• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کا سیرت کانفرنس پر لیکچر سنا۔ اصلاح فرما لیں۔ تاریخ اسلام کا سبق ایک ہی۔ جب اللہ تعالیٰ اور اسکے رسولؐ پر ایمان لایا تو کایا پلٹ گئی۔زندگیاں بدل گئیں۔ آپ نےتبدیلی کیلئے 25 سال لئے۔

فیصلہ ہوچکا ،وطن عزیز کی سیاست کوہِ ہمالیہ کے نیچے دفن ہونے کو۔ 50سال قبل مسیح جولیس سیزر اپنی فوج کے بل بوتے پر اٹلی کو فتح کرنے نکلا۔ دریائے ’’ روبی کان ‘‘ (RUBICON) عبور کیا تو مشیر باتدبیر نے سرگوشی کی، حالات ناگفتہ بہ فوجی تسلط قائم ہو بھی گیا تو خانہ جنگی اور سول وار روکنا نا ممکن۔جولیس کا جواب ، شیکسپیئر کی زبانی DIE IS CAST ،یعنی کہ واپسی ممکن نہیں۔CROSS THE RUBICONیاDIE IS CASTمستعمل مطلب تیر کمان سے نکل چکا،واپسی ممکن نہیں۔ وطن عزیز میں سیاسی جماعتوں اور جمہوری سیاست کی ایک شیلف لائف متعین ہے۔پاکستان کی تینوں بڑی پارٹیوںسمیت چند ایک چھوٹی پارٹیوں کی مدت میعاد پوری ہونے کو۔نواز شریف پر احتساب عدالت سے مقصد براری ناکافی سمجھی تو 1985ءسے آج تک کی فائلیں حاضر،پھرول کر شایددال دلیابن جائے۔

پیپلز پارٹی کا معاملہ آسان، دھڑام سے نیچے کہ ایک زرداری کی گوشمالی پارٹی پر بھاری رہنی ہے۔ جانبر نہ ہوپائے گی۔تحریک انصاف ہزاروں ٹنوں وزنی انواع اقسام کے سیاسی، اقتصادی، مذہبی شدت پسندی جیسے بحران میں سلطنت کا کاروبار سنبھال چکی۔عمران خان کیخلاف ایسے مقدمات جن سے بری الذمہ ،جان چھڑانا ممکن نہیں،نالائقی ،نااہلی لف چھ آٹھ مہینوں میں خرچ ہوکر رہنا ہے۔شاہرائے سیاست کشادہ ہوا چاہتی ہے،ایسی ڈرائیونگ برسوں بعد نصیب بنتی ہے۔؎

گلیاں ہو جان سنجیاں تے وِچ مرزا یار پھرے

غرض نہیں کہ عمران خان نے ’’ یوٹرن ‘‘ کو قانونی حیثیت دی۔ ڈر اتنا، جھوٹ کوجلد سرکاری مقام ملنے کو۔ ہزاروں لواحقین،معتقدین کو’’ فضائل جھوٹ ‘‘ بیان کرنے کیلئے کمر بستہ رہنا ہوگا۔اقتدار سنبھالتے، سنبھل نہ پایا۔ انکشاف ہوا کہ جوبنیادی اوصاف، اہلیت درکار، میسر نہیں ۔ کرپشن میں لتھڑوں کوPTIکی ’’دی واشنگ مشین ‘‘سے اجلے چمکتے،بھڑکتے نکلتے سنبھلتے پایا۔یقین ہے کہ صاف ستھری اے (A) ٹیم نے لُٹ مچانی ہے ۔ چور کو چوری سے روکنا نا ممکن کہ اکثر وزراء کرپشن کی تاریخ رکھتے ہیں۔ عمران خان کا یوٹرن کو قانونی حیثیت دینا، گناہوں کا بوجھ ہلکا کرنا ہے۔ ’’یوٹرن‘‘ پر دو باتیں اہم فرما دیں۔ ’’نپولین اور ہٹلر نے یوٹرن نہ لیاچنانچہ برباد ہوئے۔ ہر عظیم لیڈر یوٹرن لیتا ہے‘‘(اپنی عظمت کا ایسا اعتراف، تاریخ سیاست کا پہلا واقعہ)۔نپولین اور ہٹلر کی مثال دینا تاریخ سے لاعلمی بتاتی ہے۔ ان دونوں رہنماؤں کے لئے گئے یوٹرن اَن گنت، کامیاب رہے۔نپولین نے جب مشہور زمانہTREATY OF FONTAINEBLEAU پر دستخط کیے تو ہتھیار ڈالنے کی دستاویزہز مجسٹی نپولین بونا پارٹ نے خود تیار کی۔ حسب منشا طے ہواباقی زندگی ’’ایل با‘‘(ELBA) کے جزیرہ پربرضاو رغبت محصور رہنا تھا۔ نپولین نے دو سال کے اندر ذِلت کا بدلہ لینے کا سوچااور اپنے لکھے معاہدے پر یوٹرن لیا۔ دوبارہ سلطنت پر قابض ہو کر گریٹ نپولین کہلایا۔

ہٹلر نے نظامِ حکومت جوڑ توڑ سے حاصل کیا ،اکثر ’’جھوٹ‘‘ کی آڑ لی۔ جوزف گوئبلز ، ہٹلر کا پروپیگنڈہ وزیر نے جھوٹ کو فن کا درجہ دیا۔ہٹلر کی حکومت کاواحد سہارا بنا۔جھوٹ کے پول کھلے تو گوئبلزکو ہٹلر سے پہلے خودکشی کر نا پڑی۔ مانا کہ ہٹلر اور نپولین جتنی ذہنی صلاحیت ہمارے وزیراعظم کی نہیںمگر ’’ یوٹرن ‘‘ اور ’’جھوٹ‘‘ میں مماثلت بدرجہ اُتم موجود۔ جھوٹ کی قدر و منزلت میں اضافے کی خاطر معتقدین آجکل بھٹو کا اطالوی صحافی سے 1972ء کا انٹر ویو پیش کر رہے ہیں۔ یقیناً یوٹرن اور جھوٹ کی حد تک عمران خان اور بھٹو میں مماثلت موجود،ذہنی استعداد بھٹو سے کوسوں دور۔ بھٹو صاحب نے کبھی ایسے دعوے نہیں کیے کہ منہ کی کھائی۔ یوٹرن اور جھوٹ کے علاوہ بھی جناب وزیر اعظم کے بلنڈرز ،قوت فیصلہ سے عاری ہونا، گلی گلی میں شور ہے۔ 100دن پورے ہونے کو، 100بلنڈرز، جھوٹ ، یوٹرن مکمل۔ 100دن سے توجہ ہٹانے کیلئے، کرپشن کیخلاف راگنی وصدا وہ بھی چوہدری فوادکی، بصحرا،رائیگاں جانی ہے ۔ عوام الناس کوروٹی نان، کپڑا، روزگار، مکان چاہئے، جو کچھ موجود تھا ، تیزی سے چھن رہاہے۔

خطرناک ، مشیران بے تدبیر سب اچھاکی رپورٹ دے رہے ہیں۔خاکم بدہن، برے وقت کے آثاربدرجہ اتم موجود ہیں۔لگتا ہے برا وقت بے خبری میں جکڑے گا۔ عظیم لیڈروں کے بارے میں جناب کی معلومات اتنی ناقص کہ یوٹرن کی تہمت اس لیے عظمت سے جوڑی تاکہ اپنی عظمت مستحکم ہوجائے۔ بیسویں صدی کے عظیم لیڈر لینن، ماؤزے تنگ،چرچل، گاندھی، علامہ اقبال، جناح، مولانا مودودی، امام خمینی ،نیلسن منڈیلا ،درجنوں اور، آج کے شی جن پنگ،پیوٹن، اردوان وغیرہ کسی ایک رہنما کی مثال جس نے کوئی اصول،راستہ،طریقہ اپنایا اور اس پر کوئی سمجھوتہ کیا؟ یوٹرن لیے۔عظیم قائد تو سینکڑوں سالوں سے سب میں نمایاں۔ایسا دیدہ ور، بے نور قوم کو نور دے گیا۔عمران خان کا معاملہ اپنی مثال۔ اعتراض نہیں کہ نواز شریف حکومت گرانے کیلئے بے نظیرکے ساتھ کیوں بیٹھے۔ مشرف سے علیحدگی پر نواز شریف اور بینظیر کا ساتھ دیا،دونوں کی کرپشن اور سیاست کے دفاع میں6سال لگائے۔ 2008ء میں الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد نواز شریف کے ساتھ سیاست جوڑ چکے تھے۔ اعتراض یہ بھی نہیں کہ نواز شریف کی حالیہ حکومت گرانے کیلئے امپائر کا سہارا لیا۔ طاہر القادری سے میری خالی کی گئی جگہ پُر کرائی۔ دن دہاڑے فرسٹ کزن بنایا۔ ایک اشارے پر زرداری جیسا بھاری بھرکم پتھر چوم کر اُٹھا لیا۔ سارے بدلتے مؤقف جائز کہ اقتدار تک پہنچنے کا زینہ۔ وزیراعظم بننے کی شدت اعصاب شکن ہو چکی تھی۔ ازراہ تفنن اعتراض یہ بھی نہیںنواز شریف اور بے نظیر کے خلاف کرپشن کے اکثر الزامات30سال پرانے، ہمہ وقت ہر مؤقف پر موجود تھے۔میرا اعتراض صرف ایسے یوٹرنوں پر جو دھوکہ دہی اور عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کارآمد رہے۔کیا ضرورت تھی کہ19اگست کو پہلی تقریر میں بھاشن دیتے ’’ قرض نہیں لونگا‘‘۔ یعنی کہ اقتدار سنبھالنے تک معلوم نہ تھا کہ وطنی مسائل اس قدر گمبھیر ہیں۔ سیاسی، اقتصادی، فرقہ واریت نجانے کتنے بحران جان لیوا ہوسکتے ہیں۔

غیر سنجیدگی،یوٹرن کی قانونی حیثیت منوانے کیلئے ، عظیم قائد پر بہتان کہ ’’ عظیم قائد نے بھی یوٹرن لئے‘‘۔ کاش ڈاکٹر صفدر محمود بتا پاتے عظیم قائد آغازِ سیاست سے 11ستمبر 1948ء کو آخری سانس لی، ایک تضاد یا جھوٹ یا مقصدسے دستبردار ی نظر آنے کو نہیں۔ پہلے دن سے مسلمانوں کے حقوق کو محفوظ بنانا اولین ترجیح بنائی۔بالآخر انگریز اور ہندو غلامی سے قوم آزاد کرائی، ملک دیا۔ مسلم لیگ اور کانگریس کو ایک پلیٹ فارم پر لانے پر اور 1916ء میں لکھنو پیکٹ جومسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور خود مختاری پر لاجواب دستاویز، مسلم لیگ کانگریس کے مشترکہ سیشن سے منظور کروایا، ایمبیسڈرآف ہندو مسلم یونٹی کالقب پایا ۔ 1916ء کا لکھنو پیکٹ ہی تو پاکستان کی بنیاد ڈال گیابالکل ایسے ہی جیسے ’’صلح حدیبیہ ‘‘کا منطقی نتیجہ’’ فتح مکہ‘‘ نکلا۔دل دھڑکتا ہے کہ یو ٹرنوں اور نالائقیوں پر تقدس کی آخری امید مرجھا گئی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی صفحہ ہستی سے مٹ گئیںتو کیسا پاکستان ہوگا؟آزاد اور خودمختار بھی ہوگا؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین