• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہائر ایجوکیشن کمیشن کا پہلا عشرہ...ڈاکٹر محمد نظام الدین... وائس چانسلر یونیورسٹی آف گجرات

اعلیٰ تعلیمی ادارے انسانی مہارتوں کو فروغ دیتے ہوئے اس گلوبل دنیا میں جہاں علمی معیشت کی حکمرانی بدرجہ اتم ہے ، مقابلے کی صلاحیتوں کو پیدا کرتے ہیں۔ خوشحالی یا غربت، عروج اور زوال کا انحصار کسی قوم کی عقلی و فکری بنیادوں پر ہے ۔ اکیسویں صدی میں تمام دنیا کی اس علمی معیشت میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے ہی قوموں کی ترقی میں فیصلہ کن کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اس نکتہ نظر سے قوموں کی تقدیر بنانے میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کا کردار بہت اہم ہے اور اعلیٰ تعلیمی کمیشن انسانی ذہانت کو جغرافیائی حدود سے ماوراء کر سکتا ہے ۔ہائر ایجوکیشن کمیشن اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا مقصد بھی یہی ہے اگر ہم اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا اس کی تشکیل سے قبل کے دور سے مقابلہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے افراد کو بے شمار دور رس فوائد سے ہمکنار کیا ہے ۔ گوکہ اس کو اپنے مطلوبہ مقاصد کے حصول میں ابھی مزید وقت درکار ہو گا ۔ عمومی طور پر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ کم پڑھے لکھوں کی نسبت بہتر روزگار اور زیادہ کمائی حاصل کر پاتے ہیں۔ HEC نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں طلباء کو ضروری مادی امداد مہیا کی۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی طرف توجہ مرکوز کرنے کی وجوہات مندرجہ ذیل تھیں۔
1)آبادی کے پھیلاؤ کی وجہ سے تعلیم کو اولیت اور ترجیح دی گئی اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے فروغ کو ضروری سمجھا گیا ۔
2)تعلیمی معیشت کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیم پر توجہ دی جائے ۔
3)زماں و مکاں کی حدود کو سکیڑتا ہوا ایسا اطلاعاتی معاشرہ جو سابئر ٹیک کی مدد سے جڑا ہوا ہے ۔
4)مہارتوں کا فروغ جو افرادی قوت کے دائرہ کار کو مزید بڑھاوا دیں ۔
مندرجہ بالا نئے رجحانات کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیےHEC کو تشکیل دیا گیا ۔ جس نے فقط ایک دہائی میں41نئی یونیورسٹیاں قائم کیں ۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام سے قبل مختلف پاکستانی یونیورسٹیوں میں 330,000 طلباء زیر تعلیم تھے ۔ اس وقت طلباء کی تعداد 1,000,000 سے تجاوز کر چکی ہے ۔ یونیورسٹیوں میں خواتین کی تعداد 36% سے بڑھ کر 46% ہو گئی ہے ۔ معاشی طور پر تنگ دست طلباء کے لیے 8000 وظائف کا انتظام کیا گیا ۔ 10,000 مقامی اور بیرونی وظائف طلباء کو دیئے گئے ۔ HEC کے قیام کے بعد 4850 طلباء نے PhD کی اسناد حاصل کیں جبکہ قبل ازیں 55 سالوں میں صرف 3281 افراد ہی PhD تک رسائی حاصل کر سکے۔
2002ء سے لے کر 2012ء تک بین الاقوامی ریسرچ پبلیکیشنز میں آٹھ گنا اضافہ ہوا یعنی پبلیکیشنز کی تعداد 816 سے 6300 تک پہنچ گئیں۔ اس دہائی میں بین الاقوامی گلوبل ریسرچ میں پاکستان کی طرف سے تین گنا اضافہ ہوا۔ 16450 اساتذہ کی ترسیل علم کی استعداد کی تربیت کی گئی ۔ نصاب اور ترسیل علم کی کیفیتی استعداد میں اضافے کے لیے اس وقت مختلف یونیورسٹیوں میں 84 کیفیتی استعداد میں اضافہ کے مرکز (کوالٹی انہانسمنٹ سیلز) QEC کام کر رہے ہیں ۔ کیفیتی تیقن کی ایجنسی (کوالٹی ایشورنس ایجنسی) تشکیل دی جاچکی ہے ۔ HEC سے منظور شدہ تقریباً164 رسائل شائع ہو رہے ہیں ۔ PhD اور MPhil کے حصول کے لیے ایک معیار مقرر کر دیا گیا ہے ۔ ہر PhD مقالے کے لیے بیرون ملک یونیورسٹی سے ایک بیرونی ممتحن لازمی قرار دے دیا گیا ہے جو ہمارے نظام تعلیم میں ایک نئی جہت ہے ۔ اعلیٰ تعلیم کے اداروں سے بہترین صلاحیت کے افراد کے چناؤ اور یونیورسٹیوں میں بطور اساتذہ ان کی تقرری کے لیے باقاعدہ معیار اور طریقہ وضع کیا گیا ہے ۔ HEC کی تشکیل سے قبل زیادہ تر PhD اسناد اردو، فارسی اور پنجابی لسانیات میں دی گئیں اور طبعی، طبعیاتی اور انجینئرنگ کے شعبہ جات میں برائے نام ہی اسناد دی گئیں ۔ HEC نے اس رجحان کو تبدیل کیا اوربنیادی سائنسوں اور انجینئرنگ کے شعبہ جات میں PhD وظائف کی پیشکش کی۔
2011ء میں HEC نے ملک میں پہلی دفعہ سوشل سائنسز، آرٹ اور لسانیات کے فروغ کے لیے ایک انتہائی معیار کے انٹر یونیورسٹی کنسورشیم کا اہتمام کیا ۔ اس مشترکہ کاوش کا بنیادی مقصد ملک میں سوشل سائنسز کی ناگفتہ بہ صورت حال میں بہتری پیدا کرنا تھا۔ راقم نے بذات خود بطور ایک سوشیالوجسٹ اور اس ڈیموگرافر کنسورشیم میں خصوصی دلچسپی لی۔ سوشل سائنسز پر توجہ مرکوز کیے بغیر سماجی فلاح و بہبود اور جمہوریت کا حصول ممکن نہیں ۔ اسی بنا پر HEC نے اس جانب توجہ دی ۔ پچھلی ایک دہائی میں ہونیوالی اس تمام ترقی اور کارناموں کے باوجود HEC شدید دباؤ تنقید اور مباحثہ کا شکار ہے اور تنزلی کے حقیقی خطرہ سے دوچار ہے ۔ تجزیہ نگار سیاسی پس منظر میں رائے قائم کرتے ہیں اور اس کو HEC پر ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ثبوت کے طو ر پر ان کے پاس کوئی ٹھوس دلائل یا تجرباتی شواہد موجود نہیں ہیں۔ وہ عمومی طور پر تعلیم کو بھی سیاسی پس منظر میں دیکھتے ہیں اور HEC پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم کو جمہوریت اور مساوات کے آدرش سے ہم آہنگ نہیں کر سکی ۔ وہ اس امر سے پہلو تہی کرتے ہیں کہ HEC علمی معیشت اور معلوماتی معاشرت جو بہت تیزی سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔ جان ڈیوی(John Dewey) کہتے ہیں ”جب تعلیمی ادارے اصل دنیا کے حقیقی ماحول سے منحرف ہو جاتے ہیں تو وہ یقیناً سماجی جذبے کے بدل میں ایک کتابی اور نیم دانشوارانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں ۔ ایک زندہ قوم ہی اپنے سماجی ڈھانچے کو مساوات اور فلاح و بہبود کی راہوں پر لیکر جاتی ہے ۔ HEC پر ایک تنقید یہ بھی ہے کہ اس نے اپنی تمام تر توجہ کیفیتی معیار کی بہتری پر مرکوز کر دی ہے ۔ یہ تنقید بھی لاحاصل ہے کیوں کہ HEC نے ہر شعبہ عمل میں بہترین نتائج مہیا کیے ہیں ۔ HEC نے PhD تھیسس کے بیرونی ممتحن کی جانچ کے کیفیتی معیار کو قائم کرنے، اساتذہ کے چناؤ کے معیار اور دوسرے معیار کو قائم کرنے میں ایک مستحکم اور پائیدار پالیسی تشکیل دی ہے ۔ لیکن بیشتر اسکالرز اور عامیانہ تنقید نگار اعلیٰ تعلیم کو بنیادی طور پر بیرونی تبدیلیوں کے زیر اثر عمل پذیر سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ پاکستان کے سماجی ڈھانچے کی تشکیل نو پر اس کا اثر کمزور ہے ۔ یہ صورت حال انتہائی پیچیدہ اور پریشان کن ہے کیونکہ جو طلباء اب اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں داخل ہو رہے ہیں ان کے متعلق معلومات کی شدید کمی ہے ۔ سیاسی سطح پر فیصلوں میں صورتحال ”ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے“ والا معاملہ ہے ۔ پچھلے دو سالوں میںHEC کے فنڈز میں 50% کی بے رحمانہ کمی کر دی گئی ہے ۔ یہ خطرہ بھی ہمارے اوپر منڈلا رہا ہے کہ ہم کہیں HEC کے حاصل شدہ فوائد ہی سے دستبردار ہو جائیں پھر روز بروز کئی گنا نئے چیلنجز کا سامنا ہے جس کی وجہ سے آج HEC کو فنڈنگ، کیفیتی معیار اور انتظامی معاملات میں مشکل اور ناپسندیدہ فیصلوں کا سامنا ہے ۔ ان چیلنجز کا مقابلہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ہم دوسری چیزوں کے علاوہ سرمایہ کاری اور اصلاحات کی ایک طویل حکمت عملی پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ بہتر بنیادی ڈھانچہ (انفرااسٹرکچر) بہتر ہمکاری ، کاروباری دنیا اور صنعتی شعبہ سے مضبوط روابط پیدا کر سکیں ۔ HEC کے منتظمین ، پالیسی سازوں، اساتذہ اور پیشہ ور کارکنان کے لیے اشد ضروری ہے کہ وہ موجودہ اور نئی حکمت عملیوں اور رواجات کو جو کیفیتی معیار کی بڑھوتی پیداوار میں اضافہ، تعاون و ہمکاری اور جدیدیت میں اضافہ کا باعث بن رہی ہیں ان کو نہ صرف سمجھیں۔ خیالات میں سانجھ کا باعث بنیں بلکہ باہمی طور پر عمل پذیر بھی ہوں۔ حکومتی سطح پر چاہیے کہ تمام قوم کی بہتر خدمت کے لیے مزید فنڈ جاری کیے جائیں ۔
تازہ ترین