’ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے‘
حبیب جالب ؔ کا یہ مصرعہ مشعال ملک پربھی صادق آتا ہے، جو مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی کی مشعل اٹھائے اپنے بہادر شوہر یاسین ملک اور کشمیری عوام کے ساتھ شانہ بشانہ مصروف عمل ہیں۔ جب نامور کشمیری حریت پسند لیڈر یاسین ملک تحریک آزادی کے حوالے سے جیل میں بند ہوتے ہیں تو باوقار، وضع دار اور پُرعزم مشال ملک اپنے شوہر کی آواز بن کر دشمنوں کے دل دہلارہی ہوتی ہے۔
مشعال ملک کا کہنا ہے کہ قلم میں طاقت ہے، جو کسی بھی اسلحے سے مضبوط ہے۔ قلم آزاد ہو گا تو کشمیر بھی آزاد ہو گا۔ پاکستان کے لوگ پوری طرح کشمیر کی آزادی کے لیے سرگرم ہیں۔ یاسین ملک سے شادی بھی ان کیلئے کسی جہاد سے کم نہیں تھی۔ مشعال بھی محترمہ فاطمہ جناح کی طرح کچھ عرصہ بعد عوامی جدوجہد میں بھرپور انداز میں شریک ہوئیں۔ ا ب جب بھی مشعال ملک آزادی کشمیر کا پرچم لے کر نکلتی ہیں تو لوگ یاسین ملک کی کمی محسوس نہیں کر تے۔ یہ مشعال ملک کا عزم و استقلال ہے کہ اپنی استعداد سے بڑھ کر کشمیر کی آزادی کے نعرے ہر طرف لگوارہی ہیں۔
مختصر تعارف
مشعال ملک کا تعلق چکوال سے ہے اور وہ قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ اقتصادیات کے سابق چیئر مین پروفیسرایم اے حسین ملک مرحو م کی صاحبزادی ہیں ۔پروفیسر ایم اے حسین معروف ماہر معاشیات تھے اور جرمنی کی بون یونیورسٹی کے اکنامکس ڈپارٹمنٹ کی سربراہ بھی رہ چکے تھے۔ وہ پہلے پاکستانی بھی تھے جو نوبل پرائز جیوری میںشامل رہے۔ جب کہ مشعال کی والدہ ریحانہ حسین سرگرم سیاسی کارکن رہ چکی ہیں۔ مشعال نے ابتدائی تعلیم اسلام آباد سے حاصل کی، پھر لندن اسکول آف اکنامکس سے ڈگری حاصل کی۔
جدوجہد آزادی اور شوہر کی گرفتاریوں کا بار سر پر اٹھانے والی مشعال ملک زندگی کو زندگی کی طرح گزارنے پر یقین رکھتی ہیں۔ وہ فِل کولنز اور شکیرا کو پسند کرتی ہیں۔ رومی اور سلویا پلاتھ کی شاعری کی دلدادہ ہیں۔ فیس بک پر بھی فرینڈز کو شامل کرتی رہتی ہیں۔ چیٹنگ کرتے ہوئے یا ای میل لکھتے ہوئے اسپیلنگ کی غلطیاں بھی کرتی ہیں۔ تقاریب میں بھی جاتی ہیں اور اپنی شادی کی سالگرہ بھرپور طریقے سے مناتی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اکثر سالگرہ پر ان کے شوہر بھارتی جیلوں میں سلاخوں کے پیچھے ہوتے ہیں۔
یاسین ملک سے شادی
مشعال کی یاسین ملک سے شادی کسی بالی ووڈ اسکرین پلے سے کم نہیں تھی۔ 2005ء میں یاسین ملک کو آزادی کشمیر کے سلسلے میں پاکستان آنا تھا۔یہاں ایک تقریب میں یاسین ملک نے اپنی تقریر کے دوران فیض احمد فیضؔکی نظم بڑے ترنم سے پڑھی۔ مشعال ان کے پاس پہنچیں اور ان کی تقریر کی تعریف کی ، دونوں نے ہاتھ ملائے اور یاسین ملک سے مشعال نے آٹو گراف لیا ، جس کے دستخط کے ساتھ یاسین ملک نے لکھا کہ کشمیر کی تحریک کو سپورٹ کرنے کیلئے مشعال ان کی ’سگنیچر کیمپین‘ کے ساتھ اپنے دوستوں کو شامل کریں۔
یاسین ملک نے واپسی کا رخت ِ سفر باندھنے سے ایک دن قبل مشعال کی والدہ سے موبائل فون پر بات کی اور سپورٹ کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا ۔ مشعال کی والدہ نے اسے اپنے لیے اعزاز سمجھا لیکن اس گفتگو کے دوران یاسین ملک نے اپنے ارادے کا اشارہ دے دیا ، جس کے بعد والدہ نے فون مشعا ل کو پکڑوادیا۔ یاسین نے فون پر انگریزی زبان میںاپنی پسندیدگی کا اظہار کیاتو مشعال نے پوچھا۔ ’’ کیا آپ کو پاکستان پسند ہے ؟ تو یاسین نے کہا، ’’ ہاں ‘‘۔ پھر یاسین ملک نے ان سے اظہار محبت کردیا۔ مشعال بری طرح گھبراگئیں اور ’ہاں‘‘ کہہ کر فون بند کردیا۔ بعد میں دونوں ایم ایس این پر بات چیت کرتے رہے۔ مشعال کی والدہ کو خوف تھا کہ یاسین ملک کےبار بار جیل جانے سے ان کی ازدواجی زندگی مشکلات کا شکار ہوگی، تاہم دونوں نے ہمیشہ ساتھ نبھانے کا وعدہ کرلیا اور 22فروری 2009ء کو مشعال کا یاسین ملک سے نکاح ہوگیا۔ رسمِ نکاح میں بھارت کی جانب سے ویزا جاری نہ کیے جانے کے باعث یاسین ملک کے والدین اکلوتے بیٹے کی شادی میں شریک نہ ہو سکے، تاہم بعد میں رخصتی میں وہ شامل ہو گئے۔ رسمِ نکاح سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مشعل ملک نے کہا کہ یاسین ملک اعلیٰ مقصد کیلئے جدوجہد کررہے ہیں اور مجھے اللہ پر بھروسہ ہے کہ مسئلہ کشمیر جلد حل ہوگا۔
مشعال ملک کی آواز
مشعال ملک ہر فورم پرآواز بلند کرتی آئی ہیں کہ غاصب بھارتی افواج بے گناہ اور مظلوم کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے ۔ جدو جہد آزادی میں ہزاروں کشمیری شہید اور زخمی ہو چکے ہیں جبکہ پیلٹ گنوں سے سینکڑوں کشمیری اپنی بینائی سے محروم ہو چکے ہیںمگر عالمی برادری ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ سرچ آپریشن کے نام پر کشمیریوں کا قتل عام کیا جارہا ہے، کشمیریوں کی آئےروزلاشیں عالمی برادری کا ضمیرجھنجھوڑ رہی ہے مگر بھارتی مظالم کشمیریوں کوآزادی کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹاسکتے۔