اگلے روز ایک دوست نے از رہ تلطف درویش کے حافظے کی تحسین کی۔ ذرہ نوازی پر اظہار تشکر تو کیا لیکن اپنی کوتاہ علمی کا احساس اس قدر گہرا ہے کہ خجالت ہی کا ساماں ہوا۔ یہ جو لکھنے میں ادھر ادھر کے واقعات جنگل کے اندھیرے میں چہار سو سے یورش کرتے ہیں، یہ حافظہ تھوڑی ہے، یہ تو تلوؤں کے چھالے ہیں، جگر میں بھالے ہیں، بھیروں کی بندش میں درد کے جھالے ہیں۔ 1558 میں مرنے والی انگلستان کی ملکہ میری اول کے دل پر اس کے اپنے لفظوں میں " بندرگاہ کیلے کے نقشے" کا داغ تھا۔ ہمارے دلوں پر تو سات دہائیوں کی برہنہ پا مسافت میں دریائے ایراوتی کا ڈیلٹا ابھر آیا ہے۔ گھاؤ اور انگور کے اس سنجوگ سے ہماری تاریخ عبارت ہے۔
ان دنوں ایک نئے امتحان کی ابتدائی آزمائش ہے۔ 27 دسمبر 2007ء کی خون آشام رات کے بعد رفو گری کی مشق میں گزارے دس برس درجن بھر بلند آہنگ اور شپرہ چشم صحافیوں کی شبینہ ژاژخائی کی نذر ہو گئے۔ شاید اتنے ہی نادیدہ چہرے پس پردہ بھی ہوں گے۔ گویا کل ملا کے دو درجن سائے اور 22 کروڑ جیتے جاگتے انسان جن کے مفلوک الحال چہروں پر سانس کی مشقت کا پسینہ کلر زدہ زمین کی دریدہ تصویر چھوڑ گیا ہے۔
ابھی تو فوری قرض کے لالے پڑے ہیں۔ کاروبار مملکت کی رفتار استوار نہیں۔ معیشت کا نقشہ کسی رخ بیٹھ نہیں رہا۔ اور اس پر یہ جان لیوا اندیشہ کہ قیامت کا یہ ہنگامہ تو پردے پر سائے اور روشنی کی تمثیل کا جزوی اشارہ ہے۔ کاٹھ کے ان پتلوں کی نقل و حرکت کا نیم تاریک نوٹنکی سے باہر پھیلی اس وسیع اور بے رحم دنیا سے کوئی تعلق نہیں جہاں کوئی ملک دوست نہیں ہوتا۔ ہر چارہ گر عارضی مرہم کے عوض بیوہ ماں کی بالیاں اتار لے جاتا ہے۔ فرق یہ کہ کسی ساہو کار کے قرض کی شرح سود زیادہ ہے تو کسی سود خور کی تمسک پر گنجلک عبارت میں طویل محتاجی کی وعید ہے۔ احترام کا سزاوار وہی ہے جس کے کیسے میں سکوں کی چمک ہے، ہتھیاروں کی دھمک ہے، جو اکثریت کی لاعلمی پر اختیار رکھتا ہے، جو اقلیت کے خوف کو شطرنج کے مہروں کی طرح حرکت میں لا سکتا ہے۔
اکیسویں صدی کی بے رحم معیشت کے طوفان میں گزشتہ صدی کے آدرش ایک ایک کر کے غرق آب ہو رہے ہیں۔ جمہوریت اب کمزور، غریب اور پچھڑے ہوؤں کی ڈھال نہیں، اکثریت کا جبر ہے۔ انسانی حقوق قومی خود مختاری کے نام پر جبر کا لائسنس مانگنے والے پشتینی جابروں کی صنعت و حرفت کا حصہ بن چکے۔ ایک صحافی کی موت بے معنی ہے کیونکہ 350 ارب ڈالر کا اسلحہ بیچنا ہے۔ عراق، شام، افغانستان اور یمن کے شمشان گھاٹ سے غزہ کی پٹی اور کاشغر کی برمودا مثلث تک سلگتے ہوئے ملبے پر دم توڑتے انسان بے معنی ہیں کیونکہ موت غلبے اور بالادستی کے کھیل کا ناگزیر حصہ ہے۔ انسانی آزادیوں کی چائنا کٹنگ ضروری ہے تاکہ تعصب اور دشمنی کے اسلحہ خانے آباد رہیں۔ عدالت کی راہداریوں میں قانون کے نام پر ناانصافی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے بٹ رہے ہیں۔ خبر کی کھیتی میں زورآور کے مویشی گھس آئے ہیں۔ استحصال کے خلاف جنگ کا 86سالہ رہنما بیان دیتا ہے کہ قانونی طور پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی، اس لئے عدالتی چارہ جوئی سے قاصر ہیں۔
یہ وہی قانون کا محافظ رہنما ہے جسے اٹھارہ برس پہلے لاہور کے پرانے ائیر پورٹ پر ایک صحافی نے روک کر پوچھا کہ کیا احتساب (نیب) کا قانون ظالمانہ نہیں ہے؟ ترقی پسند قانون دان نے جواب دیا، Yes, and I want it to be more Draconian (ہاں ہے اور میں چاہتا ہوں کہ یہ قانون اور بھی سخت ہو)۔ اب کسے رہنما کرے کوئی؟ فیض صاحب نے ایسے ہی کسی موڑ پر کہا تھا، جو کچھ بھی بن نہ پڑا فیض کٹ کے یاروں سے/ تو رہزنوں سے دعا و سلام ہوتی رہی۔ سادہ لفظوں میں شاعر یہ کہتا ہے کہ محترم چوہدری نثار علی خان کے تازہ فرمودات سے رجوع کیا جائے۔
چوہدری نثار صاحب فرماتے ہیں کہ اگر میاں نواز شریف نے ان کے مشوروں پر عمل کیا ہوتا تو مسلم لیگ نواز آج بھی اقتدار میں ہوتی۔ چوہدری نثار علی کے مشورے کیا ہیں، الہ آباد میں مردہ زندہ کرنے کے صدری نسخے ہیں۔ ستمبر 2017میں چوہدری صاحب نے مشورہ دیا تھا کہ اداروں کے ساتھ تصادم سے گریز کرنا چاہئے۔ چوہدری صاحب نے یہ صراحت البتہ نہیں فرمائی تھی کہ اداروں کے ساتھ تصادم کی وجہ نزاع کیا ہے؟ اور چوہدری صاحب نے یہ بھی نہیں بتایا تھا کہ اگر ان کا مشورہ پورے طور پر تسلیم کر بھی لیا جاتا تو اس سے نتائج کس طرح مختلف ہو جاتے۔ مارچ 2018میں سینٹ کے انتخاب کی بساط میں کیا تبدیلی آ سکتی تھی اور کیسے؟
ہم جیسے کم عقل اب ٹھیک سے سمجھ گئے ہیں کہ اداروں سے مراد دستور میں دی گئی حد بندی نہیں بلکہ طاقت کا ماورائے دستور آفاقی بندوبست ہے۔ اس تناظر میں چوہدری نثار علی کے مشوروں میں ایک استقامت پائی جاتی ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونی چاہئے۔ ان کی رائے میں طالبان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی ملکی مفاد میں نہیں تھی۔ وفاقی حکومت کا دستور کے آرٹیکل چھ کی روشنی میں عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنا غلط تھا۔ اگرچہ چوہدری نثار علی 1985 میں پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے لیکن ان کی فکری جڑیں تاریخ میں بہت دور تک جاتی ہیں۔ یہ وہی سیاسی مشورہ ہے جو سر سکندر حیات قائد اعظم کو دیا کرتے تھے۔ آخر ملک کو آزاد کرانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اور اگر ایسا ہو ہی گیا تھا تو اس میں انتخابات کی لایعنی روایت کیوں شروع کی گئی؟
سوال یہ ہے کہ سیاست کا حتمی مقصد اقتدار ہے یا اقتدار قومی ترقی کے نصب العین کی طرف لے جانے کا ذریعہ ہے۔ چوہدری نثار علی کے عافیت پسند مشورے نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے کہ شہباز شریف پس دیوار زنداں ہیں اور کوئی دن جاتا ہے کہ میاں نواز شریف دوبارہ جیل پہنچ جائیں گے۔ چوہدری نثار علی خان کو البتہ اس طرح کا کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ یہی ان کی اصابت رائے کا حتمی پیمانہ ہے۔ چوہدری نثار علی خان صاحب کے مشورے سے 6 اکتوبر 1998ء کو ایک تقرر کیا گیا تھا۔
واللہ ایسا خوش آئند تقرر کہ اس کے صدقے میاں نواز شریف کو مع اہل و عیال برسوں سرزمین مقدس پر قیام کا اعزاز نصیب ہوا۔ آج کل تقرر کے معیارات ہی زیربحث ہیں۔ 31سالہ گریجویٹ نوجوان کو خزانے کا پارلیمانی سیکرٹری بنانا تقرر کی اہلیت پر پورا اترتا ہے۔ پچپن برس پر محیط بے داغ تدریسی، ادبی، علمی، تمدنی، سفارتی اور انتظامی تجربہ اشارہ ابرو پر تضحیک کی نذر کیا جا سکتا ہے۔
ہماری تاریخ میں بارہا ایسا ہوا کہ احتساب کے کٹہرے میں کھڑے ہونے والے اگلے روز محتسب کے درجے پہ فائز ہو گئے۔ چنانچہ یہ پاکی داماں کی حکایت نہیں۔ مقدمہ یہ ہے کہ اگر حرف قانون بے توقیر ہو جائے گا تو کچھ بعید نہیں کہ کسی روز ہ معروف اور غیرمعروف تقرریاں محدب عدسے سے پرکھی جائیں۔ اگر قومی اور بین الاقوامی سطح کے عالم کی تقرری غیرقانونی قرار پا سکتی ہے تو کیا پھر کچھ انتظار نہیں کرنا چاہئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد منصب بھی غیر کفو پا سکتا ہے؟