• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کے تحت آنے والی صوبہ سندھ اور بلوچستان میں زیرو ریٹڈ صنعتوں کو موسم سرما میں گیس کی ترسیل ترجیحی بنیادوں پر جاری رکھی جائے گی جبکہ گھریلو صارفین کیلئے گیس کی لوڈ مینجمنٹ بھی نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔بجلی اور گیس بنیادی ضروریات میں شامل ہوچکی ہیں جن کے بغیر اب گزارہ ممکن نہیں، تاہم المناک صورتحال یہ ہے کہ گرمیوں کی آمد پر بجلی کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سردیوں کے آغاز پر گیس کے حوالے سے یہی صورتحال پیدا ہوتی ہے ۔اگر گرمیوں میں بجلی کی طلب بڑھتی ہے تو سردیوں میں گیس کی ضرورت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ افسوس وطن عزیز کے عوام برسوں سے مذکورہ دونوں ضروریات کی مسلسل فراہمی کے لئے ترساں چلے آرہے ہیں۔ امسال بھی حالت مختلف نہیں، سردی کے آغاز سے گھروں میں گیس آنا بند ہوگئی ہے جس سے معمولات زندگی میں خلل آرہا ہے۔ گیس کے سلنڈر کی قیمت میں بھی ہوش ربا اضافہ ہوجاتا ہے۔ یوں عوام پر دہرا بوجھ پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صنعتی صارفین بھی شاکی رہتے ہیں کہ انہیں گیس اور بجلی مہیا نہ ہونے پر کام بند کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں گیس کی قلت کی بڑی وجوہات میں سے ایک لوڈ مینجمنٹ کے طریقہ کار کی عدم درستی ہے ،آبادی کے اعتبار سے گیس کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے تو اس سلسلے میں نہ گیس کے نئے ذخائر تلاش کرنے کے کوئی اقدامات نظر آتے ہیں نہ گیس کی درآمد کے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ افتتاح کئے جانے کے باوجود امریکی دبائو پر روک دیا گیا ۔ موجودہ حکومت کے لئے بجلی اور گیس کی فراہمی بھی دو بڑے چیلنج ہیں۔ اس حوالے سے حکومت کو موثر اقدامات کرنا ہوں گے، آخر کب تک قوم بجلی اور گیس کی قلت برداشت کرتی رہے گی؟ عوام کے لئے لوڈ مینجمنٹ نہ کرنے کا فیصلہ خوش کن ہے لیکن ہماری منزل یہ ہے کہ ہمیں بجلی اور گیس کی لوڈ مینجمنٹ کی ضرورت ہی نہ رہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین