا۔ ہمیں پتہ ہے عدالتوں میں کتنے مقدمات چل رہے ہیں ،کتنے چلنے والے ہیں جن میں آپ کے لوگ مجرم ہیں۔ جس دن میں کھڑا ہو گیا صرف سندھ نہیں کراچی سے فاٹا تک سب بند ہو جائے گا۔ ایک طرف بھارت للکار رہا ہے،دوسری طرف کالعدم تنظیمیں سر اٹھانے نہیں دے رہیں ،بلوچستان میں را پھیلی ہوئی ہے اس لئے میں نہیں چاہتا کہ آپ کو تنگ کروں ،یہ ہماری آرمی ہے ،ہمار ادارہ ہے۔‘‘ ان الفاظ کی گونج اتنی شدید تھی کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنمائوں نے بھی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی تھیں جبکہ مفاہمتی پالیسی پر کاربند رہنے کا عزم کرنے والے’’بڑے بھائی‘‘ نے ’’چھوٹے بھائی‘‘ سے ملاقات کرنے سے معذرت کر لی تھی۔اور تو اور مخلوط حکومت کے دستر خوان سے پیٹ بھر کر تناول کرنے والے اتحادیوں نے بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھنے سے معذوری ظاہر کر دی تھی جس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی اور سابق صدر نے خود ساختہ ’’جلاوطنی‘‘ میں ہی عافیت جانی۔ گزشتہ کچھ عرصے سے آصف زرداری کی طرف سے بیرون ملک سے پارٹی امورچلانے کے ساتھ سابق اتحادی جماعت ایم کیو ایم ،ریاستی اداروں اور وفاقی حکومت کے رویے کے بارے میں کبھی کبھار بیانات دے کر اپنی موجودگی اور اہمیت کا احساس دلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے تاہم گزشتہ ہفتے جاری’’کروائے‘‘ گئے مبینہ بیان نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر نہ صرف مشکل میں ڈال دیا بلکہ ہزیمت سے دوچار بھی کر دیا۔ یہ بیان پارٹی رہنمائوں کیلئے گلے کی وہ ہڈی بن گیا کہ جو نہ اگلی جائے نہ نگلی جائے۔ پارٹی پالیسی کے برعکس آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی حمایت پر مبنی مبینہ بیان جس پراسرار طریقے سے جاری کرایا گیا اس نے’’معاملات‘‘ کو درست کرنے کی بجائےمزید پیچیدہ کر دیا کیوں کہ جاننے والے جان چکے تھے کہ اس بیان کو جاری کرنے کے پس پردہ مقاصد کیا تھے اور کس حکمت عملی کے تحت اسے پر اسرار بنایا گیا۔ بعض لوگ میڈیا کو بھی مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ اس نے بغیر تصدیق کے اتنا اہم بیان نشراورشائع کر دیا اور میڈیا پر چڑھائی کرنے کیلئے یہ دلیل بھی اختیار کی گئی کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر ہیں اور جب بیان ان کی طرف سے جاری نہیں کیا گیا تھا تو بغیر تصدیق کئے بڑی بڑی ہیڈلائنز کیوں بنا دی گئیں۔
ایسے سادہ لوح افراد کےلئے عرض ہے کہ یقینامیڈیا بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے جس سے غلطی سرزد ہو سکتی ہے لیکن اس معاملے میں کوئی غلطی نہیں ہوئی بلکہ جو جاری کروایا گیا وہی چینلز پر نشر اوراگلے روز اخبارات میں شائع ہوا۔ جیو نیوز پر یہ بیان پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے جیو نیوز کراچی کے کہنہ مشق صحافی نے بطور بریکنگ نیوز دیا جو کسی طور بھی پیپلزپارٹی کی رپورٹنگ کے حوالے سے چوک نہیں سکتا۔ یہاں کچھ حقائق بیان کرتا ہوں جس سے قارئین کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ سابق صدر آصف علی زرداری کا حالیہ بیان پر اسرار تھا یا اسے جان بوجھ کر پر اسرار بنایا گیا۔ ملک کے سابق اور پیپلز پارٹی کے موجودہ صدر سے منسوب یہ بیان جاری کرنے سے پہلے اسی روز اہم صحافتی حلقوں میں دوپہر بارہ بجے سے یہ خبر لیک کی گئی کہ آج آصف زرداری کا اہم بیان جاری کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد سہ پہر چار بجے بیان جاری کرنے کا وقت بھی لیک کر دیا گیا کہ یہ اہم بیان شام چھ بجے جاری کیا جائے گا۔ لیک کی گئی انہی خبروں کے عین مطابق شام کو یکے بعد دیگرے ٹیلی وژن چینلز کی اسکرینیں سابق صدر آصف علی زرداری کے اس بیان سے سرخ ہوگئیں جس میں مسلح افواج اور آپریشن ضرب عضب کو شاندار الفاظ میں سراہتے ہوئے انہوں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مقررہ مدت پر ریٹائرمنٹ کے اعلان کو قبل از وقت اور عوام کی امیدوں کو مایوسی میں بدلنے کے مترداف قرار دیا تھا،یہی نہیں اسی بیان میں مسلح افواج کی قیادت کے تسلسل کو دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے بھی ناگزیر قرار دیا گیا۔ یہ بیان سابق صدر آصف علی زرداری کے صحافتی دنیا سے تعلق رکھنے والے اسی ’’دوست‘‘ نے جاری کیا جو گزشتہ دو سال سے ان کے بیانات جاری کر رہا ہے۔ یہ وہی دوست ہے جس نے قاتل لیگ کہنے والے آصف زرداری کی چوہدری برادران سے جھپیاں ڈلوادی تھیں۔ سابق صدر کا یہ وہی محسن ہے جس کی سفارش پر سندھ کے سابق وزیر اطلاعات کئی مہینے اپنے عہدے پر براجمان رہتے ہیں۔ یہی وہ کردار ہے جس کی بدولت سندھ کے محکمہ اطلاعات کا بجٹ 70 کروڑ سے بڑھ کر 7 ارب تک جا پہنچتاہے اور یہی وہ اسپائیڈرمین ہے جو آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے دورہ چین کے دوران رحمان ملک کی مرتب کردہ فہرست سے ہٹ کر راتوں رات 8 صحافیوں کے نام نہ صرف نئی فہرست میں شامل کرادیتا بلکہ صبح انہیں چین جانے والے طیارے پر بھی سوار کرا دیتا ہے۔ بیک وقت پاکستان اور لندن کے دو موبائل نمبر رکھنے والے سابق صدر آصف زرداری کے اس ’’خیرخواہ‘‘ نے یہ بیان بھی لندن کے اسی موبائل نمبر سے جاری کیا جس سے اس سے قبل مختلف بیانات جاری کئے گئے تھے اور یہ نمبر صحافتی حلقوں کی اہم شخصیات کے موبائلز میں محفوظ ہے۔ سابق صدر کے اس ’’دوست‘‘ کا یہ وہی نمبرہے جس سے ماہ فروری کے دوران ہی ان سے منسوب دو بیان پہلے بھی جاری ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ایک بیان پی آئی اے کے حالیہ بحران کے دوران 2 فروری کو جاری کیا گیا جس میں سابق صدر نے پی آئی اے ملازمین پر فائرنگ کی عدالتی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا اور وفاقی حکومت کو ضد چھوڑ کر احتجاج کرنے والوں کے مطالبات تسلیم کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اسی نمبر سے دوسرا بیان 16 فروری کو جاری کیا گیا تھا جس میں آصف زرداری صاحب نے میاں صاحب کو مخاطب کرتے کہا تھا کہ میاں صاحب نیب کے ساتھ آپ کی ایف آئی اے بھی تو یہ کام کر رہی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے خلاف مسلسل کام ہو رہا ہے،آپ کا اپنا وزیر کہہ چکا ہے کہ ڈاکٹر عاصم نے کوئی چوری یا کرپشن نہیں کی لیکن پھر بھی اسکو مہینوں سے تنگ کیا جا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنمائوں کو چونکہ پتہ تھا کہ یہ بیان کہاں سے جاری ہوا اور کس نے جاری کرایا اس لئے بعض رہنما تو شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا دم بھرتے ہوئے ابتدائی طور پر یہ ٹکرز بھی چلواتے رہے کہ سابق صدر کا یہ بیان بلاول بھٹو اور فریال تالپور کی مشاورت سے جاری ہوا ہے۔ جب مقاصد پورے ہوگئے تو آصف زرداری صاحب نے ایک معروف سینئر صحافی کو ٹیلی فون کر کے اس بیان کی تردید کر دی تاکہ اسے ’’مبینہ‘‘ اور پر اسرار بنایا جا سکے۔ سینئر صحافی کے ٹوئٹ کے بعد پیپلز پارٹی سندھ کے میڈیا سیل نے سینیٹر سعید غنی کی طرف سے واٹس ایپ پر آصف زرداری کا تصیح شدہ بیان جاری کر دیا جس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق پیرا نکال دیا گیا۔ اب اگر باقی پورا بیان سابق صدر کا تھا تو اس ایک پیرے سے کیسے لا تعلقی اختیار کی جا سکتی ہے۔ چینلز پر مسلسل کئی گھنٹے تک بیان نشر ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کی طرف سے باضابطہ طور پر اس بیان کی تردید کیوں جاری نہیں کی گئی۔ ایم کیو ایم سے تعلقات ہوں یا کراچی میں آپریشن، ڈاکٹر عاصم کا احتساب ہو یا وفاقی حکومت کو تنبیہ سابق صدر کے تمام اہم بیانات پارٹی پلیٹ فارم کے بجائے اسی ذاتی ’’دوست‘‘ کی وساطت سے کیوں جاری کئے جاتے ہیں۔ کیا صرف اسی لئے کہ سر پر پڑے تو سرے محل کی طرح بیان کی ملکیت سے دست بردار ہوا جا سکے لیکن جناب کبھی سب پر بھاری ہونے کی خواہش میں بندہ اپنے ہی بوجھ تلے دب بھی جاتا ہے۔
تازہ ترین