• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 ڈاکٹر عبد التوحید خان

 شیزوفرینیا ایک شدید ذہنی عارضہ ہے،جس میں مبتلا فرد کی سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت متاثر ہونے کے ساتھ جذبات، خیالات اور طرزِعمل بھی بہت تبدیل ہوجاتے ہیں۔یوں تو اس بیماری کے لاحق ہونے کی کوئی مخصوص عُمرنہیں، لیکن مجموعی طور پر یہ مرض نوجوانی ہی میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق زیادہ تر مَرد 15سے20برس کی عُمر اور خواتین 25سے35برس میں اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ شیزوفرینیا کا مرض دُنیا بھر میں عام ہے،جس کا اندازہ ان اعداد وشمار سے لگائیے کہ ہر ایک سو میں سے ایک فرد اس مرض کا شکار ہے۔

ہمارے معاشرے میں شیزوفرینیا کے حوالےسے بہت غیر حقیقی تصورات پائے جاتے ہیں ۔عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ اگر گھر کا کوئی فرد اس مرض میں مبتلا ہوجائے، تو اوّل تو اسے مریض ہی نہیں سمجھا جاتا اور اس کی باتوں اور حرکات پراس طرح کاردِّعمل ظاہر کیا جاتا ہے کہ جارحانہ پن مزید بڑھ جاتا ہے۔چوں کہ ابتدائی مرحلےپر مریض کو ایسی آوازیںسُنائی دیتی ہیں ،جو عام افراد کو سُنائی نہیں دیتیںیا غیر موجود اشیاءنظر آتی ہیں، تو اسے جادو، ٹونا یا جن بھوت یا کسی مافوق الفطرت شےکا تسلط سمجھ کر اہلِ خانہ علاج کے لیےمتعلقہ ڈاکٹر کی بجائے نام نہاد اتائیوں،نیم حکیموں، جعلی پیروں اور عاملوں سے رجوع کرنے لگتے ہیں،اور یہ مرض کے علاج کی بجائے مریض کے لیے مزید پیچیدگیوں کا باعث بن جاتا ہے۔بعض اوقات مریض کو یقین ہوجاتا ہے کہ دوسرے اس کے خیالات سُنتے یا چُرا لیتے ہیں۔ کوئی اپنے خیالات اُس کے ذہن میں منتقل کررہا ہے یا اُس کی حرکات و سکنات کنٹرول کررہا ہے۔جوں جوں مریض کے ذہن میں یہ خیال پختہ ہوتا چلا جاتا ہے، سب سے لاتعلقی اختیار کرنےلگتا ہے۔ بعض افراد اپنی شخصیت اور ذاتی صحت کی جانب سے سخت لاپروائی برتنے لگتے ہیں۔بعض مریض موسم کے برعکس عمل کرتے ہیں۔ جیسےسخت گرمی میں گرم کپڑے پہننا۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض شیزوفرینک افراد پُرانے کپڑے پہن کر یا پھر موسم کی شدّت سے بے نیاز، ننگ دھڑنگ بھی سڑکوں پر گھومتے پھرتے ہیں۔عورت کا مردانہ آواز نکالنا یا پھرمرد کا زنانہ کپڑے پہن لینا، اکثر مریضوں کا چلتے پھرتے خودکلامی کرنا یا اَن دیکھے افراد سے باتوں میں مشغول رہنا بھی عام علامات ہیں۔پھر کبھی کسی اَن جانی چیز سے خوف زدہ ہو کر یا بغیر کسی وجہ کے بھاگنے دوڑنے لگتے ہیں اور تھک ہار کر کسی بھی جگہ بیٹھ جاتے ہیں۔ ان مریضوں کے مزاج میں غصّہ، اکتاہٹ، مایوسی، اشتعال اور ہیجان بڑھ جاتا ہے۔ یہ خود کو ایک خیالی دنیا میں قید کرلیتے ہیں اور حقیقی دنیا سے ان کا رابطہ برائے نام ہی رہ جاتا ہے۔بعض مریضوں کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی خاص خُوبی کے حامل ہیں اور انھیں کسی خاص مقصد کے لیے دنیا میں بھیجا گیا ہے۔وہ خود کو اللہ کا برگزیدہ بندہ سمجھنے لگتے ہیں۔کچھ مریض ایسی آوازیں سُنتے ہیں، جو ان کے نزدیک غیب سے موصول ہونے والے احکامات ہیں۔ اکثر مریض ان غیبی احکامات پر عمل درآمد بھی کرتے ہیں، جو زیادہ تر ان کے اہلِ خانہ اور معاشرے ہی کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔

شیزوفرینک افراد میں شک کا مادّہ اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ چاہےکوئی گھر کا فرد ہو یا دوست، وہ اُسے اپنا جانی دشمن ہی تصوّر کرتے ہیں۔ اگر دو افراد عام باتیں بھی کررہے ہوں، تو انہیں لگتا ہے کہ اُن کے خلاف سازش کی جارہی ہے۔بعض اوقات انھیں تمام افراد ہی اپنے خلاف کسی گہری سازش میں مصروف نظر آتے ہیں اور وہ خود کواُن سے محفوظ رکھنے کے لیے مارپیٹ اور تشدّد شروع کردیتے ہیں۔بعض اوقات ان کے خود ساختہ خیالات میں اس قدر شدّت آجاتی ہے کہ اگر انھیں سمجھانے کی کوشش کی جائے، تو وہ مزید مشتعل ہوجاتے ہیں۔ایسے مریض مرنے مارنے کی باتیں بھی کرتے ہیں،توان سے غیر متوقع اعمال بھی سرزد ہو جاتے ہیں۔ مثلاً اچانک بیٹھے بیٹھے ہنسنا، رونا اورگھنٹوں بلاتکان بولتے رہنا وغیرہ۔ چند ایک تو کسی تکلیف دہ حالت میں گھنٹوں خود کو جامد کرلیتے ہیں۔ چند مریضوں کی نیند اُڑ جاتی ہے اور کچھ شدید مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔مشاہدے میں ہے کہ اکثر غصّے کی حالت میں، جنونی کیفیت میں مبتلا ہو کرتوڑ پھوڑ کرتے یا خُوب شور مچاتے ہیں۔ جب اُن کی ناراضی، غصّے یا ہیجانی کیفیت کی وجہ پوچھی جائے،تو کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے پاتے، کیوں کہ انھیں اپنی بیماری کا شعور ہوتا ہے، اور نہ ہی اپنے اعمال یا خیالات میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی۔وہ اپنے غیر حقیقی خیالات پر یقین رکھتے ہیں۔ بعض اوقات یہ مرض دَوروں کی صُورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔مریض کچھ عرصے بہتر رہتا ہے، مگر پھر دوبارہ اُسی کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے۔ ان دَوروں کا کوئی مخصوص وقت نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کی طوالت کے بارے میں کچھ وثوق سے کہا جاسکتا ہے۔ بعض اوقات یہ دورے مہینوں اور برسوں پر محیط ہوتے ہیں، مگر حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کون سی بات اس دَورے کا سبب بنتی ہے، البتہ غیر ساز گار ماحول، موسمی تبدیلی، ناپسندیدہ شخصیات، نشہ آور ادویہ کا استعمال بڑی وجوہ میں شمار کی جاسکتی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں یہ تصوّر عام ہے کہ اکثر افراد معمولی واقعات کو ذہن پر سوار کرلیتے ہیں، اور وہی آگے چل کر شیزوفرینیا کا سبب بنتے ہیں۔ علاوہ ازیں،خواتین کی شادی میں تاخیر، اعصابی تھکن، محبّت میں ناکامی، جسمانی کم زوری، احساسِ کم تری و برتری، کاروبار میں نقصان وغیرہ بھی اس مرض کا سبب بن سکتے ہیں۔ یاد رکھیے، ان تمام تر مفروضات کا حقیقت سے قطعاً کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس مرض کا سبب جادو ٹونا یا بھوت پریت اور مافوق الفطرت چیزوں کے زیرِ اثر آنا ہے۔یہ تمام تصوّرات لاعلمی کے باعث جنم لیتے ہیں۔ اگرچہ اس مرض کے حتمی اسباب کا تاحال سراغ نہیں لگایا جاسکا، لیکن ایسے قوی شواہد موجود ہیں، جن کے بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ شیزوفرینیا کا سبب، دماغ کی ساخت میں ہونے والی تبدیلیاں، کیمیائی مادّوں’’ Dopamine اور Serotonin‘‘کی کمی اور دماغی زخم وغیرہ ہیں۔ تاہم، چند غدود کے افعال میں بے قاعدگی بھی مرض کا سبب بن سکتی ہے، تو بعض اوقات دماغ پر لگنے والی چوٹ بھی وجہ بن جاتی ہے۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض افراد ذہنی دبائو یا تکلیف دہ خیالات سے راہِ فرار حاصل کرنے کے لیے ادویہ یا نشہ آور اشیاء کا استعمال کرنے لگتے ہیں۔بےشک وقتی طور پران کاذہن پُرسکون ہوجاتا ہے،لیکن متعدد کیسز میں یہی سبب مرض کی ابتدا کا باعث بن جاتا ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر مریضوں کی ذہنی استعداد نارمل ہوتی ہے۔ یعنی یہ مریض ذہنی طور پر پس ماندہ نہیں ہوتے، صرف ذہنی مریض ہوتے ہیں اور علاج کے ساتھ اپنی ذہنی صلاحیتوں کے باعث نمایاں کارنامے انجام دے سکتےہیں۔ جیسا کہ جان نیش(John Nash)کی زندگی پر ایک فلم’’beautiful mind‘‘بنائی گئی، تو اُس میں دکھایا گیا کہ مرض کی موجودگی کے باوجود نیش نے کس طرح نام پیدا کرکے نوبل پرائز حاصل کیا۔ اسی طرح مشہور زمانہ مصوّر،Vincent Van Goghبھی اس بیماری کا شکار تھے،مگر انھوں نے عالم گیر شہرت حاصل کی۔

شیزوفرینیا سے متاثر افراد ابتدا میں نارمل اور معاشرے کے فعال رُکن ہوتے ہیں، لیکن یہ مرض آہستہ آہستہ اپنے انتہائی درجے تک پہنچ کر ایک ذہین، صحت مند اور تعلیم یافتہ انسان کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اگر مرض کی ابتدا ہی میں مستند معالج سے علاج کروالیا جائے، تو صرف اینٹی سائیکوٹیک ادویہ ہی کے استعمال سے ان کی علامات میں بہتری آجاتی ہے، لیکن اگرعلامات کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیا جائے،تو مرض شدید نوعیت اختیار کرلیتاہے اور جو فرد کبھی صحت مند، ہنستی مُسکراتی زندگی گزارتا تھا، وہ معمولاتِ زندگی ادا کرنے تک سے قاصر ہوجاتا ہے۔مزیدستم یہ ہے کہ جب ان مریضوں کی حالت قابلِ رحم ہوجا تی ہے، تو انھیں تنہا کردیا جا تا ہے۔عموماً گھر والے یا تو کسی کمرے میں بند کردیتے ہیں یا پھر اسپتال میں داخل کروا کے بھول جاتے ہیں۔تاہم، اب جدید ادویہ کے ذریعے ان مریضوں کی اکثریت کا علاج گھر ہی پر ممکن ہے، البتہ شدت کی صورت میں مریض کو کچھ عرصے کے لیے اسپتال میں داخلے کی ضرورت پڑسکتی ہے،جہاں علاج کے ساتھ مرض کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف انداز سے کاؤنسلنگ کی جاتی ہے، لیکن چوں کہ شیزوفرینک افراد خود کو مریض سمجھتے ہی نہیں، اس لیے وہ علاج معالجے کے معاملےمیں تعاون بھی نہیں کرتے،لہٰذ ا ان سے کبھی پیار، کبھی زور زبردستی والا رویّہ اختیار کرنا پڑتاہے۔ ادویہ کے استعمال کا دورانیہ مختلف ہو سکتا ہے، جو اکثر برسوں پر محیط ہوتا ہے۔یہ ادویہ ماہر ڈاکٹر کی زیرِ نگرانی ہی استعمال کی جائیں۔علاج معالجے کے ضمن میں چند فلاحی ادارے اور سرکاری اسپتال بھی مفت علاج کی سہولت فراہم کررہے ہیں۔یاد رکھیے، علاج کے لیے جہاں ادویہ اور کاؤنسلنگ بےحد ضروری ہیں، وہیں گھر والوں کا مناسب برتائو بھی علاج کا ناگزیر حصّہ ہے۔ نیز، ماحول کی تبدیلی بھی بے حد خوش گوار اثرات مرتّب کرتی ہے۔

شیزوفرینیا سے متاثر افراد صرف اہلِ خانہ ہی کی نہیں، دیگر افراد کی بھی خاص توجہ کے مستحق ہوتےہیں،لہٰذا ان کا مذاق اُڑانے اور تضحیک کا نشانہ بنانے کی بجائے ہمیشہ محبّت، نرمی اور شفقت کا روّیہ اختیار کیاجائے کہ ان کا علاج اور تحفّظ ہم سب کا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ہماری ذرا سی توجّہ سے کوئی مریض اپنی باقی زندگی سکون سے بسر کرنے کے ساتھ دوبارہ معاشرے کا کارآمد فرد بن جائے۔

(مضمون نگار، جنرل فزیشن ہیں اور الخدمت اسپتال،کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں) 

تازہ ترین