ڈیٹ لائن لندن…آصف ڈار جب آنے والی پاکستانی نسلوں کی بقا، خوشحالی، ملک کی سرسبز شادابی، اقتصادی ترقی اور وقار کو برقرار رکھنے کے لئے پانی انتہائی ضروری ہے اور یہ کہ آئندہ چند برس میں پاکستان میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوسکتی ہے اور ملک خدانخواستہ صحرا میں تبدیل ہوسکتا ہے تو پھر ساری پاکستانی قوم اورحکومت پانی کو محفوظ کرنے کیلئے متبادل اقدامات کرنے میں سنجیدگی کیوں نہیں دکھا رہی؟ کالاباغ ڈیم بنانے کے لئے اتفاق رائے کیوں پیدا نہیں کیا جا رہا ؟یہ بات بھی غور طلب ہے کہ کالاباغ ڈیم کومتنازع بنانے میں کس کا ہاتھ تھا؟ کیا یہ وہی قوتیں نہیں کہ جنہوں نے دیامر بھاشا ڈیم کے منصوبے کی بھی مخالفت کی اور اس خوشحالی کے منصوبے کومتنازع بنانے کے لئے گلگت بلتستان میں سکولوں پر حملے کئے اور امن و امان کو خراب کرنے کی کوشش کی؟ ان قوتوں کے بارے میں مکمل چھان بین کی جانی ضروری ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ اس وقت خطے میں صرف ایک ملک ایسا ہے جس کو پاکستان کھٹک رہا ہے، اس ملک نے عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے اور دہشت گرد قرار دینے کے لئے کیاکچھ نہیں کیا؟یہ ملک نہیں چاہتا کہ دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی قوت ترقی کرے اوردنیا کے ہر فورم پر اس کی برابری کرے۔ اس دشمن کو معلوم ہے کہ پاکستان کوکمزور کرنے کے لئے جتنا فرقہ واریت، مذہبی و لسانی منافرت پھیلانا ضروری ہے اتنا ہی پاکستان کو اقتصادی سطح پر بھی کمزور کرنے کے لئے اس کے پانی کو بھی بند کرنا ضروری ہے تاکہ خدانخواستہ پاکستان کی ایٹمی قوت پر کوئی سودے بازی کی جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک نے مقبوضہ کشمیر اورکنٹرول لائن کے تمام قریبی علاقوں میں ڈیمز بنانے شروع کر رکھے ہیں تاکہ پاکستان کا پانی بند کیا جا سکے۔ جبکہ دوسری طرف اس نے پاکستان کے اندربھی اپنے ایسے ایجنٹ چھوڑے ہوئے ہیں جو دن رات پاکستان خصوصاً پانی کو جمع کرنے کےمنصوبوں کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے اندر بھی بعض عاقبت نااندیش بھی موجود ہیں جو علاقائیت کی بنیادوں پر اس ملک کے پروپیگنڈے میں آجاتے ہیں اور پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کر گزرتے ہیں۔ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے توپاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کے اندر چاول، گندم، دالیں، سبزیاں یعنی ہر قسم کی فصل اگتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہونا چاہئے کہ پاکستان اقتصادی طور پر خوشحال ہو اوراس کی ساری پیداوار کا معقول حصہ برآمد بھی کیا جائے مگر اس وقت ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے زرعی شعبے پر کوئی توجہ ہی نہیں دی جا رہی، البتہ پانی کی قلت کی صورت میں پاکستان کا زرعی ملک ہونا بھی ایک خواب ہی رہ جائے گا۔ اگر پاکستان کو اس طرح کی صورتحال سے بچانا ہے تو فوری طور پر پانی کو ذخیرہ کرنے کے انتظامات کرنا ہوں گے۔ خوش قسمتی سے پاکستان کے چیف جسٹس نے اس اس معاملے پر پہل کی اوردیامر بھاشا ڈیم بنانے کے منصوبے کا آغاز کیا ہے ان کے عزم، جوش و ولولے سے ایسا لگتا ہے کہ یہ ڈیم ضرور بن کر رہے گا اور پاکستان میں کبھی خشک سالی نہیں آئے گی۔ چیف جسٹس کے ساتھ پاک فوج اور وزیراعظم عمران خان نے بھی دیا ہے تاہم حکومت کو اس حوالے سے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے البتہ چیف جسٹس کی جانب سے اوورسیز خصوصاً برٹش پاکستانیوں کے ساتھ براہ راست رابطہ کرنے سے ایسا لگتا ہے کہ اس ڈیم کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ نہیں آسکتی۔ وہ ان دنوں برطانیہ کے اندر فنڈ ریزنگ کر رہے ہیں امید ہے کہ برٹش پاکستان کمیونٹی ڈیم بنانے کے لئے درکار رقم کا ایک بڑا حصہ چیف جسٹس کو دے گی۔ اس کے علاوہ آج (جمعہ) جیو کی جانب سے مانچسٹر سے لائیو ٹیلی تھون بھی کی جا رہی ہے جس میں چیف جسٹس خود کو براہ راست برٹش پاکستانی کمیونٹی کے روبرو لائیں گے اوراپنے اس مشن کے بارے میں مزید تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔ اس بات کا یقین ہے کہ ان کی یہ ٹیلی تھون کامیاب ہوگی اور وہ برطانیہ کا اپنا مشن مکمل کرکے کامیابی کے ساتھ پاکستان جائیں گے، برٹش پاکستانی کمیونٹی کے اندر ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتی ہے۔ سارے پاکستانیوں کو اس عزم کا اظہار کرنا چاہئے کہ دیامر بھاشا ڈیم کو ہر حال میں بنانا ہے اور اس کو کالا باغ ڈیم کی طرح متنازع نہیں بننے دیا جائے گا۔ اس کیلئے پانی کاذخیرہ کرنے کے لئے مزید چھوٹے ڈیم بھی بنانے ہوں گے تا کہ ایک طرف زرعی خوشحالی آئے اور دوسری طرف پاکستان توانائی میں بھی خود کفیل ہو جائے۔