ہمیں ایران کی بیداریٴ اسلام سیکرٹریٹ سے خواتین کی ایک عالمی کانفرنس کا دعوت نامہ ملا اور پتہ چلا کہ پوری دنیا سے بہت ممتاز اور دانشور خواتین سے تبادلہٴ خیال کرنے اور مسلم اُمہ پر اس کڑے وقت میں آپس میں مل بیٹھنے اور جدید چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے حکمت عملی طے کرنے کا موقع مل رہا ہے، سو ہم بھی اُس نمائندہ وفد میں شامل ہوگئے جوکہ تہتر خواتین پر مشتمل تھا اور غالباً ایرانی خواتین کے بعد پاکستان سے سب سے بڑا وفد اس کانفرنس میں شامل تھا۔ دنیا بھرسے ہر مکتبہٴ فکر اور ہر شعبہٴ زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین بہت بڑی تعداد میں اس کانفرنس میں شامل ہونے کے لئے آئی تھیں اور بیداریٴ اسلام کا بھرپور اظہار کر رہی تھیں۔ ایران اپنی روایتی میزبانی اور مہمان داری کے ساتھ چشم براہ تھا، ہر جگہ پر ایک بینر دیکھ کر دل خوش ہو جاتا تھا۔
مہمان نوازی افتخار ماست
کہ مہمانوں کا اکرام کرنا ایرانیوں کا فخر ہے۔ ہم چناروں کے بیچوں بیچ ایشیاء کی طویل ترین اسٹریٹ جو کبھی خیابانِ ولی عہد کہلاتی تھی اور اب خیابانِ ولی عصر، سے گزر کر کانفرنس ہال میں ابتدائی سیشن میں شرکت کے لئے پہنچے تو بڑی خوشگوار حیرت ہوئی کہ پچاسی ممالک سے پانچ ممالک کو منتخب کر کے احمدی نژاد اور ڈاکٹر اکبر ولایتی کے ساتھ کانفرنس میں خطاب کا موقع دیا گیا اور پاکستان کی نمائندگی کی سعادت راقمہ کے حصے میں آئی۔
کانفرنس کے میزبان ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ میں،آپ سب اپنے ملکوں اور شعبوں کی نمائندہ اور مصروف خواتین کو یہاں جمع ہونے پر مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ یہاں پر تبادلہ خیال کرنے اور اپنے تجربات کو بیان کرنے کا بہترین موقع پائیں گی۔ بیداریٴ اسلام کانفرنس نے علماء، نوجوانوں کے بعد خواتین کی اس کانفرنس کا انعقاد کیا ہے۔ ہمیں ہر طبقہٴ زندگی اور ہر طبقہٴ فکر کی خواتین کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہے۔ ہمیں اس کانفرنس کے لئے500سے زیادہ مقالات وصول ہوئے ہیں۔ مسلمان عورت کی بیداری اُمت مسلمہ کی بیداری پر دیرپا اثرات چھوڑے گی۔ اسلام عورت کی آزادی اور توقیر پر یقین رکھتا ہے۔ میں اُمت مسلمہ کی سربلندی کی دعاؤں کے ساتھ اس کانفرنس کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں اور صدر اسلامی جمہوریہ ایران محترم احمدی نژاد صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اُنہوں نے اس تقریب میں شرکت کر کے ہمیں پذیرائی بخشی۔
احمدی نژاد تقریر کرنے آئے تو اُنہیں پاکستانی عوام کا سلام پہنچایا اور شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ہماری بہترین میزبانی کی ہے۔ انہوں نے بڑی ولولہ انگیز تقریر کرتے ہوئے فرمایا ”اللہ نے انسان کو عزت اور سرفرازی کی زندگی جینے کے لئے اس زمین پر اپنا خلیفہ اور نائب بنا کر بھیجا ہے۔ بے توقیری اور ذلت کی زندگی انسانیت کے لئے موت ہے“۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ تمام انبیاء نے کرامت انسانی اور شرفِ انسانی کو بیدار کیا اور شیطان کا اولین وار یہ تھا کہ انسان کو خود اُس کی نظروں میں گرا دیا۔ آج شیطان کی آلہٴ کار قوتوں نے انسانیت پر ایسے ایسے ظلم ڈھائے ہیں کہ جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ طاقت و ظلم کا دائرہ ماضی میں محدود تھا مگر آج پوری دنیا کو اپنے تسلط میں لئے ہوئے ہے۔ گھر گھر میں طاغوت کا راج ہے۔ غلامی کے دور میں ظلم اور ظالم واضح نظر آتے تھے۔ آج کی سامراجی طاقتیں، آزادی ،مساوات ، انسانی حقوق اور ترقی کے نعروں اور دعووں کے ساتھ انسانیت کو تاریخ کا سب سے بڑا دھوکہ دے رہے ہیں۔ ان ممالک میں بظاہر لوگ آزاد ہیں مگر بدترین غلامی کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دنیا تبدیل ہو رہی ہے، انسانیت فلاح اور مثبت تبدیلی کی منتظر ہے ان حالات میں انسانی بیداری بہت ضروری ہے۔ اللہ بھی ارشاد فرماتا ہے کہ ”جب تک تم اپنی حالت بدلنے کے لئے بیدار نہ ہوگے تو تمہاری حالت نہیں بدلے گی“۔ اللہ نے اسلام کو بطور دین ، قرآن کو بطور ہدایت نامہ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور رہنما صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے بھیجا ہے تاکہ انسانیت اپنے شرف ،عزت اور کرامت کے حصول کے لئے بیدار ہو جائے۔
بیداری کا مطلب اور معنی ہے کہ انسان اپنی حقیقت اور اصل کی طرف واپس لوٹ جائے۔ اپنی فطرت کی طرف بازگشت کہ اللہ نے اُسے اپنا نائب اور اپنا خلیفہ بنایا۔ آج کی استعماری طاقتیں سرمائے اور طاقت کو سربلندی اور سرفرازی کا سبب مانتی ہیں مگر اللہ کی نظر میں زیادہ قربانیاں پیش کر کے سماج کو ترقی یافتہ بنانے میں پہل کرنے والا زیادہ وقعت والاہے۔ سامراجی نظام میں خود غرضی، فخر و غرور اور انفرادی لذت اور ذاتی مفادات کا حصول موجود ہے جبکہ اسلامی نظامِ حیات میں اخوت، ایثار اور ایمان وتعلق کے جذبے پائے جاتے ہیں۔
عورت ان صلاحیتوں سے زیادہ مالا مال ہے عورت کی صلاحیتوں کے اظہار سے قومیں بنتی ہیں۔ انسان اپنی تخلیق میں ایک اکائی ہے مگر اُس کے کردار مختلف ہیں۔سماجی تبدیلیوں اور معاشرے کی ترقی میں خواتین کاکردار زیادہ اہم ،زیادہ موثر اور زیادہ دیر پا اثرات قائم کرنے والا ہے۔ ہر مرد جو انسانی ترقی کے عروج پر پہنچتا ہے وہ اپنی ماں کا مرہون منت ہے۔ اگر وہ اپنا پاکیزہ دودھ اپنی محبت کی لوریوں میں گوندھ کر اپنے بچہ کو پلائے گی تو وہ کبھی بھی ایسا ایٹم بم نہیں بنائے گا جو ایک لمحہ میں ہزاروں لوگوں کو لقمہٴ اجل بنا دے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ عورت کے کردار کے بغیر کوئی تبدیلی آجائے۔
عورت اللہ کے لطف و جمال اور تخلیق کی مظہر ہے۔ جب بھی شیطان کسی سماج کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اس معاشرے کی عورت کا کردار تباہ کرتا ہے۔خواتین اگر گھر اور نسل کی تربیت نہیں کریں گی تو مجرمانہ رویّے پروان چڑھتے ہیں اور اگر آپ اپنے ہاں تبدیلی کے لئے پختہ عزم کریں گی تو آپ کا پورا گھرانہ آپ کے ساتھ یہ عزم لے کر نکلے گا۔ آپ اپنے آپ کو جغرافیائی حدود میں قید نہ کریں۔ اسلامی بیداری کی ان لہروں کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل جائیں۔ بیداری کے ان لمحوں کو امر کردیں ، پوری دنیا آپ کی منتظر ہے۔اللہ نے یہ خوشخبری دی ہے کہ
”ہم ارادہ رکھتے ہیں کہ مہربانی کریں اُن لوگوں پر جو زمین میں کمزور اور ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور ان کو لوگوں کا راہبر بنادیں اور اُنہی کو زمین کا وارث بنادیں“۔ (القصص 28:5)
اس دین نے دنیا میں غالب ہو کر رہنا ہے۔ بس اپنا عزم جواں رکھیں اور صحیح راستے پر چلنے کا انتخاب کر لیں۔ شیطانی قوتوں اور اُن کے اہل کاروں پر نظر رکھیں۔ کوئی بھی آپ کو مایوس نہ کر سکے۔ کوئی وسوسہ آپ کی راہ کھوٹی نہ کرسکے ۔ اللہ کا وعدہ ہے اور لازم ہے کہ وہ دن ہم بھی دیکھیں گے جب قوم عزم کرتی ہے تو اُسے قیادت اُس سے بھی زیادہ پُرعزم ملتی ہے۔ اے سب عزیز مجاہد صفت خواتین،آئیں ہم سب انسانوں کی آزادی کے لئے اور بیداریٴ اسلام کے لئے متحد اور ہم آواز ہوجائیں“۔
احمدی نژاد کی اس پُرعزم اور دلیرانہ اور مدبرانہ تقریر سے کانفرنس کا آغاز ہوا۔ دو دن ہم نے کانفرنس کے مختلف سیشنز میں پوری دنیا سے آئی ہوئی خواتین دانشوروں کے مقالات اور خیالات سنے۔ ایران نے عرب بہار کے نتیجے میں آنے والی تبدیلیوں اور وہاں کی تحریکوں میں قربانیاں پیش کرنے والوں کو خصوصی توجہ دی تھی اور اُن خواتین کو ہر جگہ خصوصی پذیرائی مل رہی تھی۔ ایک پورا سیشن عالم اسلام کے مختلف خطوں کے شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے منعقد کیا گیا اور اسٹیج پر ساتھ ساتھ اُن شہداء پر خصوصی دستاویزی فلم چل رہی تھی اور ساتھ ہی اُن کے اہل خانہ کو اعزازی شیلڈز اور اعزازات و اکرام سے نوازا جا رہا تھا۔ عجیب ولولہ انگیز منظر تھا جب فلسطینی لیڈر محمود الزہار کی بیوی سمیحہ الزہار کو جو 2شہداء کی ماں اور خود اسرائیلی حملہ میں شدید زخمی ہو گئی تھیں مگر اب ہمارے درمیان موجود تھیں کو اسٹیج پر بلایا گیا۔ ایک فلسطینی مجاہدہ کے 4بیٹے اور شوہر شہید ہو گئے تھے اور وہ صبر و استقامت کا کوہ گراں بن کر ہمارے سامنے موجود تھیں۔
عراق، تیونس، لیبیا، مصر، شام اور الجزائر کی خواتین بھی ہمارے حوصلے بڑھا رہی تھیں۔ افغانستان اور کشمیر کی شہداء کی وارثان بھی موجود تھیں۔ الغرض یہ سیشن اُمت کے لالہ و گل کو خراج تحسین پیش کرنے کا سیشن تھا اور صحیح معنوں میں اس مصرعہ کا مفہوم آج سمجھ میں آیا کہ ”شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے“۔ اگلے دن ملتِ ایران کے راہبر اعظم آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کا دن تھا۔ سب لوگ بہت ہی شاداں و فرحاں اُن سے ملاقات کے لئے جارہے تھے۔ اگرچہ وہاں پر جامہ تلاشی کا طریق کار اکثر لوگوں کے لئے باعث اذیت تھا مگر میزبان بھی مجبور تھے اور مہمان بھی اپنی جگہ پر صحیح تھے۔ ہمیں بہت اہتمام سے اُن کے بالکل قریب ہی نشست دی گئی اور احمدی نژاد کی طرح راہبر نے بھی بہت محبت اور شفقت آمیز خطاب کیا اور خواتین کو پُرزور خراج تحسین پیش کیا۔ (جاری ہے)