• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب کیس بند نہیں کراسکتا، ڈی جی سے کہہ دیا لوگوں کا احترام کریں، چیف جسٹس

لاہور (نمائندہ جنگ، مانیٹرنگ سیل) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ نیب کیس بند نہیں کرا سکتا، نیب سے کہہ دیا لوگوں کا احترام کریں، لوگ سوسائٹیوں پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں، ٹرانسفر ہوں تو یہ سیاسی لوگوں کی سفارشیں ڈھونڈ تے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں گریٹر لاہور سوسائٹی کیس کی سماعت کی ،سابق نگراں وزیر قانون پنجاب ضیا حیدر رضوی عدالت میں پیش ہوئے، سابق نگراں وزیر قانون پنجاب ضیا حیدر رضوی نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ گریٹر لاہور سوسائٹی کیس میں مجھے نیب میں بھی بلایا گیا ہے، نیب کا کیس بند کروادیں جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کیس بند نہیں کروا سکتا، اتنا کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک ہفتے میں تحقیقات کریں اورآپ کو فارغ کریں،چیف جسٹس نے کہا کہ ضیا حیدر صاحب جب نیب میں آئیں تو ان سے احترام سے پیش آیا جائے ،سپریم کورٹ نے نیب کو گریٹر لاہور سوسائٹی سے متعلق 15روز میں تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا ۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس پاکستان نے یونائیٹڈ کرسچن ہاسپٹل لاہور کی بحالی کا حکم دیتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب سے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں یو سی ایچ کی بحالی کے معاملے پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ مسیحی برادری کی جانب سے یہ لاہور کے شہریوں کیلئے اچھا اسپتال تھا لیکن اب یہ کھنڈر بن چکا ہے ۔چیف جسٹس نے یو سی ایچ ٹرسٹ کو چیف سیکرٹری سے تعاون کی ہدایت کرتےہوئے ایک ہفتے میں بحالی کے منصوبہ کی رپورٹ طلب کرلی ۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس پاکستان نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں مفاد عامہ کی درخواست پر سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے ایل ڈی کی جانب سے نجی اسکول ماکان کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے معاملے پر پنجاب حکومت، ایل ڈی اے اور دیگر فریقین سے رپورٹ طلب کر لی۔ جوڈیشل ایکٹوازم پینل کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ایل ڈی اے نے غیر قانونی طریقے سے نجی اسکول مالکان کو پلاٹ فروخت کیے، کروڑوں کے پلاٹ اونے پونے داموں فروخت کر کے نجی اسکول مالکان کو فائدہ پہنچایا گیا،اربوں روپے کمانے والے اسکول مالکان نے جیبیں بھرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ، ایل ڈی نے مختص پلاٹ اسکول مالکان کو کس قانون کے تحت اور کس قیمت پر فروخت کیے گئے یہ جاننا ہر شہری کا بنیادی حق ہے لہٰذا عدالت متعلقہ حکام سے وضاحت طلب کرے۔

تازہ ترین