• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) ایڈ مرل (ر) فصیح بخاری نے ملک میں ہونے والی کرپشن کے بارے میں ناقابل یقین اعداد و شمار پیش کرکے ایک ایسا دھماکہ کردیا ہے‘ جس سے موجودہ حکومتی ساکھ کی عمارت لرز گئی ہے۔ یہ دھماکا ایسے وقت کیا گیا ہے‘ جب عام انتخابات قریب ہیں اور پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے پاس جانے کی تیاری کررہی ہے اور اُس کے مخالفین حکومت کے خلاف چارج شیٹ لے کر عوامی رابطہ مہم کی منصوبہ بندی کرر ہے ہیں۔ اگلے روز پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے چیئرمین نیب سے سوال بھی کرڈالا کہ اُنہوں نے ایک ایسے مرحلے پر یہ بیان دیا ہے‘ جب انتخابات قریب ہیں۔ کہیں یہ اس ایجنڈے کا حصہ تو نہیں کہ اگلی نگران حکومت کو اپنی مدت بڑھانے کا جواز مل جائے؟ اس پر چیئرمین نیب نے جواب دیاکہ وہ کسی مخصوص ایجنڈے پر کام نہیں کررہے بلکہ اُن کا ایجنڈا پاکستان ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ چیئرمین نیب کے اس مرحلے پر بیان کا پاکستان پر کیا اثر پڑتا ہے؟ اس سوال کا جواب توکچھ عرصے بعد لوگوں کو مل ہی جائے گا لیکن چیئرمین نیب نے جس کرپشن کی بات کی ہے‘ اُس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ چیئرمین نیب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں روزانہ 13 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے یعنی سالانہ 4745 ارب روپے کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں۔ ایک دن پہلے اُنہوں نے کہا تھا کہ 7 ارب روپے روزانہ کی کرپشن ہوتی ہے۔ دوسرے دن اُنہوں نے یہ رقم بڑھا کر 13 ارب روپے کردی۔ وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کا سالانہ اتنا بجٹ ہی نہیں ہے۔ ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی رقم روزانہ کن لوگوں کی جیبوں میں جاتی ہے؟ اس حوالے سے بھی چیئرمین نے کچھ تفصیلات دی ہیں۔ اُنہوں نے بتایا ہے کہ 7 ارب روپے کی کرپشن روزانہ ٹیکس چوری کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ رقم حکومت میں شامل سیاسی لوگوں کی جیب میں نہیں جاتی ہے۔ لیکن وصولی کے اداروں کے اہلکار اور ٹیکس نادہندگان یہ پیسہ اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں۔ چیئرمین نیب کے مطابق 6 سے 7 ارب روپے روزانہ براہ راست کرپشن میں چلے جاتے ہیں۔ یہ براہ راست کرپشن کیسے ہوتی ہے؟ اس کا جواب چیئرمین نیب نے اس طرح دیا ہے کہ اُن کے یہ اعداد و شمار ۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس‘ حکومتی اداروں کی رپورٹس اور قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی کارروائیوں‘ ٹیکس کے محکموں کی کارکردگی اور نیب کی طرف سے بڑے منصوبوں کی تشخیص کی بنیاد پر مرتب کئے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے اعداد و شمار ہر دور حکومت میں مرتب کیے جاسکتے ہیں۔ اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں لیکن اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانا چاہئے اور کرپشن کا خاتمہ ہونا چاہئے۔
پاکستان کا بچہ بچہ اس بات کو محسوس کرسکتا ہے کہ مجموعی طور پر ہمارا معاشرہ انتہائی کرپٹ ہے اور کرپشن معاشرے کی رگ و پے میں سرایت کرچکی ہے لیکن یہ جان کر بھی لوگوں کو حیرت ہوگی کہ کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ مہمات پاکستان میں چلائی گئیں۔ 1949ء سے اب تک احتساب کے لیے ایک درجن سے زیادہ قوانین نافذ کئے گئے لیکن ہر مرتبہ پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہوا۔ اُس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ کرپشن کے خلاف ہر مہم بدنیتی پر مبنی تھی اور ہر مہم کا مقصد یہ تھا کہ ملک کی حقیقی سیاسی قوتوں کو احتساب کے نام پر کچل دیا جائے یا سیاست سے باہر کردیا جائے اور ایسے لوگ اقتدار پر قابض رہیں‘ جو انسانی تاریخ کی بدترین لوٹ مار کے مرتکب ہوتے رہیں اور اُنہیں پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ایبڈو اور پروڈا جیسے احتساب کے سیاہ قوانین بنائے گئے اور اُن کا نشانہ تحریک پاکستان کے اُن قائدین کو بنایا گیا‘ جنھوں نے اپنا تن‘ من اور دھن اس تحریک پر قربان کردیا اور جنھیں کرپشن کی ابجد کا بھی پتہ نہیں تھا۔ غیر سیاسی اور عوام دشمن قوتوں کی یہ بدنیتی پاکستان کے تاریخی‘ سیاسی‘ تہذیبی اور سماجی ارتقاء میں رکاوٹ بنی رہی اور پاکستان نہ صرف ایک انتہائی کرپشن زدہ معاشرہ بن گیا بلکہ پاکستانی ریاست کو ناکامی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا۔ احتساب کے نام پر جمہوری اور سیاسی عمل کو روکا گیا۔ احتساب کے نام پر آمروں نے اقتدار پر طویل قبضے جاری رکھے‘ احتساب کے نام پر جمہوری حکومتوں کو برطرف کردیا گیا۔ احتساب کے نام پر دنیا کے سکہ بند اور مانے ہوئے کرپٹ لوگوں کو غیر سیاسی حکومتوں میں شامل کیا گیا۔ احتساب کے نام پر لوگوں سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے سارے گناہ معاف کردیئے گئے جبکہ صرف وہ لوگ احتساب کے شکنجے میں رہے‘ جو جمہوری جدوجہد میں ثابت قدم رہے۔ احتساب کے نام پر پاکستان میں کرپشن کے بند توڑ کر پورے ملک کو کرپشن میں ڈبو دیا گیا۔ پھر ایک مرحلہ ایسا آیا کہ پاکستان میں کرپشن کے خلاف مہم بھی خود کرپشن بن گئی۔ کرپشن کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں میں بھی ایک مخصوص مفاد کارفرما ہوگیا۔ پارسائی کا لیبل حاصل کرنے کے لئے بھی کرپشن کا راستہ اختیار کیا گیا۔ اسی احتساب کے نام پر صرف اُن لوگوں کو معتوب کیا گیا‘ جو غیر جمہوری عناصر کی کرپشن کے نظام میں کسی بھی طرح ان فٹ تھے اور یہ انتخاب احتساب کے اداروں سے لے کر کئی ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کا وتیرہ بن گیا۔
یہ پس منظر بیان کرنے کا ہرگز مقصد یہ نہیں ہے کہ چیئرمین نیب کے بیان کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کیے جائیں۔ وہ ملک کے سب سے بڑے احتساب کے ادارے کے سربراہ ہیں اور وہ اس طرح کے بیانات دے سکتے ہیں‘ جس طرح کا بیان اُنہوں نے دیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اُن کے بیان کو غیر جمہوری قوتیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہ کریں حالانکہ ان کے اب تک سامنے آنے والے بیان سے حکومت کے خلاف کوئی ٹھوس ”کیس“ نہیں بنتا ہے۔ چیئرمین نیب نے جو کچھ کہا ہے‘ وہ ایک عمومی صورت حال ہے۔ ٹیکس چوری ہر دور میں ہوتی رہی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سال بہ سال رپورٹیں دیکھی جائیں تو وہ غیر منطقی نظر آتی ہیں۔ ان رپورٹوں کے مطابق ایک سال پاکستان میں کرپشن عروج پر ہوتی ہے‘ پھر دوسرے سال اچانک کم ہوجاتی ہے اور تیسرے سال اچانک کرپشن میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹیں بھی ہر سال ایسی ہی ہوتی ہیں‘ جیسی موجودہ حکومت کے پانچ سال کی ہیں۔ بڑے منصوبوں میں ہر دور میں کرپشن ہوتی رہی ہے۔ چیئرمین نیب کے بیان سے قطع نظر ایسی باتیں بھی چل رہی ہیں کہ پاکستان میں صفائی کیلئے نگران حکومت کو طویل مدت کے لئے قائم کیا جائے۔ ایسی باتیں کرنے والے یقیناً کیسی نہ کیسی کی خواہش کا اظہار کررہے ہوں گے۔ پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں اور سول سوسائٹی کو متحد ہونا پڑے گا اور اگر کوئی ایسا منصوبہ ہے تو اُسے ناکام بنانا ہوگا۔ حکومت نے اپوزیشن کو دعوت دی ہے کہ وہ چیئرمین نیب کے بیان پر تحقیقات کے لئے مدد کرے۔ اپوزیشن کو نہ صرف اس حوالے سے تعاون کرنا چاہئے بلکہ کرپشن کے خاتمے کے لئے ایک مشترکہ قومی پالیسی تشکیل دینے کے لئے آگے بڑھ کر کام کرنا چاہئے۔ چیئرمین نیب کو کرپٹ عناصر کے خلاف اس طرح جراتمندی کے ساتھ کارروائی کرنی چاہئے‘ جس طرح جرات مندی کے ساتھ اُنہوں نے بیان دیاہے۔ اگر غیر سیاسی قوتیں غیر آئینی طریقے سے ”صفائی“ کے لئے تویہ بھی سمجھا جائے گا کہ نیب کا ادارہ ناکام ہوگیا ہے۔ نیب کو اپنی کارکردگی بھی مزید بہتر بنانی چاہئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لئے پارلیمانی اور آئینی اداروں کو مضبوط کیا جائے۔ اور غیر جمہوری قوتوں کو غیر آئینی اور پرانے حربے استعمال کرنے اور کرپشن میں مزید اضافے کے لئے مواقع پیدا ہی نہ ہونے دیئے جائیں۔ کرپشن ختم ہونی چاہئے لیکن کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے نام پر کسی اور مہم جوئی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مزید تباہی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
تازہ ترین