ایک زمانہ تھا،جب ہندوستان اور پاکستان کی فلموں میں بہت اعلیٰ درجے کی لوریاں گائی جاتی تھیں،جوطویل مدت تک سامعین کے ذہنوں پر گہرا تاثر چھوڑتی تھیں،لیکن اب نہ مائیں بچوں کو لوریاں سنا کر انہیں سلاتی ہیں،نہ فلموں میں لوریوں کا رجحان ہے،طویل عرصے بعدگزشتہ دنوں ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ’’ٹھگز آف ہندوستان ‘‘میں امیتابھ بچن کی آواز میں ایک لوری کو شامل کیا گیاہے۔اس ہفتےماضی کی چند مقبول لوریاں نذر قارئین ہیں:
ماضی کی مقبول بھارتی فلم ’’البیلا‘‘میں شامل ہونے والی شاعر راجندر کرشن کی لوری ایک عرصے تک یاد رکھی گئی،جس کے بول تھے،
دھیرے سے آجا ری اکھین میں نندیا‘
آجا ری آجا دھیرے سے آجا
لے کر سہانے سپنوں کی کلیاں‘
آکے بسا دے پلکوں کی گلیاں
چپکے سے نینن کی بگین میں نندیا آ جا ری آ جا‘
دھیرے سے آجا
لتا منگیشکر کی مدھرآواز میں،موسیقی رام چندرا نے ترتیب دی تھی۔اس لوری میں لتا کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولا اور اسے بچوں اور بڑوں میں بے حد پسند کیا گیا۔اسی طرز پر1955میں پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم ’’نوکر‘‘کے لیےقتیل شفائی کی لکھی ہوئی لوری یا نظم’’راج دلارے توہے دل میں بساؤں، توہے گیت سناؤں‘‘بے حد مقبول ہوئی۔اس کی موسیقی جی اے چشتی نے دی تھی اور اسے ماضی کی گلوکارہ کوثر پروین نے گایا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اس مقبول لوری کی بنا پر ہی فلم ’نوکر‘ نے گولڈن جوبلی کی تھی۔یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان اور بھارت کی فلموں میں ایک لوری شامل کرنا ٹرینڈ بن چکا تھا۔اسی تاثر کو لے کر 1955میں ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ’’وچن‘‘میں آشا بھونسلے کی آواز میں گائی جانے والی لوری ’’چندا ماما دور کے‘‘کو بھی بہت پسند کیا گیا،اسے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔اس کی موسیقی شاعر و موسیقار روی نے دی تھی۔ساحر لدھیانوی نے فلم ’’جیون جیوتی‘‘کے لیے ایک لوری لکھی جسے لتا منگیشکر کی آواز میں ریکارڈ کروایا گیا تھا۔اُن دنوں لتا کی آوازمیں گائے جانے والے نغمے فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے،لیکن جب لوری کا رجحان بڑھا تو لتا منگیشکرکی آواز میںگائی جانے والے لوری کے بول فلم بینوں کے دلوں کو چھو گئے۔یہی وجہ ہے کہ طویل عرصے تک ایسے کلاسک شاہ کاروں کو یاد رکھا گیا،تاہم پر اثر شاعری کی بدولت لکھی جانے والی لوریوں کے لیےلتا کے علاوہ دیگر گلوکاراؤں کی آوازوں کو بھی پسند کیا گیا۔ 1958ء میں ریلیز ہونے والی کامیاب بھارتی فلم ’’لاجونتی‘‘ میں مجروح سلطان پوری کی لکھی گئی لوری ’’چندا رے چندا رے چھپے رہنا‘‘ بہت پسند کی گئی،اسے گیتا دت نے گایا تھا،انہیں سریلی آواز کی ملکہ کہا جاتا تھا۔گیتا دت کی ہی آواز میں1959میں بمل رائے کی فلم ’’سجاتا‘‘کے لیے گائی گئی لوری ،جسے مجروح سلطان پوری نے لکھاتھااور اس کی موسیقی ایس ڈی برمن نے ترتیب دی تھی،اس کے بول تھے،
ننھی کلی سونے چلی، ہوا دھیرے آنا
نیند بھرے پنکھ لیے جھولا جھلانا
چاند کے رنگ سی گڑیا، نازوں کی ہے پلی
چاندنی آج آنا میری گلی‘ ننھی پری سونے چلی
اس لوری کے بول بے حد مشہور ہوئے۔ 1963میں فلم ’’ایک دل سو افسانے‘‘ کے لیے شاعرشیلیندرا کی لوری کولتا منگیشکر کی آواز میں ڈھالا گیا،یہ لوریفلم کی کامیابی کی ضمانت بنی اور اسے بہت پسند کی گیا،اس کے بول تھے،’’دور کے او چاند‘‘۔محمد رفیع کی آواز میں 1966 میںریلیز ہونے والی فلم ’’برہم چاری‘‘ میں ایک لوری شامل کی گئی ،جو ان کی مدھر گائیکی کی مثال ہے۔اس کے بول تھے۔ ’’میں گائوتم سو جائو‘‘۔
پاکستانی فلموں میں بھی اعلیٰ پائے کی لوریاں گائی گئیں۔ میڈم نورجہاں کی آواز میں لوری’’چندا کی نگری سے آ جاری نندیا‘‘،کو بہت پزیرائی ملی،اس کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ 1966میں بننے والی متعدد فلموں میں لوریاں شامل کی گئیں،جنہیں شائقین فلم سے بہت پذیرائی ملی۔ فلم ’’تصویر‘‘ میں حمایت علی شاعر کی لکھی ہوئی لوری،’’سوجا میری آنکھوں کے تارے‘‘ کو بلقیس بیگم نے گایا جبکہ خلیل احمد نے موسیقی ترتیب دی تھی۔اسی طرح فلم ’’مجبور‘‘میں مجیب عالم اور مالا کی گائی ہوئی لوری ’’آجا پیاری نندیا‘‘کوبھی بہت پسند کیا گیا۔اس کی موسیقی تصدق حسین نے دی تھی۔اسی دوران حمایت علی شاعر کی مشہور فلم ’’لوری‘‘ کی لوری،
چندا کے ہنڈولے میں
اُڑن کھٹولے میں
امی کا دلارا ابو جی کا پیارا سوئے
نندیا جھلائے تجھے جھولنا
دھیرے دھیرے نندیا تو اکھیوں میں آنا
میٹھے میٹھے پیارے پیارے سپنے دکھانا
پریوں کی نگری کی سیر کرانا
اس شاہ کارنے دھوم مچا دی۔ اسےدو گلوکاراؤں نے گایا تھا۔ اور یہ لوری دو اداکاراؤں پر فلمائی گئی تھی۔ اداکارہ زیبا پر فلمائی گئی لوری کو ثریا حیدرآبادی نے گایا تھا اور اداکارہ طلعت صدیقی پر فلمائی گئی لوری، طلعت صدیقی ہی کی آواز میں ریکارڈ ہوئی تھی۔اس کی موسیقی خلیل احمد نے ترتیب دی تھی۔اداکارہ مسرت نزیر کی فلم ’’زہر ِعشق‘‘میں قتیل شفائی کی لکھی گئی اس لوری نے بہت مقبولیت حاصل کی۔’’سوجا ،سوجا لال ہمارے‘‘۔ اسے زبیدہ خانم نے گایا تھا،جبکہ خورشید انور نے موسیقی دی تھی۔
فلمی لوریوں کا زکر ہو اور 1976کی سپرہٹ بھارتی فلم ’’کبھی کبھی‘‘کی لوری’’میرے گھر آئی ایک ننھی پری‘‘کا تذکرہ نہ کیا جائے تو بات ادھوری ہی رہے گی۔نغمگی سے بھرپوراس لوری کونغمہ نگارساحر لدھیانوی نے تخلیق کیا تھا اورموسیقارخیام کے دھنوں نے اسے پر اثر بنایاتھا،جبکہ لتا منگیشکر کی مدھر آواز نے اس تخلیق کو امرکردیا تھا۔اس لوری کو وحیدہ رحمان پر فلمایاگیا تھا۔اس کے بول آج بھی گنگنائے جاتے ہیں۔
میرے گھر آئی ایک ننھی پری
چاندنی کے حسین رتھ پہ سوار
میرے گھر آئی ایک ننھی پری
اس کی باتوں میں شہد جیسی مٹھاس
اس کی سانسوں میں عطر کی مہکار
ہونٹ جیسے کہ بھیگے بھیگے گلاب
گال ایسے کہ دہکے دہکے انار
میرے گھر آئی ایک ننھی پری
1979میںشاعر آنند بخشی کی لکھی ہوئی فلم ’’مکتی‘‘ کی خوبصورت لوری آج بھی مائیں گنگناتی ہیں،’’للا، للا لوری،دودھ کی کٹوری‘‘ کے موسیقار آر ڈی برمن تھے ،جسے گلوکار مکیش گایا تھا۔
ایک وقت تھا جب فلم کی تیاری کے مراحل میں یہ بات سب سے پہلے طے کی جاتی تھی کہ فلم میں ایک لوری ضرور شامل کی جائے گی ،لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوری شامل کرنے کا رجحان بھی کم ہوتا چلا گیااور طویل وقفوں کے بعد فلموں میں لوریوں کو شامل کیاجاتا رہا۔1985میں ریلیز ہونے والی فلم ’’سنجوک‘‘میں لتا منگیشکر نے ایک شاندار لوری گائی جسے چند بہترین لوریوں میں سے ایک کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔یہ لوری ماضی کی مقبول اداکارہ جیا پرادا پر پکچرائز کی گئی جس کے بول تھے ’’یشودھا کا نندلالا، زُوزُوزُو‘‘۔ 1991کی مشہور فلم ’لمحے ‘میں ایک لوری شامل کی گئی ،جس کے بول تھے،
گڑیا رانی، بٹیا رانی، پریوں کی نگری سے ایک دن
راج کنور جی آئیں گے، محلوں میں لے جائیں گے
اس لوری کی شاعری آنند بخشی کی تھی اور لتا منگیشکر نے اپنی آواز کا جادو جگایا تھا۔اسے وحیدہ رحمان پہ پیکچرائز کیا گیا تھا۔2004 میںریلیز ہونے والی فلم ’’سوادیس‘‘ میں جاوید اختر کی لکھی ہوئی اس لوری کو بھی فلم بینوں کی طرف سے بہت پذیرائی ملی جس کے بول تھے ’’آہستہ آہستہ نندیا تو آ‘‘
اسے اُدتّ نارائن اورسادھنا سرگم نے گایا تھا۔
حال ہی میںریلیز ہونے والی میگا اسٹار بھارتی فلم ’’ٹھگز آف ہندوستان‘‘کے چرچے عام ہیں،لیکن اس فلم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ لیجنڈ اداکار امیتابھ بچن نے اس فلم کے لیے لوری گائی ہے۔جس کے لیے وہ خاصے جذباتی اور پرجوش بھی دکھائی دیے۔یہ لوری باپ اور بیٹی کےمعصوم رشتے کی عکاس ہے۔جس کےدل کو چھو جانے والے بول امیتابھ بھٹاچاریہ نے لکھےہیں،
بابا! لوٹا دے مجھے گڑیا موہی
انگنا کا جھولنا بھی
املی کی ڈار والی منیا موری
چاندی کا پینجنا بھی
پاکستانی اور بھارتی فلموں میں ’لوری کلچر‘گئے وقتوں میں جس قدر عروج پر تھا، آج اس کی مثال خال خال ملتی ہے۔’’ٹھگز آف ہندوستان‘‘میں شامل کی گئی لوری ممکن ہے اس کلچر کے احیاء کی بنیاد ثابت ہو۔