اسلام آباد(نمائندہ مانیٹرنگ سیل، صباح نیوز) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ بظاہر ایون فیلڈ ریفرنس میں شریف خاندان کی رہائی ختم کرنے کے سواکوئی چارہ نہیں ہے، معطلی کے فیصلے نے ملک میں فقہ قانون تباہ کر دیا، ہائیکورٹ ضمانت کیس میں کیسے کہہ سکتی شواہد میں نقائص ہیں، ہائیکورٹ نے فیصلے میں سخت ترین الفاظ، قیاس آرائیوں اور شواہد کا ذکر کیا گیا، عدالت کو پہلے اپیل پر فیصلہ کرنا چاہیے تھا،جائزہ لینگے ہائیکورٹ کس حد تک جا سکتی ہے، یہ مقدمہ ایک فرد کا نہیں بلکہ عدالتی نظام میں بہتری کا معاملہ ہے، اسلئے آیا ہوں، یہ قانون کی تشریح کا معاملہ ہے ، اثاثے بنے کیسے،اڑ کر تو نہیں آگئے تھے، کہیں سے من و سلویٰ تو نہیں اتر آیا، پیسے درختوں پر تو نہیں اگتے، سپریم کورٹ نے تو بڑی مہربانی کی تھی کیس ٹرائل کورٹ بھیج دیا، معاملہ احتساب عدالت بھیجنا ہی نہیں چاہیے تھا، آپ نے قطری خط سمیت چار بار موقف تبدیل کیا، اثاثے جائز ثابت کرنا آپکی ذمہ داری ہے، ایون فیلڈ فلیٹس نواز شریف کے ہیں، کورٹ نے میرٹ پر فیصلہ دیا۔ خواجہ حارث نے بتایا کہ اثاثے نوازشریف کے بڑے بیٹے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملزم نے ثابت کرنا تھا اثاثے کس کے ہیں۔خواجہ حارث نے کہا سر ایسا نہیں ہے، یہ قانون نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا قانون وہ ہو گا جو ہم طے کرینگے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ یہ کیسے ثابت ہوگا کہ اثاثے درست طریقے سے بنائے گئے یا نہیں؟ یہ مقدمہ مکمل تحقیقات کا تقاضا کرتا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 ؍ رکنی خصوصی بنچ نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر)صفدر کی سزا معطلی کیخلاف نیب کی اپیل پر سماعت کی۔ نیب پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ ہائی کورٹ میں دائر آئینی درخواستوں پر اعتراض کیا تھا کہ آئینی درخواست پر زیر سماعت کیس کے میرٹ پر بحث نہیں ہو سکتی، ملزم کی زندگی خطرے میں ہوتو ہی سزا معطل ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر سے مکالمے کے دوران کہا کہ آپ اپنے تحریری نکات پہلے دے چکے ہیں، آپ کے نکات مد نظر رکھ کر ہی فریقین کو نوٹس جاری کیا تھا، نیب مقدمات میں عام طور پر ضمانت نہیں ہوتی، سزا معطلی میں شواہد کو نہیں دیکھا جاتا، کورٹ نے میرٹ اور شواہد پر فیصلہ دیا، پہلے کبھی ایسا فیصلہ نہیں دیکھا، بہتر ہو گا۔ خواجہ حارث کا موقف پہلے سن لیں۔ خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹ کا فیصلہ 47؍ نہیں صرف 10؍ صفحات پر مشتمل ہے اور ہائی کورٹ نے باقی فریقین کی گزارشات لکھی ہیں،خواجہ حارث نے بتایا کہ سب سے پہلے بینکنگ قانون کے تحت ضمانت ختم کی گئی جس پر چیف جسٹس نے کہا اس کیس میں اپیلیں ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں، سزا معطلی رٹ پٹیشن پر فیصلہ کردیا گیا، نیب نے یہ چیز چیلنج کی؟ چیف جسٹس نے کہا ہم نے صرف رحم دلی کے تحت نیب کی درخواست مسترد کی تھی، سپریم کورٹ نے تو بڑی مہربانی کی ہے، ہائی کورٹ ضمانت کی درخواست کا فیصلہ کرتے ہوئے کیسے کہہ سکتی ہے کہ شواہد میں نقائص ہیں، ہم کیوں نہ یہ فیصلہ کالعدم کردیں، کوئی ایک ایسا فیصلہ بتا دیں جو اس طرح کا ہو۔ چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو کہا ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے تھے یا نہیں یہ تو آپ کے مؤکل نے ثابت کرنا تھا، آپ مقدمے کے حکم کے وہ نکات بتائیں جن پر اعتراض ہے۔ خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ ایون فیلڈ کی جائیداد میری ہے جو میرے معلوم ذرائع آمدن سے زائد ہے، فیصلے میں نہ تو ذرائع آمدن کی تفصیل ہے اور نہ ہی جائیداد کی مالیت بتائی گئی جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ بات نہیں ہے۔ ذرائع آمدن تو آپ نے بتانے تھے۔ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا اثاثے بنے کیسے کہیں سے اڑ کر تو نہیں آگئے تھے، کہیں سے من و سلویٰ تو نہیں اتر آیا، پیسے درختوں پر تو نہیں اگتے، قطری خط سمیت اثاثوں کی کئی کہانیاں سنائی گئیں، اصول قانون میں ملزم نے ثابت کرنا تھا کہ اثاثے کس کے ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا یہ نواز شریف کے بڑے بیٹے کے اثاثے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا اس کیس میں آپ کے 4 مؤقف آئے ہیں، تو آپ نے ثابت کرنا تھا کہ کن ذرائع سے جائیداد بنائی، خواجہ حارث نے کہا سر ایسا نہیں ہے، یہ قانون نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا قانون وہ ہو گا جو ہم طے کرینگے۔چیف جسٹس نے کہا یہ نہ ٹرائل کورٹ ہے نہ ہائیکورٹ، یہ سپریم کورٹ ہے۔ خواجہ حارث نے کہا میں عدالت کو آپکی ججمنٹس بتاتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا ʼکیا یہ میری ذاتی ججمنٹس ہیں، ججمنٹس سپریم کورٹ کی ہوتی ہیں کسی کی ذاتی نہیں، آپ اس معاملے پر زیادہ دلائل دینا چاہتے ہیں تو کوئی اور دن رکھ لیتے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا سزا معطلی کیلئے عدالتی فیصلوں میں کہاں لکھا ہے کہ فشنگ کریں، آپ کے خیال میں احتساب عدالت کے فیصلے میں کیا نقائص ہیں۔نواز شریف کے وکیل نے کہا آمدن سے زائد اثاثوں کی فرد جرم عائد کی گئی۔ دوران سماعت نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے چیف جسٹس کو مشورہ کیا دیا کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں، بہتر ہو گا آپ آرام کر لیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹرز نے آرام کا مشورہ دیاہے اور کام سے روکا لیکن عدالتی ذمہ داریوں سے کیسے بری ہو سکتا ہوں، اہم ترین معاملہ ہونے کے باعث سماعت کر رہا ہوں، عدالت نے فریقین وکلا کے دلائل سننے کے بعد شریف خاندان کی سزا معطلی کیخلاف نیب کی اپیل پر سماعت 12 نومبر تک کیلئے ملتوی کردی۔